یادوں کی پٹاری – 7
میں بھی بہت تھکا ھوا لگ رھا تھا، شام ھونے والی تھی ابٌاجی میرا تھامے مجھے نئے گھر کی طرف لے جارھے تھے اور میں غنودگی میں ان کے ساتھ بڑی مشکل سے چل رھا تھا، پھر پتہ ھی نہیں چلا کہ کب آنکھ لگ گئی، رات کے نہ جانے کس وقت والدہ نے کھانے کیلئے اُٹھایا دیکھا تو ایک لالٹین جل رھی تھی، شاید لوگوں کے گھروں سے کچھ کھانا آیا ھوا تھا ، سب کھانے میں مصروف تھے اور میں کھانے کے ساتھ ساتھ اپنے اسکول کے بارے میں اور وھاں کے اپنے دوستوں کے بارے میں سوچ رھا تھا جنہیں میں بہت دور چھوڑ آیا تھا – !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
تھکان کے وجہ سے صبح اٹھنے میں مجھے بہت مشکل پیش آئی، ورنہ چاھے کچھ بھی ھوجائے صبح جلدی اٹھنے کی ایک عادت تھی، چاھے چھٹی کا دن ھی کیوں نہ ھو، مگر دو دن کی تھکان کی وجہ سے اٹھتے اٹھتے کافی دور ھو چکی تھی، چاروں طرف ساماں بکھرا ھوا تھا، والدہ ھماری کچھ اور محلےکی عورتوں کے ساتھ مل کر سامان کو ترتیب دے رھی تھیں، اور چند چھوٹے بڑے بچے میرے چاروں طرف مجھے اپنی طرف توجہ دلانے کی کوشش میں لگے ھوئے تھے تاکہ ان کی دوستی کے حلقے کا منمبر بن جاؤں، کچھ بچے دور سے ھی کھڑے مجھے دیکھ کر ھنس رھے تھے، جیسے میں کوئی کسی اور دنیا کی مخلوق ھوں –
مجھے کچھ کچھ تین سال پہلے کی دھندلی سی تصویر نمایاں ھوتی نظر آرھی تھی، جب میں شاید تقریباً پانچ سال کا تھا، اور والدہ اور دوسرے بھی مجھے یاد دلانے کی کوشش میں مصروف تھے، جو مجھے آھستہ آھستہ ذھن کے ایک گوشے میں کچھ بھولے بسری باتیں کروٹ لے رھی تھیں – بہرحال کچھ جاننے کی کوشش میں باھر کی طرف رخ کیا اور اس نئی جگہ کو اپنا پن دینے کے لئے آس پاس کا نظارہ کرنا شروع کیا، کچھ میرے ھم عمر بچے بھی ساتھ رھے، جیسے وہ مجھے گائیڈ بن کر کسی کھنڈرات کی سیر کرارھے ھوں اور ساتھ ساتھ کمنٹری بھی چل رھی تھی،
آٹھ سال کی میری عمر اور نئی جگہ نئے لوگ نئے شہر میں ایک پرانا محلہ، نہ بجلی، نہ پانی کی سہولت، میں تو کچھ پریشان سا ھوگیا،
کیونکہ جہاں سے ھم سب آئے تھے وھاں پکے دو کمرے کا سرخ اینٹوں کا بنا ھوا کوارٹر تھا، پانی اور بجلی کا آرام تھا چمنی والی انگیٹھیاں دونوں کمروں میں تھیں، کیونکہ وھاں سردی بہت ھوتی تھی، سردیوں میں ھم سب انگیٹھی کے چاروں طرف بیٹھ کر ٹھنڈ سے بے فکر خوب والدین کے ساتھ لاڈ پیار میں لگے رھتے، کیا سہانا وقت تھا – اب نہ جانے کیوں رھنے کیلئے اس جگہ کو ابا جی نے منتخب کیا، ایک کچی آبادی میں، شاید سرکار سے مکان کا کرایہ وصول کرنے کیلئے اپنے لئے گورنمنٹ کی دیوار کے کنارے ایک مٹی کا کچا سا مکان بنایا تھا – وھاں پر چند اور بھی اسی طرح کے گھر تھے، لیکن سب سہولتوں سے محروم تھے – گلیاں بھی ٹیڑھی میڑھی، کچھ گھروں کی دیواریں ٹوٹی پھوٹی اور اوپر سے شور مچاتے بچے، اس ماحول کا تو میں بالکل عادی نہیں تھا –
اب کرتے کیا نہ کرتے مجبوری تھی جہاں والدین وہاں ھم، میں دو تین دن تک تو پریشان ھی رھا، اور اپنے آپ کو بہلانے کی بھی کوشش کرتا رھا، نہ کوئی مطلب کا دوست تھا، اور نہ دل مانتا تھا کہ کسی سے دوستی کروں، ایک چرچڑا پن محسوس کرنے لگا تھا –
لیکن بعد میں مجھے اس جگہ سے ایسی محبت ھوئی کہ اب جب بھی پاکستان چھٹی جاتا ھوں میں وھاں کا ضرور ایک چکر لگاتا ھوں اور اپنے کھوئے ھوئےمعصوم بچپن سے لیکر جوانی تک کی حسین یادوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ھوں – وہ علاقہ اب بھی گلیوں اور کوچوں کے حساب سے ویسا ھی ھے لیکن کافی بہتری بھی آگئی ھے، پانی بجلی اور سوئی گیس کی سہولت موجود ھے، اور تقریباً تمام مکان پکے سیمنٹ کے بن چکے ھیں اور ھمارا مکان اب کسی اور کی ملکیت ھے اس نے بھی اچھا خاصا مکان بنا لیا ھے – کاش کہ وہ مجھے یہ میرا مکان مجھے بیچ دے، کاش کہ میرے پاس اتنا پیسا ھو کہ اس مکان کو خرید سکوں،
میں جب بھی اس اپنے پرانے محلے کی طرف جاتا ھوں، تو میں اپنے آپ کو چاروں طرف وھی خوشبو سے بھری ھوئی یادوں میں گھرا ھوا پاتا ھوں – یہاں میں نے تقریباً اپنی زندگی کے خوبصورت اور حسین یادوں کے ساتھ دس سال گزارے ھیں، مجھے اس علاقہ کو والدیں کی خواھش کی مطابق 18 سال کی عمر میں چھوڑنا پڑا، لیکن میں اب تک ذہنی طور پر وھیں ھوں –
کاش کہ وہ وقت دوبارہ واپس آجائے کاش !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔