یادوں کی پٹاری – 6
تیزگام سندھ کے صحراؤں کو عبور کرتی ہوئی اپنی مخصوص سروں میں سیٹیاں بجاتی ہوئی کھٹ کھٹا کھٹ بہت تیزی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی – دوسرے دن کی روشنی چاروں طرف پھیل چکی تھی،
چلتی ٹرین میں منہ ہاتھ دہونا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن والد صاحب نے کسی نہ کسی طرح سے منہ ہاتھ دھلوا ہی دیا، پھر ڈبل روٹی اور شاید مکھن یا جام وغیرہ سے ناشتہ کرکے فارغ ہوئے ، کسی اسٹیشن سے والد صاحب نے کیتلی میں چائے بھروا لی تھی، اور شاید دودھ بھی ایک بڑے گلاس میں ٌلے چکے تھے، جو ہم چھوٹے بہن بھائیوں کیلئے تھا –
میں یہ بالکل نہیں چاہتا تھا کہ اس تیزگام کا سفر کبھی ختم ہو، والد صاحب کی زبانی ہی پتہ چلا کہ اب ہم کراچی پہنچنے والے ہیں،
کراچی کے کینٹ اسٹیشن کے نزدیک پہنچنے سیے پہلے ٹرین کی رفتار کچھ دھیمی ہو رھی تھی اور والد اور والدہ اپنا سارا سامان سمیٹنے میں مصروف تھے، ہم بہں بھائی ٹرین کی کھڑکی سے باھر دیکھنے میں مگن تھے، اور میں کسی فلاسفر کی ظرح اپنی بہن کو شہر کی باتیں بنا کر اسے مرعوب کرنے کی ناکام کوشش کررہا تھا ،جبکہ مجھے خود کچھ معلوم نہیں تھا، وہ بھی میری کسی بات کو تسلیم ہی نھیں کرتی تھی کیونکہ وہ مجھ سے کہیں زیادہ سقراط کی بھتیجی تھی،
اکثر ہم دونوں کے درمیان جھگڑا ہی رھتا تھا ہاں اگر کوئی کام پڑ جائے تو خوشامد کرنے سے نہیں چوکتی تھی، وہ مجھ سے تقریباً دو سال چھوٹی تھی – ویسے ہم دونوں بہن بھائی میں محبت بھی بہت تھی، ساتھ کھیلتے ساتھ لڑتے جھگڑتے پھر ایک دوسرے کو منا بھی لیتے تھے، تیسری تو بہت چھوٹی تھی –
ٹرین پلیٹ فارم پر آہستہ آھستہ رک رہی تھی باہر لوگوں کا ایک ھجوم تھا، قلی اپنے چکروں میں پھر رہے تھے اور کچھ اپنے رشتہ داروں اور جاننے والوں کو لینے آئے تھے، کچھ ہاتھ ہلا رہے تھے کچھ ٹرین میں جھانک رہے تھے کہ شاید جاننے پر نظر پڑ جائے، میں بھی سوچ رہا تھا کہ ھمیں بھی کوئی لینے والا آیا ہوگا، لیکن میرا اندازہ غلط نکلا، ابا جی نے کسی کو اطلاع ہی نہیں دی تھی، بہرحال اتنا زیادہ سامان اور صرف دو قلی، جو ہمارا سارا سامان اٹھائے ہوئے تھے، والدصاحب نے بھی بچا کھچا سامان اٹھا رکھا تھا، ان کے پیچھے پیچھے ہم سب چلتے ہوئے اسٹیشن کے باہر نکل آئے،
باہر کا منظر بھی معمول کی طرح لوگوں کا ایک ھجوم اور اس وقت تانگے والے، سایکل رکشہ والے، گدھا گاڑی والے، آواریں لگا لگا کر اپنے پاس بلا رہے تھے، دو چار تو والد صاحب کے آگے پیچھے منڈلا رہے تھے، مگر والد صاحب بچتے بچاتے ان سےجان چھڑاتے ہوئے، اول فول بکتے ہوئے، ایک گدھا گاڑی کے پاس جاکر رک گئے، قلیوں کو دے دلا کر فارغ کیا اور بھر گدھا گاڑی والے سے بات کرنے لگے شاید سامان لے جانے کیلئے،!!!!
میری نظریں تو سامنے کھڑی ہوئی ٹراموں پر ٹکی ہوئی تھیں، بالکل ٹرین کی طرح سڑک کے اوپر باری باری پٹری پر ٹن ٹن کرتی ہوئی چل رہی تھیں، میں حیران بھی تھا اور شاید یہ سوچ رہا تھا کہ اگر والد صاحب ا اس ٹرام میں بیٹھ کر گھر جائیں تو کتنا مزا آے، باہر اس کے علاوہ اس وقت کی ٹیکسیاں جو بہت بڑی بڑی تھیں اور کچھ بسیں بھی نظر آرہی تھیں، جن کے آگے پیچھے سے دھواں بھی اٹھ رہا تھا اور پوری بس تھرتھراتی ہوئی کانپ بھی رہی تھی اور جو بسیں خاموش تھیں انکے ڈرائیور شاید بس کو اسٹارٹ کرنے کے لیئے آگےایک سریہ سا ڈال کر بار بار گھمارہے تھے، اس وقت ہر موٹرگاڑی کو اسی طرح اسٹارٹ کیا جاتا تھا،
مگر میری امیدوں پر پانی پھر ہی گیا جب ابٌا حضور نے چلا کر کہا چلو بیٹھو، میں نے گھبرا کر جو مڑ کے دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں سارا سامان
گدھا گاڑی پر جم چکا تھا اور والدہ اپنا کالا برقعہ سنبھالتی ہوئی سامان کےاوپر بیٹھنے کی کوشش کررہی تھیں پھر ابٌا جی نے گود میں اٹھا کر ہم بہن بھائی کو اوپر بڑی مشکل سے بٹھایا اور خود گدھا گاڑی چلانے والے کے برابر بیٹھ گئے اور پھر چلاچل گدھا بیچارہ ساری مخلوق بمعہ سامان کو لئے گاڑی بان کے اشارے پر گاڑی کھینچنے کی کوشش کر رہا تھا، بڑی مشکل سے کچھ لوگوں نے گدھاگاڑی کو دھکا لگا کر بےچارے گدھے کو گاڑی کھینچنے میں مدد کی –
بس پھر کیا تھا گدھے نے اپنی چال دکھائی اور آہستہ آہستہ دوڑنا شروع کردیا، گاڑی بان بھی اپنی ایک مخصوص بولی میں گنگناتا ہوا ساتھ ساتھ گدھے کو بھی لگام تھامے ہدایتیں دیتے ہوئے مست تھا، اس وقت اسے مشکل پیش آتی جب کوئی چوراھا سامنے آجاتا، اگر کوئی سپاھی ہماری طرف کا ٹریفک روک کر دوسری طرف کی گاڑیوں کے جانے کا اشارا کرتا، کیونکہ اسے گدھے کو روکنے اور دوبارہ بھگانے میں بہت مشکل درپیش آتی تھی-
اس زمانے میں کوئی بھی الیکٹرک سگنل نہین ہوا کرتا تھا ، بس آپ ہر چوراھے پر سفید وردی پہنے ہوئے ایک سپاھی خود ہی ٹریفک کنٹرول کرتے ہوئے ناچ رہا ہوتا تھا – ایک عجیب سا منظر تھا، ہماری گدھا گاڑی روڈ پر دوڑی جارھی تھی اور چاروں طرف بھی ساتھ ساتھ گھوڑا گاڑیاں گدھا گاڑیاں ساتھ اُونٹ گاڑیاں بھی، سائیکل والے، سائیکل رکشہ والے کچھ اس وقت کے ٹرک، بسیں، پوں پوں کرتی کھڑکھڑاتی ہوئی چل رہی تھیں، اس وقت کے سادے لوگ بس دیکھتے اور ہمیں دیکھ کر مسکراتے ہاتھ ہلاتے ہوئے گزر رہے تھے، کبھی کبھی کوئی گڑھا وغیرہ آجاتا تو ہم سب سامان سمیت اوپر اچھل جاتے،اگر آج کل کی نظروں سے دیکھو تو ایسا لگے جیسے کوئی “ٹام اینڈ جیری“ کی کارٹون فلم چل رہی ہو – چھوٹی چھوٹی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور ہر قدم پر مختلف قسم کے گڈھے، اس پر یہ خودکار سواریاں !!!!!!!
بڑی مشکل سے یہ شاھی سواری منزل پر پہنچی، حالت خراب ہو چکی تھی سب پرزے ڈھیلے ہو چکے تھے، پہنچنے سے پہلے ہی کچھ بچوں کو گدھا گاڑی کے ساتھ ساتھ بھاگتے دیکھ رہا تھا اور گاڑی کے رکتے ہی کئی لوگ بھی نزدیک آگئے اور سامان اتارنے میں مدد کرنے لگے دو تین عورتیں آئیں اور والدہ کو اور چھوٹی بہنوں کو ساتھ لے گئیں اور گدھاگاڑی کے سامنے ابٌاجی کے پاس لوگوں کو سامان اتارتے دیکھ رہا تھا اور مجھے بھی لوگ پیار سے بلارہے تھے شاید یہ سب والد صاحب کے دوست تھے،
میں بھی بہت تھکا ہوا لگ رہا تھا، شام ہونے والی تھی ابٌاجی میرا تھامے مجھے نئے گھر کی طرف لے جارہے تھے اور میں غنودگی میں ان کے ساتھ بڑی مشکل سے چل رہا تھا، پھر پتہ ہی نہیں چلا کہ کب آنکھ لگ گئی، رات کے نہ جانے کس وقت والدہ نے کھانے کیلئے اُٹھایا دیکھا تو ایک لالٹین جل رہی تھی، شاید لوگوں کے گھروں سے کچھ کھانا آیا ہوا تھا ، سب کھانے میں مصروف تھے اور میں کھانے کے ساتھ ساتھ اپنے اسکول کے بارے میں اور وہاں کے اپنے دوستوں کے بارے میں سوچ رہا تھا جنہیں میں بہت دور چھوڑ آیا تھا – !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
آج کےلئے بس اتنا ہی، اگلے باب تک کیلئے اب اجازت چاہونگا امید ھے آپ سب اپنا خیال رکھیں گے اور مجھے اپنی دعاؤں میں جگہ دیں گے پھر ملاقات ہو گی اگر زندگی نے وفا کی تو !!!!!!!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔