: یادوں کی پٹاری-5
تیزگام اپنی منزل کی طرف تیزی سے رواں دواں تھی اور میں ٹرین کی کھڑکی کے پاس بیٹھا باھر سامنے کے مناظر کو بہت تیزی کے ساتھ مخالف سمت کی طرف بھاگتے ہوئے بڑے انہماک سے دیکھ رہا تھا، عمر تقریباً آٹھ برس کے لگ بھگ ہوگی، ویسے بھی مجھے کوئی بھی سواری ہو بس ہو کوئی کار یا ٹیکسی یا پھر کوئی گھوڑا گاڑی ہی کیوں نہ ہو، ھمیشہ ایک کنارے بیٹھنے کا شوق رہا ہے، کیونکہ مجھے شروع بچپن سے ہی سفر کے دوران باھر کا منظر دل کو بہت اچھا لگتا تھا اور یہ ھمیشہ خواہش رہی کے یہ سفر کبھی ختم نہ ہو، جو اب تک قائم ہے، اور اب تک سفر میں ہی ہوں –
پہلے تو والدیں سے ضد کرکے ایک کونا پکڑ کر بیٹھا کرتا تھا اور اب درخواست کرکے کونے کی سیٹ لینے کی کوشش کرتا ہوں، کھڑکی کے پاس بیٹھنے کا ایک الگ ہی مزا ہے، کیونکہ اس سے چاھے کوئی بھی سواری ہو، اندر کے ماحول سے نکل کر انسان باہر کی دنیا میں گم ہو جاتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہم بھی باہر کا ایک حصہ ہیں، شاید سب لوگ بھی میری طرح ایسا ہی سوچتے ہوں گے –
ایک بات کا تو میں یہاں ذکر ضرور کرونگا کہ میری اللٌہ تعالیٰ نےدیر یا سویر لیکن تقریباً تمام خواہشات کو پورا ضرور کیا، اور مجھے اس کا تو مکمل یقین ہے کہ اگر آپ نیک نیتی سے کوئی دل سےخواھش کریں تو وہ ضرور اس کی تعبیر حقیقت میں ملتی ہے –
اس وقت تیزگام سے راولپنڈی سے کراچی کا سفر تقریباً 24سے25 گھنٹے میں مکمل ہوتا تھا، والدین کی زبانی مجھے معلوم ہوا کہ ٹرین کا میرا یہ پانچواں سفر ہے، کیونکہ والد صاحب کا ہر دو تین سال بعد تبادلہ ضرور ہوتا رہتا تھا، کراچی اور راولپنڈی کے درمیان، پچھلے سفر کا کچھ کچھ دھندلا سا یاد ہے شاید 5 سال کی عمر ھوگی اور کراچی کا اپنا گھر بھی ہلکا ہلکا ذہن میں خاکہ بھی ہے-
خیر بات ہو رہی تھی اپنے تیزگام کے سفر کی، ہر سفر میں ہر مختلف موسموں کا لطف اٹھانے کو بھی ملا، سرسبز لہلہاتے کھیت خاص طور سے گندم اور مکئی کے سرسبز شاداب کھیت، تو کبھی پیلے پیلے سرسوں کے لہراتے ہوئے کھیت، کبھی کبھی فصلوں کی کٹائی کے وقت سب مردوں، عورتوں اور بچوں، چھوٹے بڑوں کو دیکھ کر اتنی خوشی ہوتی تھی کہ میں بتا نہیں سکتا، اکثر وہ ٹرین کو دیکھ ہاتھ ہلاتے، تو میں بھی خوشی سے ہلاتا، ایسا لگتا جیسے وہ مجھے الوداع کہہ رہے ہوں اس وعدے پر کہ میں دوبارہ واپس آؤں، وہ سب مجھے اپنے سے لگتے تھے،
میں ھمیشہ اسی انتطار ہی میں رھتا تھا کہ دوبارہ ٹرین کا سفر کب ہوگا کیونکہ سرسبز کھیتوں کے علاوہ اور بھی کئی چیزیں مجھے بار بار یاد آتی تھیں، موسمبی مالٹے سنگتروں کے باغات جب سامنے سے گزرتے تو دل چاھتا تھا کہ کود جاؤں اور باغوں میں جاکر خوب کھیلوں اور موسمبیوں مالٹوں کو توڑ توڑ کر کھاؤں، اس کے علاوہ دریاؤں اور انکے پلوں پر سے گزرتے ہوئے ایک عجیب سی خوشی محسوس ہوتی تھی اور ٹرین کی ایک مخصوص آواز کھٹ کھٹا کھٹ مختلف جگہاؤں پر اپنی سر بدل دیتی تھی کھیتوں میں ایک الگ آواز، دریاؤں کے پلوں پر کوئی اور طرز، اور شہروں کے بیچ میں سے گزرتی ہوئی ایک نئے سروں میں سیٹی بجاتی شور مچاتی گزر رہی ہوتی تھی – کیا خوبصورت لگتا تھا کبھی کبھی تو ایک خوف سا بھی لگتا تھا جب ہماری ٹرین کسی سرنگ میں سے گزر رہی ہوتی تھی، ایک دم اندھیرا ہو جانا، اور ٹرین کی آواز میں بھی ایک ہلکا سا ڈراونی تاثر، ساتھ ہلکی سی لائیٹ بھی کمپارٹمنٹ میں آن ہو جاتی، اور سب کے چہرے ایک عجیب سا ڈرا ڈرا سا ماحول بن جاتے، اور میں پھر بھی اس ماحول میں ہلکے خوف کے ساتھ لطف اندوز بھی ہوتا رہتا –
اس وقت تیزگام صرف بڑے بڑے اسٹیشن پر ہی رکا کرتی تھی، مجھے لاہور کا اسٹیشن بہت پسند تھا، ایک تو بہت بڑا دوسرے ایسا لگتا تھا کہ کسی بڑی سی حویلی کے اندر گھسی چلی جارہی ہو، مجھے ہر اسٹیشن پر وہاں کے مختلف حاکروں اور قلیوں کی آوازیں بھی ایک خوشی کا تاثر چھوڑتی تھیں، چاہے رات کا وقت ہو یا دن کی روشنی ہو ہر وقت ٹرین کے رکتے رکتے وہی ایک ہی قسم کی آوازیں شروع ہوجاتیں –
کبھی “ چائے گرم “ تو ساتھ ہی “ کھانا گرم“ اور کبھی“ آلو چنے کی چاٹ“ ملتان اور خانیوال کے اسٹیشن آنے پر “ملتانی حافظ جی کا سوہن حلوہ“ کی آوازیں گونجتیں اور وزیرآباد پہنچتے ہی چھری چاقو اور قینچی اسٹینلیس اسٹیل کے برتن بھی ریڑیھوں پر سجے ہوئے ہر کمپارٹمنٹ کے سامنے حاکرز آوازیں لگاتے ہوئے گزرتے، کہیں حیدراباد اور کوٹری جنکشن میں ٹرین کے پہنچنے پر “حیدراباد کی چوڑیاں“ اور گرمیوں میں “ ٹھنڈی بوتل “ تو کبھی “لسی اور دودھ کی بوتلیں“ بھی لوگ بیچتے نظر آتے، میرا دل تو بہت چاھتا تھا کہ یہ چیزیں خرید کر کھاؤں لیکن والد صاحب ڈانٹ کی وجہ سے مجبور تھا، بس وہ ھمیشہ گھر سے ساتھ لائی ھوئی چیزوں پر ہی گزارا کرتے- اور کبھی بھی مجھے اسٹیشن پر اترنے بھی نہیں دیا – مگر یہ سارے شوق بعد میں ضرور پورے کئے جب کچھ بڑ ا ہوا اور دوستوں کے ساتھ ٹرین میں سفر کی اجازت ملی –
گھر کی بنائی ہوئی چیزوں میں زیادہ تر قیمہ، پراٹھے اور اچار یا چٹنی دوپہر یا رات کے کھانے کیلئے اور چھوٹے بہن بھائی کیلئے علیحٰدہ سے دودھ اور ان کے مطلب کی چیزوں کا بھی انتظام ہوتا تھا، اس کے علاوہ جب کبھی میں باہر کی چیزوں کیلئے ضد کرتا یا پھر والد صاحب کی فرمائش پر، کچھ پھل، چیوڑہ دال سیو اور خشک میوہ جات راستہ بھر میں والدہ اپنی ایک ٹوکری سے وقفے وقفے سے نکالتی رھتیں مگر مجھے کبھی بھی باہر کی چیزیں کھانے نہیں دیتے تھے،
آج تو سارہ موضوع سفر میں ہی گزر گیا، کراچی پہنچنے پر حالات نے کیا کروٹ لی یہ اگلی نشست سے آغاز کرونگا، لکھتے لکھتے کچھ مزید موضوع سے ہٹ کر کچھ زیادہ ہی لکھ جاتا ہوں، جسکی میں معذرت چاہوں گا –
اس وعدہ کے ساتھ کہ آپ سب خیال رکھیں گے اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھئے گا، اجازت چاھتا ہوں اللٌہ حافظ !!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔