مرشد کے انتقال کے بعد میں نے ہار تو تسلیم نہیں کرلی۔۔۔۔یہ سوال اکثر اپنے آپ سے کرتا ہوں۔۔۔۔۔مگر جواب تو میرے پاس ہی ہے ۔۔مرشد نے ہمیشہ ہمت افزائی کی۔۔۔انہوں نے منفی پہلو کو بھی مثبت بنانے کی ترغیب دی۔۔۔مرشد نے قلم پکڑ کر لکھنا نہیں سکھایا۔۔۔۔میں نے انہیں اس ادب کی دنیا میں مرشد تسلیم کیا۔۔۔اور وہ بھی اپنی مریدی میں لے بیٹھے۔۔۔۔پر یہ رفاقت طوالت سے پہلے ہی اندھیرے کے نذر ہوگئی۔۔۔//
مرشد کے چلے جانے کے بعد کی بے چینی اور میرے چہارسو چھائی ہوئی کرب و درد کا سلسلہ ۔۔۔جو میرے اندر کچھ نہ کچھ جگاتا رہتا ہے۔۔۔وجہ ایک ہی وجہ۔
۔۔۔۔۔۔جو میرے لکھنے کی وجہ بن گئی۔۔لکھتا تو میں بچپن سے تھا۔۔۔کہاں سائینس کی جولانیاں۔۔۔اور خالی شکم اردو ادب کی خدمت۔۔۔۔۔اب میں قلم اٹھاؤں۔۔۔تو کس لیے۔۔؟؟
لکھوں مگر کس کے لیے۔۔۔؟؟
ادب کا مطالعہ کروں تو کس کے لیے۔۔۔؟؟
لکھ کر تسلی ہو جائے گی۔۔۔۔؟؟
یا پھر لکھنے سے میرے درد میں کمی ہو جائے گی۔۔؟؟
ایک مرشد ہی تو جو اندر کے درد اور جذبات سے واقفیت رکھتے تھے ۔۔۔گھنٹوں اس دنیا کا نشیب و فراز سمجھتاتے رہتے تھے۔۔پر اب لوگوں کا اصلی چہرہ سامنے آ ہی گیا۔۔۔۔میرے اندر کوئی دوسرا کس حد تک داخل ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔پر میں دیگر وجوہات کی وجہ کر ذہنی سطح۔۔۔پر احساس کی حد تک جاتے ہوئے خود کو خود سے قریب کرتے ہوئے ۔۔۔۔جوڑتے ہوئے۔۔۔۔ان مطلب پرست لوگوں سے کاٹ لیتے ہیں یا پھر کٹ جاتے ہیں۔۔۔//
اپنے اس تجزیہ کے سہارے میں خود کو اس نقطے پر محسوس کرتا ہوں کہ۔۔۔۔۔یہ سب میرے جذبات کا ہی کرا دھرا ہے۔۔۔شاید ایسا ہی ہے۔۔۔۔احترام ۔۔۔محبت۔۔۔۔جذبات کی اب قیمت کیا ہے۔۔۔اولاد بہت سلیقے سے درد دیتی ہے ۔۔۔پر ایک مرید محبت میں سب کچھ ہار دیتا ہے ۔۔۔کسی سے کچھ نہیں کہہ پاتا ہے ۔۔۔ادب ۔۔۔؟؟
اور ادب کی دنیا میں حد پرواز میں کہیں ایک خوف بھی چھپی ہے۔۔۔۔میں سب کچھ چھوڑ کر مرشد کی یادوں کے ہمراہ اب بھی پراوز کر رہا ہوں۔۔۔//
زندگی ۔۔۔حالات ۔۔۔اور حادثات کے موسم نے مجھے بھی اپنا رنگ دکھلا ہی دیا۔۔۔۔اور۔۔۔۔
میں جاوید اختر ذکی خان۔۔۔۔اپنی آنکھوں میں سپنیلی۔۔پرچھائیاں سمیٹے ۔۔دنیا کو خوابوں کے رنگ میں دیکھتا۔۔۔اور ۔۔محسوس کرتا ہوں ۔۔۔۔
مگر ہر بار ایک آئینہ ٹوٹ جاتا ہے ۔۔۔۔
میرے عزائم میرے مرشد کے ہمراہ میرے دل میں موجود ہے۔۔۔۔اب کس کے ہاتھوں پر اب یہ دنیا ناچتی ہے۔۔۔اور میرے ہاتھوں پر یہ دنیا کب ناچے گی۔؟؟؟؟۔اور میرے اندر کی دنیا اب کیوں نہیں مسکراتی ہے۔۔۔؟؟اب قلم کے اشاروں پر یہ الفاظ بھی نہیں جھوما کرتے ہیں۔۔۔اندر کچھ سسک رہا ہے ۔۔۔۔وہ کھولتا ہوا لاوا سا ۔۔جو اب میگما بن گیا ہے۔۔۔۔شاید نہیں۔۔۔یقینن ۔۔//
زندگی ۔۔۔اور ۔۔ادب سے پھر نا جانے کتنے چھلکے اتر جائیں۔۔۔۔۔پر مرشد کے مانند ہی میرے ہاتھوں میں قلم رہے گا۔۔۔۔یادیں ! جس سے زندگی کا بہت گہرا۔۔جڑاؤ ہے کہ میں اسے کبھی بھولتا ہی نہیں ہوں ۔۔
میں ہمیشہ پرانے شہر کے پرانی آواز میں رہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔اس مطلب سے پر دنیا سے دور۔۔۔۔جہاں محبت زندہ ہے عقیدت زندہ ہے ۔۔۔احترام زندہ ہے۔۔۔۔مرشد کی محبت۔۔۔وہ مجھے بلاتے ہیں ۔۔۔۔وہ مجھے آواز دیتے ہیں۔۔۔۔۔آیا مرشد۔۔۔؟؟
میرے الفاظ اب بولتے ہیں مرشد
آپ کی اس بے لوث رفاقت کا ہی تقاضہ ہے کہ آپ زندہ ہیں ۔۔آپ کہی نہیں گئے۔۔۔؟؟
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...