ارفع و اعلی تھی سرسید کی ذات
کار آمد جن کی تھیں فکری جہات
کچھ نہیں معلوم ہم ہوتے کہاں
ہوتا گر شامل نہ ان کا التفات
ہم کو دکھلائی صراطِ مستقیم
چاک کرکے پردہ ہائے ممکنات
تھے وہ اپنے آپ میں اک انجمن
جن کی اک شمعِ فروزاں تھی حیات
جاری و ساری ہے ان کا فیض عام
کرنہیں سکتا بیاں جن کی صفات
خلد میں درجات ہوں ان کے بلند
رنج و غم سے دے خدا ان کو نجات
شخصیت تھی ان کی برقی عہد ساز
زیبِ تاریخِ جہاں ہے ان کی ذات
قوم کے رہنما تھے سرسید
آحمد علی برقی اعظمی
قوم کے رہنما تھے سرسید
فخر دانشوراں تھے سرسید
خود میں اک انجمن تھی اُن کی ذات
شمعِ اردو زباں تھے سرسید
جس سے ہے ضوفشاں جہانِ ادب
ایسی اک کہکشاں تھے سرسید
پھونک کر روحِ زندگی اس میں
جسمِ ملت کی جاں تھے سرسید
وہ علی گڈھ ہو یا کہ غازیپور
ان کی روحِ رواں تھے سرسید
ہے رواں اُن کا ’’ چشمۂ رحمت ‘‘
ایک مدت جہاں تھے سرسید
اب بھی ہے جو رواں دواں ہرسو
ایسا اک کارواں تھے سرسید
اُن کو مانیں نہ مانیں بھارت رتن
شانِ ہندوستاں تھے سرسید
ویسے ہی ضوفشاں ہیں وہ برقیؔ
جس طرح ضوفشاں تھے سرسید
یوم سرسید اور اس کی عصری معنویت : منظوم تاثرات
احمد علی برقی اعظمی
جشن سرسید منانا بھی ضروری ہے مگر
قومی و ملی مشن بھی ان کے ہوں پیش نظر
اس کی عصری معنویت آج بھی ہے برقرار
جس ضرورت کے لئے کوشاں رہے وہ عمر بھر
کیجئےشرمندہ تعبیر سرسید کے خواب
جس سے ان کے کارنامے ہر طرف ہوں جلوہ گر
ہے ضروری علم کی ترویج ازروئے حدیث
علم ہی دراصل ہے نخل سعادت کا ثمر
اک زمانہ تھا کہ اپنا دبدبہ تھا ہر طرف
” نیل کے ساحل سے لے کر تا بحد کاشغر ”
ابن رازی تھا کوئی کوئی عمر خیام تھا
ہوگئے ناپید اب کیوں ہم میں ایسے دیدہ ور
کیجئے برقی خدارا آپ اس کا احتساب
تاکہ ہو نسل جواں علم و ہنر سے بہرہ ور
بیادِ یوم سرسید
احمد علی برقی اعظمی
یاد رکھیں یومِ سرسید ہے آج
ہے دلوں پر اہل دل کے جن کا راج
آج ہی پیدا ہوا وہ عبقری
جس نے بدلا وقت کا اپنے مزاج
کرگئے پیدا وہ اک فکری نظام
ختم کرکے سارے فرسودہ رواج
عہد میں اپنے جہالت کے خلاف
تھی بلند اُن کی صدائے احتجاج
زندۂ جاوید ہیں اُن کے نقوش
کام ایسے کرگئے بے تخت و تاج
جن کے دل میں ملک و ملت کا ہے درد
ہیش کرتے ہیں انھیں اپنا خراج
قوم کے تھے وہ حقیقی رہنما
معترف ہے کام کا اُن کے سماج
عصرِ حاضر میں بھی برقی اعظمی
ہے ضرورت اُن کے ہوں سب ہم مزاج
نذرِ محسنِ ملک و ملت و بانی مسلم یونیورستی سر سید احمد خان
احمد علی برقی اعظمی
اگر ہوتے نہ سرسید نہ جانے ہم کہاں ہوتے
زباں رکھتےہوٸے بھی اپنے منھ میں بے زباں ہوتے
علی گڈھ میں اگر قاٸم نہیں کرتے وہ اے ایم یو
نہ جانے کتنے اہل علم بے نام و نشاں ہوتے
اگر روشن نہیں کرتے چراغ علم و دانش وہ
ادب کے اتنےمہر و ماہ کیسے ضوفشاں ہوتے
اگرکرتے نہیں ترویج وہ روشن خیالی کی
مشاہیر ادب اپنے نہ زیب داستاں ہوتے
حسین آزاد و حالی، شبلی و ڈپٹی نذیر احمد
سپہر فکروفن کی کیسے برقی کہکشاں ہوتے
علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کی تاسیس کی صد سالہ تقریبات اور اس کی علمی و ادبی خدمات پر منظوم تاثرات
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
ہوگٸی اے ایم یو کی تاسیس کی پوری صدی
ضوفگن ہے علم کی جس سے جہاں میں روشنی
جاری و ساری ہے سرسید کا یہ علمی مشن
ملک و ملت کے لٸے تھی وقف جن کی زندگی
ہے یہ دانشگاہ فکروفن کا دلکش اتصال
ٕبخشتی ہے اہل دانش کو جو عصری آگہی
اس کی ہیں خدمات ارباب نظر پر آشکار
” قدر گوہر شاہ داند یا بداند جوہری “
ہے یہ دانشگاہ وہ سرچشمہ عصری علوم
جس کی عصری معنویت کم نہیں ہوگی کبھی
ہے یہ سرسید کی عملی زندگی کا شاہکار
ان کے خوابوں کی حسیں تعبیر ہے جو آج بھی
ہے جو سرسید کی ہر تحریر اور تقریر میں
گونجتی ہے وہ علی گڈھ میں نواٸے سرمدی
آسمان علم و دانش پر خدا کے فضل سے
ہو علی گڈھ کے ستاروں کی درخشاں روشنی
قاٸم و دایم رہے اس کا یونہی علمی مشن
ایک فال نیک ہو برقی یہ اے ایم یو صدی