عہدِ نو میں فخرِ دوراں تھے خمار
تیرگی میں شمعِ عرفاں تھے خمار
اُن کی تھا آواز میں سوز و گداز
ہر جگہ جس سے نمایاں تھے خمار
محفلِ شعر و ادب کی جان تھے
گلبدن اور گلبداماں تھے خمار
ضوفشاں تھی جس سے بزمِ فکرو فن
ایسی اک شمعِ فروزاں تھے خمار
ایک ادبی کہکشاں کے درمیاں
نور افگن ماہ تاباں تھے خمار
آسمانِ فکر و فن پر جابجا
ہر طرف برقی درخشاں تھے خمار
یاد رفتگاں : بیاد خمار بارہ بنکوی بمناسبت یوم تولد
تاریخ پیدایش : ۱۵ ستمبر
تاریخ وفات : ۱۹ فروری
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
بارہ بنکی کی شان تھے جو خمار
اُن کے عرض ہُنر پہ سب ہیں نثار
اُن کی غزلوں میں ہے جو سوز و گداز
بن گئے اس سے سرخی اخبار
ہے جو عصری ادب کا سرمایہ
اُس نئی سوچ کے تھے وہ معمار
ان کا مخصوص تھا لب و لہجہ
روح پرور ہیں دلنشیں اشعار
ادبی تاریخ کی ہیں جو رونق
ایسے لوگوں میں اب ہے اُن کا شمار
اُن کے اشعار میں نمایاں ہیں
شہر و دیہات و کوچہ و بازار
محفلوں میں جہاں کہیں بھی گئے
وہاں برقی تھے مطلعِ انوار
ایک زمین کئی شاعر
خمار بارہ بنکوی اور احمد علی برقی اعظمی
خمار بارہ بنکوی
وہ سوا یاد آئے بھلانے کے بعد
زندگی بڑھ گئی زہر کھانے کے بعد
دل سلگتا رہا آشیانے کے بعد
آگ ٹھنڈی ہوئی اک زمانے کے بعد
روشنی کے لیے دل جلانا پڑا
ایسی ظلمت بڑھی تیرے جانے کے بعد
جب نہ کچھ بن پڑا عرض غم کا جواب
وہ خفا ہو گئے مسکرانے کے بعد
دشمنوں سے پشیمان ہونا پڑا
دوستوں کا خلوص آزمانے کے بعد
رنج حد سے گزر کے خوشی بن گیا
ہو گئے پار ہم ڈوب جانے کے بعد
بخش دے یا رب اہل ہوس کو بہشت
مجھ کو کیا چاہئے تجھ کو پانے کے بعد
کیسے کیسے گلے یاد آئے خمارؔ
ان کے آنے سے قبل ان کے جانے کے بعد
احمد علی برقی اعظمی
رو پڑا ناگہاں مُسکرانے کے بعد
یاد آئی بہت اُس کی جانے کے بعد
میری آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئیں
وہ نظر آیا جب اِک زمانے کے بعد
روح پرور تھا اُس کا یہ طرزِ عمل
روٹھ جانا دوبارہ منانے کے بعد
روٹھنے اور منانے کی دلکش ادا
ہے بہت دلنشیں دل لگانے کے بعد
دل کو دل سے ملاتی ہے یہ دل لگی
اُس کا ہونا پشیماں ستانے کے بعد
تلخ و شیریں ہے رودادِ دلبستگی
مُنکشف یہ ہوا آزمانے کے بعد
خانۂ دل مرا پھر نہ روشن ہوا
’’ ایسی ظلمت بڑھی تیرے جانے کے بعد ‘‘
حاصل زندگی تھا یہ میرے لئے
شمعِ دل کو جلانا بُجھانے کے بعد
کیفیت دل کی تھی میرے نا گُفتہ بہہ
جب نہ آیا تھا وہ،اُس کے جانے کے بعد
شخصیت کا مری بن گیا ایک جز
میرے قلب و جگر میں سمانے کے بعد
ہے یہ برقی حسینوں کی فطرت کا جُز
وعدہ کرکے نہ آنا بُلانے کے بعد