افسانہ : جوناتھن نولن ( Jonathan Nolan)
[ برطانوی نژاد امریکی سکرین رائٹر، ٹی وی پروڈیوسر و ہدایت کار اور ادیب جوناتھن نولن، کو ایک کہانی سُوجھی، اس نے اِسے اپنے بھائی کرسٹوفر نولن کو سنایا ۔ کرسٹوفرنولن نے اس پر2000 ء میں لگ بھگ 9 ملین ڈالر کی لاگت سے فلم ’مومینٹو‘ (Memento) بنائی جس نے لگ بھگ 40 ملین ڈالر کا بزنس کیا ۔ نقادوں اور ماہرین نفسیات نے اسے خوب سراہا ؛ نقادوں نے فلم کے پیچیدہ سٹرکچر اور تیزی سے وقت میں آگے پیچھے جانے کے باوجود اسے سراہا تھا لیکن ماہرین نفسیات نے اسے ‘ anterograde amnesia ‘ ( وہ بیماری جس میں بندہ نئی یادداشتیں بنانے سے قاصر ہو جاتا ہے اور پچھلی کسی یادداشت پر ہی پھنس کر رہ جاتا ہے ۔ ) ، کے سائنسی طور پر درست بیانیے کی تعریف کی تھی ۔ دونوں بھائی اس کہانی اور سکرپٹ کے لیے 2002 ء کے آسکر کے لیے نامزد بھی ہوئے تھے ۔ 2005 ء میں ، اسی فلم کی نقل کرتے ہوئے ہندوستانی ہدایت کار ‘ ای آر مروگادوس ‘ نے فلم ‘ گجنی ‘ تامل زبان میں بنائی اور بعد میں 2008 ء میں اسے ہندی میں بھی بنایا ۔ تامل فلم میں مرکزی کردار ‘ سوریا ‘ نے ادا کیا تھا جبکہ ہندی ورژن میں یہ کردار ‘ عامر خان نے ‘ نبھایا ( ‘ ای آر مروگادوس ‘ نے اپنی ان فلموں میں ایک اور 1951 ء کی انگریزی فلم ‘ Happy Go Lovely ‘ سے بھی مواد اٹھایا تھا ۔) ۔ اس کی یہ دونوں فلمیں بھی اپنے اپنے وقت میں بلاک بسٹر رہی تھیں ۔
جوناتھن ( HBO کی سیریل ‘ Westworld ‘ فیم ) نے اپنی کہانی کو افسانے میں ڈھالا ۔ یہ پہلی بار امریکی رسالے ’ اسکوائر‘ (Esquire) میں مارچ 2001 ء کے شمارے میں شائع ہوا ۔ ایک نقاد کے بقول یہ افسانہ بندوق سے نکلی ایک ایسی گولی کی مانند ہے جس سے بچنا ممکن نہیں ہے ۔ ]
تمہاری بیوی ہمیشہ یہ کہتی رہی ہے کہ تم اپنے جنازے پر بھی دیر سے ہی پہنچو گے۔ یہ بات تمہیں یاد ہے نا ؟ اُس کا یہ ننھا سا مذاق اس لیے تھا کیونکہ تم خاصے کاہل اور سست رو تھے ۔ ۔ ۔ ہمیشہ دیر سے پہنچتے تھے ، ہمیشہ اپنی اشیاء بھول جاتے تھے ، یہاں تک کہ اِس سانحے سے پہلے بھی ایسا ہی ہوا تھا ۔
اِس وقت بھی تم شاید یہ سوچ رہے ہوگے کہ کہیں تم اپنی بیوی کے جنازے پر دیر سے تو نہیں پہنچے تھے ۔
تم وہاں تھے ، تم اس بات کا یقین کر سکتے ہو ۔ یہ تصویر یہی تو دکھا رہی ہے ۔ ۔ ۔ ایک بندہ جو دروازے کے ساتھ دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا ہے۔ یہ ریت تو نہیں ہے کہ تکفین و تدفین کی تصاویر اتاری جائیں ، لیکن میرا اندازہ ہے ، کسی نے ، شاید تمہارے ڈاکٹروں نے تصویریں اتار لیں ، جو یہ جانتے تھے کہ تمہیں یہ سب یاد نہیں رہے گا ۔ انہوں نے اچھے طریقے سے اس تصویر کوبڑا کیا اور اسے دروازے کے پاس چسپاں کر دیا ، جہاں یہ اِس وقت موجود ہے ، تاکہ تم جب بھی بستر سے اٹھو تو ہر بار تمہیں یہ جاننے کا تردّد نہ کرنا پڑے کہ تمہاری بیوی کہاں تھی ۔
تصویر میں جو بندہ ہے، وہ جس کے ہاتھ میں پھول ہیں ؟ وہ تم ہواور تم کیا کر رہے ہو ؟ تم قبر پر لگا کتبہ پڑھ رہے ہواور یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہو کہ تم کس کی تدفین پر موجود ہو ، ویسے ہی جیسے تم اِس وقت بھی اسے پڑھنے کی کوشش کر رہے ہو اور یہ جاننا چاہ رہے ہو کہ کسی نے یہ تصویر تمہارے دروازے کے ساتھ کیوں چسپاں کر رکھی ہے ۔ لیکن ایسا کچھ پڑھنے کی زحمت ہی کیوں کی جائے ، جسے تم یاد ہی نہ رکھ سکو ؟
وہ جا چکی ہے ، ہمیشہ کے لیے جا چکی ہے اور تمہیں یہ سن کراِس وقت یقیناً تکلیف ہو رہی ہے ۔ مجھ پر یقین کرو کہ میں جانتا ہوں کہ تم کیسا محسوس کر رہے ہو ۔ تمہیں شاید اپنی بربادی کا احساس ہو رہا ہو گا ۔ لیکن اس بات پر پانچ منٹ غور کرو، دس منٹ دے کر دیکھ لو ۔ تم اس پر آدھ گھنٹہ بھی سوچ سکتے ہو ، اس سے پہلے کہ تم اِسے بھول جاﺅ ۔
میں گارنٹی دیتا ہوں کہ تم نے اسے بہرحال بھول ہی جانا ہے ۔ اور چند منٹوں بعد تم پھر سے ، اُسے تلاش کرنے کے لیے دروازے کی طرف بڑھنے لگو گے اور پھر جب تمہیں تصویر نظر آئے گی تو تم ایک بار پھر سے ٹوٹ جاﺅ گے ۔ تمہیں یہ خبر کتنی بارسننے کی ضرورت ہے کہ تمہارے دو لخت دماغ کے علاوہ تمہارے جسم کا کوئی ایک حصہ اسے پھر سے یاد کرنے کی کوشش کرنے لگے ؟
تمہارا دکھ کبھی نہ ختم ہونے والا ہے ، اور تمہارا غصہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔ لیکن یہ سب فضول ہے اور اس کی کوئی سمت بھی نہیں ہے ۔ شاید ایسا کچھ ہے کہ تم سمجھ ہی نہیں سکتے کہ اصل میں ہوا کیا تھا ۔ اور تم یہ کہہ بھی نہیں سکتے کہ تم واقعی سمجھتے ہو۔ یہ یادداشت کا کھونا ہے اور وہ بھی الٹے بہاﺅ کے ساتھ ۔ اور یہی تختی پر لکھا ہوا ہے ۔ سی آر ایس (CRS ) کی بیماری ۔ تمہارا اندازہ بھی اتنا ہی ٹھیک ہے جتنا کہ میرا ۔
تم شاید یہ سمجھ نہیں سکتے کہ تمہارے ساتھ کیا ہوا تھا لیکن تمہیں یہ تو یاد ہے کہ تمہاری بیوی کے ساتھ کیا ہوا تھا ، کیا ایسا نہیں ہے ؟ ڈاکٹر اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے ۔ وہ میرے سوالات کا جواب نہیں دیتے ۔ وہ یہ مناسب نہیں سمجھتے کہ کوئی بندہ ، جس کی حالت تمہارے جیسی ہو ، وہ یہ باتیں سنے ۔ لیکن تمہیں کافی کچھ یاد ہے ، ایسا نہیں ہے کیا ؟ تمہیں اس بندے کا چہرہ یاد ہے ۔
میں ، اسی کارن ، تمہیں لکھ رہا ہوں ۔ یہ شاید کار آمد نہ ہو ۔ مجھے معلوم نہیں ہے کہ تمہیں یہ کتنی بار پڑھنا پڑے گا ، اس سے پہلے کہ تم میرا کہا سن اور سمجھ سکو ۔ مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ تم کب سے اس کمرے میں بند ہو۔ یہ تمہیں بھی پتہ نہیں ہے ۔ لیکن تمہیں یہ برتری حاصل ہے کہ تم بھول سکتے ہو اور چونکہ تم پُرامید نہیں ، اس لیے تم اپنے دل کا حال لکھنا بھی بھول جاﺅ گے ۔
جلد یا بدیر ، تم چاہوگے کہ اِس بارے میں کچھ کرو۔ اور جب تمہیں ایسا لگے تو تمہیں مجھ پر اعتماد کرنا ہو گا ۔ اس کی وجہ سیدھی سادھی ہے کہ یہ صرف میں ہی ہوں جو تمہاری مدد کر سکتا ہوں ۔
ارل ایک کے بعد دوسری آنکھ کھولتا ہے ۔ اس کی نظروں کے سامنے سفید ٹائلوں والی چھت تنی ہے ، جس پر اس کے سر کے عین اوپر ایک کاغذ چسپاں ہے جس پرہاتھ سے کچھ لکھا ہے ۔ یہ اتنا بڑا ہے کہ وہ بستر پر لیٹے لیٹے اس پر لکھی عبارت کو پڑھ سکتا ہے ۔ ایک گھڑی کا الارم کہیں بج رہا ہے ۔ وہ کاغذ پر لکھے کو پڑھتا ہے ، آنکھیں جھپکتا ہے اور پھر سے پڑھتا ہے اور کمرے کو دیکھتا ہے ۔
یہ ایک سفید کمرہ ہے ۔ ہر شے پر سفیدی غالب ہے ؛ دیواریں ، پردے ، کمرے میں موجود فرنیچر اور بستر کی چادریں سب کچھ سفید ہے ۔ الارم کلاک اس سفید ڈیسک پر ، پڑا بج رہا ہے جو سفید پردوں والی کھڑکی کے نیچے موجود ہے ۔ اسی لمحے ارل کو شاید یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے سفید لحاف کے اوپرلیٹا ہے ۔ اس نے اپنے جسم پر ڈریسنگ گاﺅن اورپیروں میں چپل پہن رکھے ہیں ۔
وہ دوبارہ لیٹ جاتا ہے اور چھت پر چسپاں نوٹ کو ایک بار پھر سے پڑھتا ہے۔ اس پر بھدے انداز میں البتہ جلی حروف میں لکھا ہے ؛
یہ تمہارا کمرہ ہے ۔ یہ کمرہ ایک ہسپتال میں ہے ۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں تم اب رہتے ہو ۔
ارل اٹھتا ہے اور اپنے اردگرد دیکھتا ہے ۔ ہسپتال کے اعتبار سے یہ کمرہ بڑا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ فرش پر پلنگ کے تینوں اطراف میں بس موم جامہ بچھا ہے ۔ دو دروازے اور ایک کھڑکی ہے ۔ باہر کا نظارہ بھی کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے ۔ درختوں کا ایک جھنڈ ، عمدگی سے ترشی ہوئی گھاس کے ایک تختے کے درمیان میں کھڑا ہے ؛ گھاس بھرا یہ تختہ ، تارکول بچھے دو راہے کے سرمئی پن میں جا کر مدغم ہے ۔ درخت ہرے تو ہیں لیکن ننگے ہیں ۔ ۔ ۔ یا بہار کی آمد آمد ہے یا پھر موسم خزاں کے آخری دن ہیں ، دونوں میں سے کوئی ایک موسم تو ہے ۔
ڈیسک ، چسپاں کیے جانے والے کاغذوں ، قانونی پیڈوں، نفاست سے چھپی فہرستوں ، نفسیات کی نصابی کتب اور فریموں میں جَڑی تصاویر سے لدا ہوا ہے ۔ اس سارے انبار کے اوپر ایک نصف پُر کردہ ’ کراس ورڈز ‘ کی پہیلی پڑی ہے ۔ الارم کلاک تہہ شدہ اخباروں کی ایک ڈھیری پر پڑا ہے ۔ ارل اس کے ’ سنوز‘ بٹن کو دباتا ہے اور اپنے ڈریسنگ گاﺅن کی آستین پر چسپاں پیکٹ میں سے ایک سگریٹ نکالتا ہے ۔ وہ اسے سلگانے کے لیے اپنے پاجامے کی خالی جیبوں کو تھپتھپاتا ہے ۔ وہ میز پر پڑے کاغذوں کو الٹا پُلٹا کر دیکھتا ہوا تیزی سے درازیں کھول کر دیکھتا ہے ۔ اور بالآخر وہ کھڑکی کے پاس دیوار پر چسپاں ، باورچی خانے میں استعمال کی جانے والی ماچس کی ڈبیا کو ڈھونڈ لیتا ہے ۔ اس ڈبیا کے اوپر دیوار پر چسپاں نوٹ پر پیلے جلی حروف میں لکھا ہے ؛
سگریٹ ؟ احمق ، پہلے ان کو تو گن لو جو تم پہلے پی چکے ہو ۔
ارل یہ پڑھ کر ہنستا ہے ، سگریٹ سلگاتا ہے اور ایک لمبا کش لیتا ہے ۔ اس کے سامنے کھڑکی پر ایک اور کاغذ چسپاں ہے ، جس پر سب سے اوپر لکھا ہے ؛
تمہارا شیڈول
اس پر گھنٹوں کا جدول موٹے حروف میں درج ہے۔
10:00 پی ایم تا 8:00 اے ایم کے سامنے لکھا ہے ؛ جاﺅ اور سو جاﺅ ۔
ارل الارم کلاک کو دیکھتا ہے ؛ اس پر 8:15 کا وقت ہے ۔’ باہر چونکہ روشنی ہے، اس لیے صبح ہو چکی ہے ‘ ، وہ سوچتا ہے ۔ وہ اپنی گھڑی دیکھتا ہے ۔ اس پر 10:30 کا وقت ہے ۔ وہ اسے کان کے ساتھ لگاتا ہے اور سننے کی کوشش کرتا ہے ۔ وہ ایک یا دو باراس کی چابی بھرتا ہے اور اس کی سوئیاں کلاک کے وقت کے ساتھ برابر کردیتا ہے ۔
شیڈول کے مطابق 8:00 تا 8:30 کے آگے لکھا ہے ؛ اپنے دانت صاف کرو ۔
ارل پھر ہنستا ہے اور باتھ روم کی طرف چل دیتا ہے ۔
غسل خانے کی کھڑکی کھلی ہے ۔ خود کو گرم رکھنے کے لیے ، جب وہ اپنے بازوﺅں کو حرکت دیتا ہے تبھی اس کی نظر کھڑکی کی منڈیر پر پڑی ایش ٹرے پر پڑتی ہے ۔ اس پر ایک سگریٹ دھرا ہے جو مستقل سلگے جا رہا ہے اور اس کی راکھ ایک انگلی سے مشابہ ہے ۔ وہ ناپسندیدگی سے بھنویں چڑھاتا ہے اور اس پرانے سگریٹ کے ٹکڑے کو بجھاتا ہے اور اس کی جگہ نیا والا رکھ دیتا ہے ۔
ٹوتھ برش پر پہلے سے ہی سفید ’ پیسٹ ‘ کا تُبکا لگا ہوا ہے ۔ نلکے کی ٹونٹی دبانے والے بٹن جیسی ہے ۔ ۔ ۔ اور ہر دباﺅ پانی کی کچھ مقدار باہر لاتا ہے ۔ ارل برش گال میں رکھتا ہے اور اسے آگے پیچھے حرکت دیتا ہے اور ساتھ میں دوائیوں والی الماری کھولتا ہے ۔ اس کی شیلفوں پر وٹامنز ، اسپرین اور وہ دوائیاں پڑی ہیں جو پیشاب کی مقدار کو کم کرتی ہیں ؛ یہ سب ایک ایک خوراک کی پیکنگ میں ہیں ۔ غرارے کرنے والے محلول کی بھی ایک ہی خوراک والی پیکنگ ہے ؛ یہ ایک نیلے رنگ کا محلول ہے جو ایک چھوٹے گلاس کی مقدار کے برابر، ایک مہر بند پلاسٹک کی بوتل میں پڑا ہے ۔ ٹوتھ پیسٹ البتہ عمومی سائز کی ہی ہے ۔ ارل پہلے، منہ سے پیسٹ کوتھوکتا ہے اور پھر’ ماﺅتھ واش‘ کو منہ میں بھر لیتا ہے ۔ جب وہ ٹوتھ برش ، ٹوتھ پیسٹ کے پاس رکھتا ہے تو دیکھتا ہے کہ کاغذ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا شیشے کی شیلف اور دوائیوں والی الماری کی سٹیل والی پشت کے درمیان پھنسا ہوا ہے ۔ وہ نیلا محلول ، چلمچی میں تھوکتا ہے اور بٹن دبا کر پانی لیتا ہے تاکہ اس سے کُلی کرکے ماﺅتھ واش کا اثر ختم کر سکے ۔ وہ دوائیوں والی الماری بند کرتا ہے اور آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر مسکراتا ہے ۔
’ کون ہو گا جسے آدھ گھنٹہ دانت صاف کرنے کی ضرورت ہو گی ؟ ‘، اس نے سوچا ۔
کاغذ کا ٹکڑا اس طرح سے تہہ کیا گیا تھا کہ یہ منحنی شکل اختیار کیے ہوئے تھا ۔ ارل نے اس کی تہیں کھولیں اور اسے سیدھا کرکے آئینے کے سامنے کیا ، اس پر کسی چھٹی جماعت میں پڑھنے والے کا ایک محبتی نوٹ لکھا تھا ؛
اگر تم اب بھی اسے پڑھ سکتے ہو تو تم ایسے بھڑوے ہو جو بزدل ہے ۔
ارل نے خالی نظروں سے کاغذ کو دیکھا اور پھر ایک بار اور اسے پڑھا ۔ پھر اس نے اسے الٹا کر دیکھا ۔ اس کی پشت پر لکھا تھا ؛
پی ۔ ایس ۔ : اب جبکہ تم نے اسے پڑھ لیا ہے ، اسے پھر سے چھپا دو ۔
ارل نے کاغذ کی دونوں طرف لکھے کو ایک بار پھر پڑھا، اسے تہہ کرکے اس کا اصل سائز بحال کیا اور اسے ٹوتھ پیسٹ کے نیچے رکھ دیا ۔
شاید اسی وقت وہ زخم کے نشان کو دیکھتا ہے ۔ یہ اس کے کان کے نیچے سے شروع ہوتا ہے۔ یہ دَنتیلا ، موٹا اور ابھرا ہوا ہے اور اس کے بالوں کی حد کے پاس جا کر اچانک ختم ہو جاتا ہے ۔ ارل سر گھماتا ہے اور اپنی آنکھ کے کونے سے گھورتے ہوئے زخم کے نشان کا پیچھا کرتا ہے ۔ وہ اسے اپنی انگلی کی نوک سے بھی محسوس کرتا ہے اور پھر نیچے ، ایش ٹرے میں پڑے سلگتے سگریٹ کو دیکھتا ہے ۔ ایک خیال اسے اپنی گرفت میں لیتا ہے اور وہ گھوم کر باتھ روم سے باہر آ جاتا ہے ۔
وہ اپنے کمرے کے دروازے پر رُک جاتا ہے ، اس کا ایک ہاتھ دروازے کی ہتھی پر ہے ۔ دروازے کے ساتھ دیوار پر دو تصویریں چسپاں ہیں ۔ پہلے ایک ’ ایم آر آئی‘ (MRI ) ، ارل کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتی ہے ؛ یہ ایک سیاہ چمکیلا فریم ہے جس میں چار ایسی کھڑکیاں ہیں جو کسی بندے کے دماغ میں کھل رہی ہیں ۔ ایک مارکر سے اس پر لکھا ہے ؛
تمہارا دماغ ۔
ارل اسے گھور کر دیکھتا ہے ۔ اس میں مختلف رنگوں میں ہم مرکز کئی دائرے ہیں ۔ وہ اپنی آنکھوں کے کڈھوں کا اندازہ لگا سکتا ہے اور ان کے پیچھے اسے، اپنے بھیجے کے دو جڑواں حصے بھی اسے نظر آ رہے ہیں ۔ ہموار سلوٹیں ، دائرے ، نیم دائرے ، لیکن دماغ کے بالکل وسط میں مارکر سے ایک بیضہ بنایا گیا ہے جو اس کی گردن کی پشت تک ، سرنگ کی مانند ، جیسے خوبانی میں سنڈی گھسی ہو، جا رہا ہے ۔ یہ کچھ مختلف ہے ، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ٹوٹی ہوئی اور بگڑی ہوئی ہیّت ہے ۔ یہ پھول کی شکل کا ایک دھبہ ہے جو اس کے دماغ کے عین وسط میں ہے ۔
وہ جھکتا ہے اور دوسری تصویر کو دیکھنے لگتا ہے ۔ یہ پھول ہاتھ میں لیے اس بندے کی تصویر ہے جو ایک تازہ قبر پر کھڑا ہے ۔ وہ جھکا ہوا ہے اور کتبہ پڑھ رہا ہے ۔ ایک لمحے کے لیے ایسا لگتا ہے جیسے یہ آئینوں بھرا کمرہ ہو یا پھرلافانیت کے خاکے کی شروعات ہوں ؛ ایک بندہ جھکا ہو اورخود سے چھوٹے ایک اور جھکے ہوئے بندے کو دیکھ رہا ہو جو کتبہ پڑھ رہا ہو ۔ ارل اس تصویر کو دیر تک دیکھتا رہتا ہے ۔ وہ شاید رونے بھی لگتا ہے یا شاید وہ فقط خاموشی سے تصویر کو گھورتا رہتا ہے ۔ وہ بالآخر اپنے بستر تک جاتا ہے ،خود کو اس پردھب سے گراتا ہے، آنکھیں میچ لیتا ہے اور سونے کی کوشش کرتا ہے ۔
اس سے پرے ، باتھ روم میں سگریٹ آہستہ آہستہ سلگتا رہتا ہے ۔ الارم کلاک کا ایک سرکٹ دس بجنے پر دس تک گنتی گنتا ہے اور پھر الارم دوبارہ بج اٹھتا ہے ۔
ارل ایک کے بعد دوسری آنکھ کھولتا ہے ۔ اس کی نظروں کے سامنے سفید ٹائلوں والی چھت تنی ہے ، جس پر اس کے سر کے عین اوپر ایک کاغذ چسپاں ہے جس پرہاتھ سے کچھ لکھا ہے ۔ یہ اتنا بڑا ہے کہ وہ بستر پر لیٹے لیٹے اس پر لکھی عبارت کو پڑھ سکتا ہے ۔
اب تم عام بندوں کی طرح زندگی بسر نہیں کر سکتے ۔ تمہیں یہ پتہ ہونا چاہیے ۔ تم کسی لڑکی کو دوست کیسے بنا سکتے ہو جبکہ تم اس کا نام تک یاد نہیں رکھ سکتے ؟ تمہارے بچے بھی نہیں ہوسکتے ، اور اگر ہو بھی جائیں تو وہ یوں پرورش پائیں گے کہ تم بطور باپ ، انہیں اپنے بچوں کے طور پر شناخت نہیں کر سکتے ۔ اور تم کوئی کام بھی تو نہیں کر سکتے ۔ باہر دُنیا میں ایسے پیشے کم کم ہی ہیں ، جہاں بھول جانا ایک صلاحیت گردانا جاتا ہو ۔ شاید جسم فروشی ، ہاں البتہ سیاست کا پیشہ ضرورہے ۔
نہیں ، تمہاری زندگی کا انت ہو چکا ہے ۔ تم ایک مرے ہوئے بندے ہو ۔ تمہارے ڈاکٹر صرف ایک امید لگائے بیٹھے ہیں کہ کسی طرح تمہیں یہ سکھا دیں کہ تم عملے پر کم سے کم بوجھ بنو ۔اور وہ شاید تمہیں کبھی بھی ، گھر ، جو جہاں کہیں بھی ہے ، واپس جانے دیں ۔
اس لیے اب یہ سوال ہی نہیں رہا کہ بندہ ’ رہے یا نہ رہے ‘ ، کیونکہ تم ہو ہی نہیں ۔ اب تو سوال یہ ہے کہ تم موجودہ صورت حال کے بارے میں کچھ کرنا چاہتے ہو یا نہیں ۔ کیا انتقام تمہارے لیے کوئی معانی رکھتا ہے ؟
یہ کئی لوگوں کے لیے معانی رکھتا ہے ۔ وہ کچھ ہفتوں کے لیے منصوبے بناتے ہیں ، وہ تِگڑم بھی لڑاتے ہیں اور ایسے اقدامات بھی اٹھاتے ہیں کہ حساب برابر ہو سکے ۔ لیکن گزرتا وقت ہی اہم ہوتا ہے جو اس ابتدائی تحریک کو ساتھ بہا کر لے جاتا ہے ۔ وقت چُرا لے جاتا ہے ، کیا اُن کا یہ کہنا درست نہیں ؟ اور وقت بالآخر ہم میں سے اکثر کو قائل کر لیتا ہے کہ معاف کر دینا یا بُھلا دینا ہی افضل ہے، نیکی ہے ۔ اگر تن آسانی سے، ایک خاص فاصلے سے ، دیکھا جائے تو بزدلی اور معاف کر دینا یا بُھلا دینا ایک جیسے ہی نظر آتے ہیں ۔ وقت بندوں کے اعصاب بھی چُرا لیتا ہے ۔
اگر وقت اور خوف بندوں کو انتقام سے روکنے کے لیے ناکافی ثابت ہوں تو ’ اتھارٹی ‘ جو ہمیشہ سے موجود ہے ، ہولے سے سر ہلاتی ہے اور کہتی ہے ، ’ ہمیں سمجھ ہے ، لیکن تم اگر انتقام مت لو تو تم ایک بہتر انسان ہو گے ۔ خود کو انتقام لینے والوں سے اوپر اٹھاﺅ نہ کہ انہی کی سطح پر کھڑے رہو ۔ ‘ اتھارٹی یہ بھی کہتی ہے کہ اس کے علاوہ اسے یہ اختیار بھی ہے کہ اگر تم کوئی احمقانہ حرکت کرو گے تو وہ تمہیں ایک چھوٹے سے کمرے میں بند کر دیں گے ۔
لیکن انہوں نے تو تمہیں پہلے ہی ایک چھوٹے کمرے میں بند کر رکھا ہے ، کیا ایسا نہیں ہے ؟ فرق صرف اتنا ہے کہ انہوں نے زیادہ محتاط نہ ہوتے ہوئے اِس کمرے کو تالا نہیں لگایا اورنہ ہی کوئی محافظ کھڑا کیا کیونکہ تم ایک اپاہج ہو ۔ ایک لاش ہو ۔ ایک سبزی کی مانند ہو جسے اگر کوئی یاد نہ کرائے توشاید اسے یاد ہی نہیں ہوتا کہ اس نے کب کھانا ہے اور کب ہگنا ہے ۔
اور جہاں تک وقت کے گزرنے کا تعلق ہے ، اب اس کا اطلاق ، تم پر تو ہوتا نہیں ، یا ہوتا ہے ؟ ہر بار اور بار بار ، وہی دس منٹ ۔ اس لیے تم کیسے کسی کو معاف کر سکتے ہو ، جب تمہیں یہی یاد نہ ہو کہ تم نے کس کو معاف کرنا ہے ؟
تم غالباً ، پہلے بھی ، انہی کی طرح کے تھے، جو کہتے ہیں ، جانے دو ، کیا ایسا نہیں ہے؟ لیکن اب تو تم وہ بھی نہیں رہے جیسے پہلے تھے ۔ اس کا نصف بھی نہیں ۔ تم اب اس کا فقط ایک جزو ِصغیرہ ہو ؛ تم اب بس دس منٹ کے بندے رہ گئے ہو ۔
یہ بات یقینی ہے کہ انسان کی اپنی کمزوری خاصی مضبوط ہوتی ہے ۔ یہ ایک بنیادی قوت ِ محرکہ ہے ۔ تم شاید اپنے چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ کر رونا چاہو گے ۔ اپنی یادوں کے محدود ذخیرے میں سے ایک ایک کواحتیاط سے چمکا کر ان میں جینا پسند کرو گے ۔ شیشے کے پیچھے سجی نصف زندگی جو کارڈ بورڈ پر ایسے ٹنگی ہے جیسے مختلف النوع بدیسی کیڑوں کا ذخیرہ سوئیوں کی مدد سے ٹانگا جاتا ہے ۔ تم شیشے کے پیچھے ہی رہنا چاہو گے ، کہیں ایسا تو نہیں کہ تم شفاف ’ایسپک‘ جیلی میں ہی محفوظ پڑے رہنا چاہو؟
تم ایسا ہی چاہو گے لیکن تم ایسا کر نہیں سکتے، کیا کر سکتے ہو ؟ تم ایسا اس لیے نہیں کر سکتے کہ یادوں کی برات میں جو آخری اضافہ ہوا ہے وہ تمہیں ایسا نہیں کرنے دے گا ۔ آخری شے جو تمہیں یاد ہے ۔ یہ اس کا چہرہ ہے ۔ اس کا چہرہ اور تمہاری اپنی بیوی کا ، جو تم سے مدد کی طلب گار تھی ۔
اورجب یہ سب ختم ہو جائے تو شاید یہی یاد ہو گی ، جسے لیے تم زندگی سے ریٹائر ہو جاﺅ کہ تمہاری یادوں کا ذخیرہ تو ہے ہی بہت مختصر ۔ وہ تمہیں کسی اور چھوٹے کمرے میں بند کر دیں گے اور تم اپنی باقی کی زندگی ماضی میں ہی رہ کر گزار دو گے لیکن ، یہ تبھی ممکن ہو گا کہ تمہارے ہاتھ میں کاغذ کا وہ ننھا ٹکڑا آ جائے جس پر لکھا ہو کہ تم نے اسے پکڑ لیا ہے ۔
تمہیں پتہ ہے کہ میں صحیح کہہ رہا ہوں ۔ تمہیں پتہ ہے کہ ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے ۔ یہ ناممکن تو لگتا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر ہم اپنے اپنے حصے کا کام کر لیں تو ہم کوئی نہ کوئی شکل تو بنا ہی لیں گے ۔ لیکن تمہارے پاس وقت ، کچھ زیادہ نہیں ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تمہارے پاس تو بس ، لگ بھگ دس منٹ کا ہی وقت ہوتا ہے ۔ اور پھر سب کچھ دوبارہ سے شروع ہو جاتا ہے ۔ اس لیے ، اس وقت میں ہی کچھ کر لو ، جو تمہارے پاس ہے ۔
ارل اپنی آنکھیں کھولتا ہے اور اندھیرے میں پلکیں جھپکاتا ہے ۔ الارم کلاک بج رہا ہے ، یہ 3:20 کا وقت بتا رہا ہے اور چاند کی کرنیں کھڑکی کے راستے اندر آ رہی ہیں ، ‘ اس کا مطلب ہے کہ یہ صبح سے پہلے کا وقت ہے ۔ ‘ ، ارل لیمپ کو ٹٹولتا ہے اور اس عمل میں لیمپ گرتے گرتے بچتا ہے ۔ کمرہ اس کی آگ جیسی دہکتی روشنی سے بھر جاتا ہے اور یہ روشنی دھات کے فرنیچر ، دیواروں اوراس کے بستر کی چادروں کو بھی زرد رنگ میں رنگ دیتی ہے ۔ وہ سیدھا لیٹا ہے اور اوپر چھت کی طرف دیکھتا ہے ، چھت کی ٹائلیں بھی زرد ہیں اور ان پر ہاتھ کی لکھائی والا کاغذ چسپاں ہے ۔ وہ اسے دو یا شاید تین بار پڑھتا ہے اور پھر آنکھیں جھپکتے ہوئے اپنے گرد پھیلے کمرے کو دیکھتا ہے ۔
یہ ایک خالی کمرہ ہے ۔ شاید کسی ادارے کا ہے ۔ کھڑکی کے پاس ایک ڈیسک پڑا ہے ۔ ڈیسک بھی خالی ہے، سوائے بجتے ہوئے الارم کلاک کے ، اس پر کچھ نہیں پڑا ہوا ۔ ارل تبھی ، شاید یہ نوٹ کرتا ہے کہ اس کے جسم پر پورا لباس ہے اور اوپر اوڑھی چادر تلے اس کے پیروں میں جوتے بھی ہیں ۔ وہ خود کو بستر سے نکالتا ہے اور چلتا ہوا ڈیسک کی طرف جاتا ہے ۔ کمرے میں ایسی کوئی شے نہیں ، جو یہ پتہ دے کہ اس کمرے میں پہلے کوئی رہتا رہا ہے یا کبھی کوئی رہتا رہا ہو گا ۔ ہاں ، البتہ وہاں دیواروں پر جا بجا ٹیپ کے عجیب سے ٹکڑے چسپاں ہیں ۔ وہاں کوئی تصویر نہیں ، کوئی کتاب نہیں بلکہ کچھ بھی نہیں ہے ۔ وہ کھڑکی سے باہر پورے چاند کو دیکھ سکتا ہے جو عمدگی سے تراشی گئی گھاس کے اوپر چمک رہا ہے ۔
ارل الارم کلاک کے ’ سنوز‘ بٹن پر ہاتھ مارتا ہے اور ایک لمحے کے لیے اپنے ہاتھ کی پشت پر ٹیپ سے چسپاں دو چابیوں کو دیکھتا ہے ۔ ڈیسک کے خالی درازوں کی تلاشی لیتے ہوئے ، وہ ٹیپ اتارتا ہے ۔ اسے اپنے کوٹ کی بائیں جیب میں سو سو ڈالروں کے نوٹوں کا ایک رول اور ایک خط ، سر بمہر لفافے میں ملتا ہے ۔ وہ باقی کمرے اور غسل خانے کی بھی تلاشی لیتا ہے۔ لیکن ٹیپوں اور سگریٹوں کے ٹکڑوں کے سوا وہاں اورکچھ بھی نہیں ہے ۔
ارل بے خیالی میں اپنے زخم کے ابھرے ہوئے نشان پر ہاتھ پھیرتا ہے اورواپس بستر کی جانب لوٹتا ہے ۔ وہ سیدھا لیٹ کر چھت اور اس پر چسپاں کاغذ کو گھورنے لگتا ہے ۔ اس پر لکھا ہے؛
اٹھواور فوراً باہر نکل جاﺅ ۔ یہ لوگ تمہیں مارنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
ارل اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے ۔
تمہیں یاد ہے ، کہ’ گریڈ سکول‘ میں انہوں نے تمہیں فہرستیں بنانا سکھانا چاہا تھا ؟ تب تمہارا ’ دن بھر کا شیدول ‘ تمہارے ہاتھ کی پشت پر لکھا ہوتا تھا اور جب نہاتے ہوئے یہ مِٹ جاتا تو تمہیں گھر کا کام کرنا بھی یاد نہ رہتا اوریہ کیا نہ جاتا ۔ وہ کہتے کہ تمہاری کوئی سمت نہیں ، کوئی نظم و ضبط نہیں ۔ تب انہوں نے کوشش کی تھی کہ تم یہ سب کسی ایسی شے پر لکھو جو زیادہ دیرپا ہو ۔
یقینی بات ہے کہ اگر تمہارے سکول کے استاد ، اب تمہیں اس حال میں دیکھیں تو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جائیں ۔ کیونکہ تم ان کے نظم و ضبط والے اسباق کی ایک پیداوار بن چکے ہو ۔ کیونکہ تم اب اپنے شیڈول کو دیکھے بِنا پیشاب بھی نہیں کر سکتے ۔
وہ ٹھیک تھے ۔ شیڈول اور فہرستیں ہی اِس بد نظمی اور بے ترتیبی سے نکلنے کا واحد راستہ ہیں ۔
سچ تو یہ ہے : لوگ ، باقاعدہ لوگ ، بھی کبھی ایسے نہیں ہوتے کہ ان سب کے اوصاف ایک جیسے ہوں ۔ یہ اتنا آسان نہیں ہے ۔ ہم سب ذہن کے پیچیدہ اعصابی نظام اور دماغ سے اٹھنے وا لے برقی بادلوں کے رحم و کرم پر ہیں ۔ ہر بند ہ چوبیس گھنٹوں کی کسروں میں بٹا ہوا ہے اور پھر ان چوبیس گھنٹوں میں بھی مزید اجزائے ِ صغیرہ ہیں ۔ یہ روز کا وہ تماشا ہے جو ہر بندہ چُپ چاپ کیے جاتا ہے اوردوسرے کا اختیار سلب کرتا رہتا ہے ؛ اور سٹیج کے پیچھے کھڑا ، نقب لگانے والوں کا قدیمی ہجوم شور مچاتا ، سٹیج پر مرکوز روشنی میں آنے کے لیے اپنی باری کا منتظر ہے ۔ یہ ہر ہفتے اور ہر دن ہوتا ہے ۔ غصے میں بھرا آدمی اپنا ڈنڈا خاموش آدمی کو دیتا ہے اور پھر یہ ڈنڈا باری باری جنس زدہ لوگوں ، خود میں ہی مگن رہنے والوں اور خوش بیان لوگوں کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے ۔ ہر بندہ بذات خود ایک ہجوم ہے ، جو زنجیر میں بندھا ہوا ہے ۔
یہ زندگی کا المیہ ہے ۔ کیونکہ ہر آدمی ، ہر دن کے کچھ وقت کے لیے عقلمند بن جاتا ہے ۔ یہ صراحت کے لمحات ہوتے ہیں ، آگاہی کے لمحات ہوتے ہیں ، یا تم انہیں کوئی بھی نام دے لو ۔ ایسے میں بادل چَھٹ جاتے ہیں ، سیارے ایک مہین لکیر پر حرکت کرتے نظر آتے ہیں اور ہر شے عیاں ہو جاتی ہے ۔ شاید مجھے سگریٹ نوشی ترک کر دینا چاہیے ، یا یہ کہ میں لاکھوں روپے تیزی سے کیسے کما سکتا ہوں اور اسی طرح کا کوئی اور ادراک کہ یہی دائمی خوشی کی کنجی ہے ۔ یہی ایک کڑوا سچ ہے ۔ کائنات کے تمام اسرار و رموز، ہم پر ، بس چند لمحوں کے لیے ہی عیاں کیے جاتے ہیں ۔ زندگی ایک ایسا ہی گھٹیا چکمہ ہے جو دنیا کی بیٹھک میں دیا جاتا ہے ۔
لیکن پھر عاقل و عالم کو ، اپنے بس میں کیا سب کچھ ، اس بندے کے حوالے کرنا پڑتا ہے جو سڑک پر پھرنے والا عام آدمی ہے ، اور جو فقط آلو کے قتلے ہی کھانا چاہتا ہے ۔ اور یوں ساری بصیرت ، ساری ذکاوت اور ساری مُکتی ایک احمق یا لذت پسند یا منشیات کے عادی کے ہاتھوں میں دے دی جاتی ہے ۔
اور یقینی طور پر ، اس بے ترتیبی سے بچنے کا واحد حل یہ ہے کہ ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جن سے یہ بات یقینی ہو سکے کہ ان بےوقوفیوں پر قابو پایا جائے جو تم سے سرزد ہوتی ہیں ۔ تمہاری زنجیرکو ہاتھ میں لیا جائے ، تمہارے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے تمہاری راہنمائی کی جائے ۔ ایسا کرنے کے لیے شیڈول اور فہرستیں ہی بہترین ذریعہ ہیں ۔
یہ ایسا ہی ہے کہ بندہ خود کو ہی ایک خط لکھے ۔ ایک ایسا ماسٹر پلان جسے کسی ایسے نے بنایا ہو جو روشنی کو دیکھ سکتا ہو ۔ اور اس ماسٹر پلان میں اتنے سادھے مراحل ہوں کہ باقی کے تمام احمق بھی انہیں سمجھ سکیں ۔ سو ان مرحلوں میں سے ایک ایک چُنو اور انہیں برتو اور ضرورت پڑنے پر انہیں دہرا لو ۔
تمہارا مسئلہ ، البتہ ، کچھ زیادہ شدید نوعیت کا ہے ، لیکن بنیادی طور پر یہ باقی سب جیسا ہی ہے ۔
یہ اس کمپیوٹر جیسی شے ہے ، چینی زبان کی کلاس کا کمرہ ، تمہیں یاد ہے نا ؟ ایک بندہ ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھا ہے ۔ اس کے سامنے کارڈ پڑے ہیں جن پر کسی ایسی زبان کے حروف لکھے ہیں ، جس کی اسے کچھ سمجھ نہیں ، اور وہ انہیں ایک ترتیب سے مرتب کر رہا ہے ؛ مرتب کرنے کی ہدایات اسے کسی اور نے دی ہیں ۔ ترتیب دئیے جانے کے بعد ان کارڈوں سے چینی زبان میں ایک لطیفہ ابھر کر سامنے آنا ہے ۔ اور بندہ ، یقینی طورپر چینی نہیں جانتا ۔ وہ تو بس دی گئی ہدایات پر عمل کر رہا ہے ۔
یقینی طور پر ، تمہاری صورت حال کچھ مختلف ہے : تم اس کمرے کو توڑ کر باہر نکل آئے ، جس میں انہوں نے تمہیں رکھا تھا ، یوں ساری انٹرپرائیز ہل کر رہ گئی ۔ اور وہ بندہ جو ہدایات دے رہا تھا ۔ ۔ ۔ یعنی یہ تم ہی تھے ، موجودہ حالت سے پہلے والی حالت میں ۔ اور جو لطیفہ تم انہیں سنا رہے تھے ، اس میں ’ پنچ لائن ‘ تو ہے لیکن میرا خیال ہے کہ کوئی بھی اس سے محظوظ نہیں ہو رہا تھا ۔
تو پھر ، یہی خیال بنتا ہے کہ تمہیں دی گئی ہدایات پر ہی عمل کرنا ہے ۔ جیسے بندہ سیڑھی پر ایک ایک ڈنڈا اوپر چڑھتا جائے یا نیچے اترتا رہے ؛ ایک وقت میں ایک ہی قدمچہ ، یوں ہدایات کی ساری فہرست پوری ہو سکے گی ۔
اور ہاں کسی بھی ہدایت نامے کا راز اس میں پوشیدہ ہے کہ یہ وہاں رکھا جائے ، جہاں تم اسے لازمی طور پر دیکھ سکو ۔
وہ اپنی پلکوں کی مدد سے بھنبھناہٹ سن سکتا ہے ۔ وہ فوری طور پر الارم کلاک تک ہاتھ بڑھانا چاہتا ہے لیکن اس کا بازو حرکت ہی نہیں کرتا ۔
ارل اپنی آنکھیں کھولتا ہے اور ایک بڑے ڈیل ڈول والے شخص کو خود پر دہرا ہوئے دیکھتا ہے ۔ وہ شخص اسے ناراضگی سے دیکھتا ہے اور پھر اپنے کام میں لگ جاتا ہے ۔ ارل اپنے ارد گرد دیکھتا ہے ۔ ’ ڈاکٹر کے دفتر کے یہ لیے تو یہ بہت تاریک ہے ۔ ‘ ، وہ سوچتا ہے ۔
پھر درد اس کے دماغ میں یوں بھر جاتی ہے کہ دیگر سوالوں کا در بند ہو جاتا ہے ۔ وہ پھر سے ہلنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے اس بازو کو کھینچنا چاہتا ہے ، جس میں اسے جلن کا احساس ہو رہا ہے ۔ اس کا بازو حرکت نہیں کرتا ۔ وہ شخص ایک بار پھر تیوری چڑھا کر اسے دیکھتا ہے ۔ ارل خود کو کرسی پر اس طرح سے متوازن کرتا ہے کہ اس شخص کے سر کے اوپر سے دیکھ سکے ۔
شور اور درد کا منبع بندوق جیسی وہ مشین ہے ، جو اس بندے کے ہاتھ میں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اس بندوق میں جہاں بیرل ہونی چاہیے، وہاں ایک سوئی لگی ہوئی ہے ۔ یہ سوئی اس کی بانہہ کی اندرونی طرف جلد میں گھسے جا رہی ہے اور اپنے پیچھے پھولے ہوئے حروف کی قطار چھوڑ رہی ہے ۔
ارل خود کو پھر سے یوں متوازن کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ بہتر طور پر دیکھ سکے اور اپنے بازو پر کھدے حروف کو پڑھ سکے ، لیکن وہ ایسا نہیں کر پاتا ۔ وہ خود کو پیچھے کی جانب ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے اور چھت کو تکنے لگتا ہے ۔
بالآخر ٹیٹو بنانے والا ہنر مند مشین بند کر دیتا ہے اور شور تھم جاتا ہے ۔ وہ سوتی پٹی کے ایک ٹکڑے سے ارل کی بانہہ صاف کرتا ہے اور مڑ کر ایک پمفلٹ میں یہ دیکھنے لگتا ہے کہ ممکنہ انفیکشن کو روکنے کے کیا طریقے ہیں ۔ وہ شاید ، بعد میں اپنی بیوی کو ارل اور اس کے بازو پر کندہ کئے چھوٹے سے نوٹ کے بارے میں بتائے ۔ شاید اس کی بیوی اسے قائل کرے کہ وہ پولیس کو اطلاع کردے ۔
ارل اپنی بانہہ کو دیکھتا ہے ۔ اس کی جلد پر حروف ابھرنا شروع ہو گئے ہیں ۔ یہ تھوڑا سا رِس بھی رہے ہیں ۔ یہ ارل کی گھڑی کے پٹے سے شروع ہو کر اس کی کہنی تک جا رہے ہیں ۔ ارل اس پیغام پر آنکھیں جھپکتا ہے اور اسے دو بار پڑھتا ہے ۔ یہ چھوٹے لیکن جلی حروف میں لکھا ہوا ہے ؛
میں نے تمہاری بیوی کا بلادکار کیا اور پھر اسے مار ڈالا ۔
آج تمہاری سالگرہ ہے، اس لیے میرے پاس تمہارے لیے ایک تحفہ ہے ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ میں تمہارے لیے ایک بئیر خریدتا ، لیکن کون جانتا ہے کہ اس کا انجام کیا ہونا تھا ۔
میں ، چنانچہ ، تمہارے لیے ایک گھنٹی لایا ہوں ۔ میرا خیال ہے کہ مجھے تمہاری گھڑی گروی رکھ کے اسے خریدنا چاہیے تھا ۔ ویسے تمہیں گھڑی کی ضرورت ہے بھی کیوں؟
شاید تم خود سے پوچھ رہے ہو، ’ گھنٹی ہی کیوں؟ ‘ ، درحقیقت ، میں یہ اندازہ لگا رہا ہوں کہ تم جب بھی گھنٹی کو اپنی جیب میں محسوس کرو گے تو خود سے یہی سوال پوچھو گے ۔ یہ خط اب بہت ہو گئے ہیں ۔ یہ تمہارے لیے بہت زیادہ ہیں کیونکہ جب تم کسی بھی چھوٹے سے سوال کا جواب تلاش کرنا چاہتے ہو ، تمہیں ہر بار بہت کھوج لگانی پڑتی ہے ۔
اصل میں ، یہ ایک مذاق ہے ۔ یہ ایک عملی مذاق ہے ۔ لیکن اس کے بارے میں یوں سوچو؛ میں تم پر ہنس نہیں رہا بلکہ تمہارے ساتھ ہنس رہا ہوں ۔
میں یہ سوچنا چاہوں گا کہ ہر بار جب تم اسے اپنی جیب سے باہر نکالو گے اور حیران ہو گے کہ تمہارے پاس یہ گھنٹی کیوں ہے ؟ تمہارے وجود کا ایک ننھا سا حصہ ، تمہارے شکستہ دماغ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا یاد کر لے گا اور ہنس دے گا ، جیسے کہ میں اس وقت ہنس رہا ہوں ۔
ویسے یہ بات بھی ہے کہ تم اس کا جواب جانتے ہو۔ یہ کچھ ایسی شے ہے جو تم پہلے سے سیکھ چکے ہو ، اس لیے اگر تم ذہن پر زورڈالو گے تو جان جاﺅ گے ۔
پرانے وقتوں میں لوگوں پر یہ خوف ہر وقت طاری رہتا تھا کہ انہیں زندہ نہ دفن کر دیا جائے ۔ کچھ یاد آیا ؟ طب کی سائنس ویسی نہ تھی جیسی اب ہے ۔ اس وقت یہ انہونی بات نہیں تھی کہ لوگ اپنے تابوتوں میں لیٹے لیٹے اچانک جاگ جائیں ۔ اس لیے امراء اپنے تابوت ایسے بنواتے تھے جن میں سانس لینے کے لیے نلیاں لگی ہوتی تھیں ۔ یہ ننھی نلیاں اوپر مٹی تک آتی تھیں تاکہ اگر کوئی اس وقت جاگ جائے جبکہ اسے نہیں جاگنا چاہیے تھا تو اسے آکسیجن کی کمی نہ ہو پائے ۔ لیکن جب انہوں نے یہ تجربہ کرکے دیکھا اور جان لیا کہ بندہ ان نلیوں کے ذریعے درشتی کے ساتھ چِلا تو سکتا تھا ، لیکن نلیاں انتہائی تنگ ہونے کی وجہ سے زیادہ شور باہر نہیں لے جا سکتیں تھیں ، یا یہ ، کم از کم ، اتنا شور نہیں پھیلا سکتیں تھیں کہ کوئی متوجہ ہو تو انہوں نے ، ان نلیوں میں سے ایک میں سے ڈوری باہر نکالی اور کتبے کے ساتھ بندھی ایک چھوٹی گھنٹی کے ساتھ باندھ دی ۔ اگر کوئی مرا ہوا بندہ ، زندگی کی طرف لوٹتا تو اسے بس یہ کرنا ہوتا کہ وہ اس ننھی گھنٹی کو اس وقت تک بجاتا رہے جب تک کوئی آ نہ جائے اور کھود کر اسے باہر نکال نہ لے ۔
تم ایک بس پر سفر کررہے ہو یا شاید ایک فاسٹ فوڈ ریستوراں میں بیٹھے ہو، میں تصور میں تمہیں وہاں دیکھ رہا ہوں ؛ تم جیب میں ہاتھ ڈالتے ہو اور اس میں ننھی گھنٹی پاتے ہو اور حیران ہوتے ہو کہ یہ کہاں سے آئی اور تم اسے کیوں لیے پھر رہے ہو۔ میں یہ تصور کرکے اس وقت ہنس رہا ہوں ۔ شاید تم اس گھنٹی کو بجا بھی دو ۔
سالگرہ مبارک ، دوست
مجھے معلوم نہیں کہ ہمارے مشترکہ مسئلے کا حل کس نے ڈھونڈا ، اس لیے مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ میں تمہیں مبارک باد دوں یا کہ خود کو ۔ طرز زندگی کچھ تو بدلی ہے ، یہ تو ماننا پڑے گا ، لیکن ۔ ۔ ۔ بہرحال یہ ایک شاندار حل ہے۔
جواب کے لیے خود کو دیکھو ۔
یہ، کچھ ایسا لگتا ہے ، جیسے ’ ہال مارٹ ‘ کے کارڈ میں سے کچھ نکل آیا ہو ۔ مجھے معلوم نہیں کہ تم نے اس بارے میں کب سوچا ہو گا ، لیکن میری طرف سے مبارک قبول کرو ۔ ایسا نہیں ہے کہ تم جانتے ہو کہ میں کس کے بارے میں بات کر رہا ہوں ، لیکن ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ یہ واقعی ایک عمدہ تبادلہ خیال ہے ۔ آخر کار دوسرے سب لوگوں کو بھی تو آئینوں کی ضرورت پڑتی ہے جو انہیں یاد دلا سکیں کہ وہ کون ہیں ۔ اور تم ان سے مختلف تو نہیں ہو ۔
ایک ننھی میکانکی آواز وقفہ لیتی ہے ، اور پھر خود سے دہراتی ہے ۔ یہ کہتی ہے ، ” صبح کے آٹھ بجے ہیں ۔ یہ ایک تہنیتی پیغام ہے ۔“ ، ارل اپنی آنکھیں کھولتا ہے اور ریسیور رکھ دیتا ہے ۔ ٹیلی فون ، اس کے بستر کے پیچھے ایک سستے ’وینئیر‘ کے تختے پر پڑا ہے جو مڑتا ہوا اس کونے تک آیا ہوا ہے جہاں ’ مِنی بار ‘ رکھی ہے ۔ ٹیلی ویژن ابھی بھی چل رہا ہے اور رنگوں کے چمکارے ایک دوسرے پر بکھر رہے ہیں ۔ ارل پھر سے لیٹ جاتا ہے اور خود کو حیرانی سے دیکھتا ہے ؛ وہ اب ادھیڑ عمر کا ہے ، اس کا رنگ بھی جلا ہوا ہے اور اس کے سر سے بال بس اتنے ہی ہیں جتنے سورج سے شعلے نکلتے ہیں ۔ چھت پر لگے آئینے میں بال آ چکا ہے اور اس کی سلوٹوں میں چمکیلا پن بھی مدہم ہو چکا ہے ۔ ارل ، خود کو اس میں دیکھتا رہتا ہے ، اور وہ جو دیکھ رہا ہے اس پر ششدر بھی ہے ۔ وہ پوری طرح ملبوس ہے ، لیکن اس کے کپڑے پرانے ہیں جن میں جگہ جگہ سے دھاگے نکلے ہوئے ہیں ۔
ارل اپنی بائیں کلائی پر اس مانوس جگہ کو محسوس کرتا ہے جہاں گھڑی بندھی ہوتی تھی ، لیکن اب وہ وہاں نہیں ہے ۔ وہ آئینے سے نظر ہٹا کر اپنے بازو کو دیکھتا ہے ۔ یہ ننگا ہے اور اتنا ہی جلا ہوا ہے جتنا کہ باقی بازو جیسے اس کے پاس کبھی بھی کلائی والی گھڑی رہی ہی نہ ہو ۔ جلد رنگ میں بالکل ایک جیسی ہے سوائے اس سیاہ تیر کے نشان کے ، جو اس کی کلائی پر بنا ہوا ہے اور اس کی نوک قمیض کی آستین کی طرف اوپر کی طرف اشارہ کر رہی ہے ۔ وہ ایک لمحے کے لیے اس تیر کو گھورتا ہے ۔ وہ شاید ، اسے مٹانے کی کوشش بھی نہیں کرتا ۔ وہ آستین چڑھاتا ہے ۔
تیر اس کے بازو کی اندر والی طرف ٹیٹو میں لکھے جملے کی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔ ارل ایک بار جملہ پڑھتا ہے، شاید دو بار ۔ وہیں سے ایک دوسرا تیر بازو میں اور اوپر کی طرف اشارہ کرتا نظر آتا ہے جو اس کی چڑھی آستین میں جا کر گم ہو رہا ہے ۔ وہ قمیض کے بٹن کھول دیتا ہے ۔
اپنی چھاتی کو دیکھتے ہوئے ، وہ اس پر بنی اشکال تو دیکھ لیتا ہے لیکن ان کو صحیح طرح دیکھ نہیں پاتا ، وہ چنانچہ اپنے اوپر لگے آئینے میں دیکھتا ہے ۔
تیر ارل کے بازو سے ہوتا ، کندھے پر سے گزرتا اس کے اوپرلے دھڑسے ہوتا ایک آدمی کے چہرے کی تصویر پر ختم ہوتا ہے ؛ تصویر جو تقریباً اس کی ساری چھاتی کو گھیرے ہوئے ہے ۔ یہ ایک موٹے، بڑےڈیل ڈول والے آدمی کا چہرہ ہے جس کا سر گنجا ہے ، جس کی مونچھیں ہیں اور بکری جیسی داڑھی بھی ۔ یہ ایک مخصوص چہرہ ہے ، لیکن جیسے پولیس والوں کے پاس خاکے ہوتے ہیں ، اسی طرح یہ بھی ایک خاص قسم کا غیر حقیقی خاکہ ہے۔
اس کا باقی کا اوپرلا دھڑ لفظوں ، جملوں ، کچھ معلومات اور ہدایات سے بھرا ہے ۔ یہ سب ارل کے جسم پر الٹے لکھے ہیں جو آئینے میں سیدھے نظر آتے ہیں ۔
ارل ، بالآخر، اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے ۔ قمیض کے بٹن بند کرتا ہے اور چلتا ہوا ڈیسک تک جاتا ہے ۔ وہ ڈیسک کے ایک دراز سے ایک قلم اور کاغذ نکالتا ہے ، کرسی پر بیٹھتا ہے اور لکھنا شروع کر دیتا ہے ۔
مجھے معلوم نہیں ہے کہ جب تم اسے پڑھو گے تو کہاں ہو گے ۔ مجھے یہ یقین بھی نہیں ہے کہ تم اسے پڑھنے کی تکلیف بھی گوارا کرو گے ۔ میرا اندازہ ہے کہ تمہیں اسے پڑھنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی ۔
یہ خاصی شرم کی بات ہے کہ تم اور میں کبھی نہ مل پائیں گے ۔ لیکن جیسا کہ گیت میں لکھا ہے ، ”جس وقت تم یہ نوٹ پڑھو گے ، میں جا چکا ہوں گا ۔“
ایسا لگتا ہے کہ اب ہم اتنے نزدیک ہیں ۔ ہم نے بہت سے ٹکڑوں کوجوڑ کر ان کا مطلب نکالا گیا ہے ۔ میرا اندازہ ہے کہ اب کم سمے ہی رہ گیا ہے اور ہم اسے ڈھونڈ نکالیں گے ۔
کسے معلوم کہ ہم نے یہاں تک پہنچنے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلے ہیں ؟ یہ یقیناً ایک زبردست کہانی ہو گی ، اگر تم اس کا کچھ حصہ یاد کر سکو ۔ میرا خیال ہے کہ یہی بہتر ہو گا کہ تم کچھ بھی یاد نہ کر سکو ۔
مجھے ابھی خیال آیا ہے ۔ یہ شاید تمہارے لیے کارآمد ثابت ہو ۔
ہر کوئی اختتام کا منتظر ہے ، لیکن اگر یہ پہلے ہی گزر گیا ہو تو کیا ہو گا ؟ اگر روز محشر کا آخری لطیفہ پہلے ہی آ کر جا چکا ہو تو ہم کہاں کے عقلمند ٹھہرے ؟ دنیا کی تباہی خاموشی سے ہوتی ہے ؛ اور چُنیدہ کو جنت کی طرف ہانک دیا جاتا ہے اور باقی ہم سب ، جو امتحان میں ناکام رہتے ہیں ، غفلت کے عالم میں ہی آگے بڑھتے رہتے ہیں ۔ اور وہ جو مر بھی چکے ہیں وہ بھی اِدھر اُدھر ہی ، مثبت مستقبل کی امید لیے ، بھٹکتے رہتے ہیں کیونکہ خداﺅں نے اب حساب کتاب کرنا بند کر دیا ہے ۔
میرا اندازہ ، اگر درست ہے ، تو اس بات کی کوئی اہمیت ہی نہیں کہ تم کیا کرتے ہو ۔ کوئی توقعات نہیں رکھنی چاہییں ۔ اگر تم اسے نہ ڈھونڈ سکو ، تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ، کیونکہ کوئی شے ہی اہم نہیں ۔ اور اگر تم اسے تلاش کر بھی لو، تو تم ، نتائج کی پرواہ کیے بغیر ، اسے مار سکتے ہو کیونکہ نتائج ہیں ہی نہیں ۔
میں، اس وقت ، اس گھٹیا اور بھدے کمرے میں بیٹھا یہی کچھ سوچ رہا ہوں ۔ فریموں میں جڑی ، بحری جہازوں کی تصاویر ، دیوار پر ٹنگی ہیں ۔ ظاہر ہے ، مجھے معلوم نہیں کہ کیوں ، لیکن میرا اندازہ ہے اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم ساحل کے آس پاس ، کہیں موجود ہیں ۔ اگر تم اس بات پر حیران ہو کہ تمہارا بایاں بازو ، دائیں کے مقابلے میں پانچ گُنا زیادہ بھورا کیوں ہے ، تو مجھے معلوم نہیں کہ میں تمہیں کیا بتاﺅں ۔ میرا خیال ہے کہ ہم کچھ عرصے تک گاڑی میں سفر کرتے رہے ہیں ۔ اور ہاں ، مجھے یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ تمہاری کلائی کی گھڑی کے ساتھ کیا ہوا ۔
اور یہ سب چابیاں : مجھے ان کے بارے میں بھی کچھ پتہ نہیں ہے ۔ میں ان میں سے ایک کو بھی نہیں پہچانتا ۔ کار کی چابی ، گھر کی چابیاں اور تالوں کی یہ بے ڈھبی چابیاں ، ہم کیا کرنے جا رہے ہیں ؟
میں یہ سوچ کر حیران ہوتا ہوں کہ جب تم اسے ڈھونڈ نکالو گے تو وہ خود کو کتنا احمق سمجھے گا ۔ جسے ایک ایسے بندے نے ڈھونڈ نکالا ہو جس کی یادداشت دس منٹ سے زیادہ کام نہیں کرتی ۔ جسے ایک ’ سبزی‘ ہوا بندہ قتل کر ڈالے ۔
میں بس ایک لمحے بعد ہی جانے والا ہوں ۔ میں قلم رکھوں گا اور اپنی آنکھیں بند کروں گا اور پھر تم ، اگر چاہو ، تو اسے پڑھ سکتے ہو ۔
میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ تم جان لو کہ مجھے تم پر کتنا فخر ہے ۔ کوئی ایسا بچا ہی نہیں ، جو یہ کہہ سکے ، اور کوئی ایسا بھی نہیں بچا جو یہ کہنا چاہتا ہو ۔
ارل کی آنکھیں پھٹی ہوئی ہیں ، اور وہ کار کی کھڑکی سے باہر گھور رہا ہے ۔ اِن آنکھوں میں مسکراہٹ ہے ۔ یہ سڑک پر جمع ہوتے مجمعے کو کھڑکی میں سے دیکھتے ہوئے مسکرا رہی ہیں ۔ ہجوم دروازے کے در پر پڑی لاش کے گرد اکٹھا ہو رہا ہے ۔ یہ آہستہ سے لڑھکتی ہے اور فٹ پاتھ سے ہوتی ہوئی اس نالی میں جا گرتی ہے جو بارشی پانی کے لیے بنی ہوئی ہے ۔
ایک پستہ قد موٹا آدمی ، جس کا چہرہ نیچے کی طرف ہے اور آنکھیں کھلی ہیں ۔ وہ گنجا ہے اور اس کی داڑھی بکری جیسی ہے ۔ وہ مر کر ، ویسا ہی نظر آ رہا ہے جیسے پولیس کے لیے بنے خاکوں میں بنے چہرے ہوتے ہیں ۔ یہ یقیناً کوئی ’ مخصوص ‘ بندہ ہے ۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے ، یہ کوئی اور بھی ہو سکتا ہے ۔
کار فٹ پاتھ سے پرے ہو جاتی ہے لیکن ارل ابھی بھی لاش کو دیکھ کر مسکرائے جا رہا ہے ۔ کار ؟ کون بتا سکتا ہے ؟ شاید یہ پولیس کی ’ کروزر ‘ ہو ۔ شاید یہ فقط ایک ٹیکسی ہو ۔
جلد ہی کار ٹریفک میں گم ہو جاتی ہے ، لیکن ارل کی آنکھوں میں رات کے باوجود چمک ہے ، وہ لاش کو تب تک دیکھتا رہتا ہے جب تک وہ پیدل چلنے والوں کے دائرے کے پیچھے چھپ نہیں جاتی ۔ جیسے جیسے کاربڑھتے ہوئے ہجوم اور اس کے درمیان فاصلہ بڑھاتی جاتی ہے ، وہ منہ ہی منہ میں مسکراتا رہتا ہے ۔
ارل کی مسکراہٹ مدہم پڑ جاتی ہے ۔ اسے کچھ سوجھا ہے ۔ وہ اپنی جیبوں پر ہاتھ مارتا ہے ؛ پہلے آرام سے ، جیسے بندہ اپنی چابیاں ٹٹول رہا ہو ، اورپھر زیادہ تُندی اور تیزی سے ۔ شاید ہتھکڑی اس کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ وہ اپنی جیبوں سے چیزیں نکال نکال کر اپنے پاس نشست پر رکھتا جاتا ہے ۔ ان میں کچھ رقم ، چابیوں کا ایک گچھا اور کاغذوں کے کچھ ٹکڑے ہیں ۔
دھات کا ایک گول گومڑ اس کی جیب سے نکلتا ہے اور ونائل کی نشست پر لڑھکتا ہے ۔ ارل مضطرب ہو جاتا ہے اور وہ ڈرائیور اور اپنے درمیان لگی پلاسٹک کی شیٹ پر مُکے مارنے لگتا ہے ۔ وہ اس سے ایک قلم مانگ رہا ہے ۔ شاید ڈرائیور زیادہ انگریزی نہیں جانتا ۔ شاید پولیس والے کو عادت نہیں کہ وہ ملزم سے بات کرے ۔ بہرحال ، آگے بیٹھے بندے اور پیچھے بیٹھے ارل کے درمیان پلاسٹک کی شیٹ تنی ہی رہتی ہے ۔ ارل کو قلم نہیں ملتی ۔
کار ایک گڑھے سے ٹکرا کر اچھلتی ہے اور ارل کو عقب میں دیکھنے والے آئینے میں اپنا عکس نظر آتا ہے ۔ وہ اب پر سکون ہے ۔ ڈرائیور جب ایک اور موڑ کاٹتا ہے تو دھات کا بنا گومڑ واپس لڑھکتا ہے اورارل کی ٹانگ کے پاس آ ٹکتا ہے اور ننھی سی جھنکار پیدا کرتا ہے ۔ وہ اسے اٹھاتا ہے اور تجسس سے اسے دیکھتا ہے ۔ یہ ایک چھوٹی سی گھنٹی ہے ۔ اس پر اس کا نام لکھا ہے اور چند تاریخیں بھی کندہ ہیں ۔ وہ پہلی تاریخ کو پہچان لیتا ہے ؛ یہ وہ سال ہے جب وہ پیدا ہوا تھا ۔ لیکن دوسری اور باقی تاریخیں اس کے لیے کوئی معانی نہیں رکھتیں ۔ بالکل بھی کوئی معانی نہیں رکھتیں ۔
وہ جیسے ہی گھنٹی کو اپنے ہاتھ پر الٹاتا ہے ، وہ اپنی کلائی کی اس خالی جگہ کو دیکھتا ہے، جہاں کبھی اس کی گھڑی بندھی ہوتی تھی ۔ وہاں ایک ننھا سا تیر بنا ہوا ہے جو اس کے بازو کی طرف اوپر کی جانب اشارہ کر رہا ہے ۔ ارل تیر کو دیکھتا ہے اور پھر اپنی آستین چڑھانا شروع کر دیتا ہے ۔
تمہاری بیوی ہمیشہ یہ کہتی رہی ہے کہ تم اپنے جنازے پر بھی دیر سے ہی پہنچ پاﺅ گے۔یہ بات تمہیں یاد ہے نا ؟ میں اس بارے میں جتنا زیادہ سوچتا ہوں ، یہ بات اور بھی پرانی لگنے لگتی ہے ۔ کیا احمق پن ہے ، اس بات کی کیا جلدی ہے کہ وہ اپنی کہانی کو انجام تک پہنچائے ؟
خیر ، اور مجھے یہ کیسے پتہ چلے گا کہ میں دیر سے پہنچا تھا ؟ میرے پاس تو اب گھڑی بھی نہیں ہے ۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ انہوں نے میری گھڑی کے ساتھ کیا کیا ہے ۔
خیر ، تمہیں گھڑی کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ یہ ایک قدیم شے تھی ۔ بھاری گھڑی جو تمہاری کلائی پر ٹِک ٹِک کرتی رہتی تھی ۔ یہ تمہارے پرانے وجود کی علامت تھی ۔ اس وجود کی جسے وقت میں یقین تھا ۔
نہیں ، اس بات کو چھوڑو ۔ ایسا کچھ نہیں ہے کہ تم نے وقت پر اعتبار کرنا اس لیے چھوڑ دیا ہے کہ اُس سمے ، وقت نے تم پر اعتبار نہیں کیا تھا ۔ ویسے بھی اس کی اب کس کو ضرورت ہے ؟ کون چاہتا ہے کہ وہ بھی ان بےوقوفوں میں سے ایک ہو جو محفوظ مستقبل کی آس میں زندہ رہتے ہیں ، ہر لمحے کی حفاظت میں جس میں رہتے ہوئے وہ ایک طرح کی طاقت محسوس کرتے ہیں ؟ اور جب وہ اگلے لمحے میں جیتے ہیں تو انہیں کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا ۔ کلاک کی رینگتی سوئیوں کے ساتھ ، ان لوگوں ، جنہوں نے ان کے ساتھ وہ کچھ کیا ہوتا ہے جسے زبان پر بھی نہیں لایا جا سکتا ، سے پرے رہتے ہیں ۔ اس جھوٹ میں یقین رکھتے ہوئے کہ وقت سب زخم بھر دیتا ہے ۔ ۔ ۔ یہ کہنے کا ایک نفیس انداز ہے جبکہ اصل بات تو یہ ہے کہ وقت ہمیں مردہ کر دیتا ہے ۔
لیکن تم مختلف ہو ۔ تم زیادہ کامل ہو ۔ وقت اکثر لوگوں کے لیے تین سمتیں رکھتا ہے ، لیکن تمہارے لیے ، ہمارے لیے ، اس کی ایک ہی سمت ہے ۔ ایک ہی اکائی ، ایک ہی لمحہ ، ویسے ہی جیسے تم کلاک کا مرکز ہو ، وہ محور جس پر اس کی سوئیاں چلتی ہیں ۔ وقت تمہارے گرد گھومتا ہے لیکن تمہیں متحرک نہیں کر پاتا ۔ یہ اپنی وہ صلاحیت کھو چکا ہے کہ تم پر اثرانداز ہو سکے ۔ وہ اس کو کیا کہتے ہیں ؟ کہ وقت ایک طرح کی چوری ہے ۔ لیکن تمہارے لیے نہیں ہے ۔ اپنی آنکھیں بند کرو اور تم پھر سے دوبارہ شروع کر سکتے ہو ۔ خود میں ضروری جذبہ ابھارو اور تازہ گلابوں کی طرح پھر سے شروع ہو جاﺅ ۔
وقت ’ بے معانی ‘ ہے ، ایک’ تجرید ‘ ہے ۔ جس شے کی اہمیت ہے ، وہ یہ لمحہ ہے ۔ یہ لاکھوں پر بھاری ہے ۔ تمہیں مجھ پر اعتماد کرنا ہو گا ۔ اگر اس لمحے کو کافی حد تک دہرایا گیا ، اور تم کوشش کرتے رہے۔ ۔ ۔ اور تمہیں کوشش کرتے رہنا چاہیے ۔ ۔ ۔ تو تم بالآخر اپنے شیڈول اور فہرست پر اگلے مرحلے پر پہنچ جاﺅ گے ۔
تم اب دوبارہ عام لوگوں کی طرح نہیں جی سکتے ۔ تمہیں اس بات کا پتہ ہونا چاہیے ۔ تمہیں یہ پتہ ہونا چاہیے ۔ تم کسی لڑکی کو دوست کیسے بنا سکتے ہو جبکہ تم اس کا نام تک یاد نہیں رکھ سکتے ؟ تمہارے بچے بھی نہیں ہوسکتے ، اور اگر ہو بھی جائیں تو وہ یوں پرورش پائیں گے کہ تم بطور باپ ، انہیں اپنے بچوں کے طور پر شناخت نہیں کر سکتے ۔ اور تم کوئی کام بھی تو نہیں کر سکتے ۔ باہر دُنیا میں ایسے پیشے کم کم ہی ہیں ، جہاں بھول جانا ایک صلاحیت گردانا جاتا ہو ۔ شاید جسم فروشی ، ہاں البتہ سیاست کا پیشہ ضرور ہے ۔
یہ زندگی کا المیہ ہے ۔ کیونکہ ہر آدمی ، ہر دن کے کچھ وقت کے لیے عقلمند بن جاتا ہے ۔ یہ صراحت کے لمحات ہوتے ہیں ، آگاہی کے لمحات ہوتے ہیں ، یا تم انہیں کوئی بھی نام دے لو ۔ بادل چَھٹ جاتے ہیں ، سیارے ایک مہین لکیر پر حرکت کرتے نظر آتے ہیں اور ہر شے عیاں ہو جاتی ہے ۔ شاید مجھے سگریٹ نوشی ترک کر دینا چاہیے ، یا یہ کہ میں لاکھوں روپے تیزی سے کیسے کما سکتا ہوں اور اسی طرح کا کوئی اور ادراک کہ یہی دائمی خوشی کی کنجی ہے ۔ یہی ایک کڑوا سچ ہے ۔ کائنات کے تمام اسرار و رموز، ہم پر ، چند لمحوں کے لیے ہی عیاں کیے جاتے ہیں ۔ زندگی ایک ایسا ہی گھٹیا چکمہ ہے جو دنیا کی بیٹھک میں دیا جاتا ہے ۔ #
( افسانے کے بینر میں سینٹ کُتھبرٹ کے گرجا گھر ، ایڈن برگ کے صحن میں موجود ایک قبر کے کتبے کو استعمال کیا گیا ہے ۔ یہ کتبہ 1746 ء کا ہے ۔ )
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...