(Last Updated On: )
“یاد رکھنے کا ہنر “
(قوتِ حافظہ: حکمت سے برکت تک کا سفر ہے)
؎”اب وقت نےپڑھائے تو پڑھنے پڑے تمام ۔۔۔اسباق جو نصاب میں شامل نہیں رہے”
یہ مضمون عام علمی مضامین سے الگ میری اپنی زندگی کا سب سے بڑا انکشاف ہے۔ اس ہنر یعنی “میموری ماسٹری “کو میں نے عالمی شہرت یافتہ ماہرین سے خود سیکھا ہے۔میں سلسلہ وار آپ کو حافظہ کےہنر کو محفوظ رکھنے کے 30 بینک اکاونٹس کے راز دوں گا جہاں ان تجوریوں میں آپ اپنی تمام یاداشتیں محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ اس ہنر کی برکات یہ ہیں کہ کو اگر کوئی بچہ ، نوجوان یا بوڑھا اسے سیکھ جائے تو اس کا حافظہ حیرت انگیز طور پر بہترین ہوجاتا ہے۔ اس سے زندگی آسان ہوجاتی ہے۔ چاہے وہ مسابقتی امتحانات ہوں، ڈاکٹری، سیول سرویزس بلکہ کسی بھی طرح کے مہمات اورمقابلوں میں مکمل یقین کے ساتھ جیتاجا سکتا ہے۔ اس سے کم از کم فائدہ یہ ہوگا کہ 300 فیصد آپ کا حافظہ ترقی کرجائے گا۔ یاداشت توانا ہوجائے گی۔ جس کو یہ ہنر آجائے اس کو اپنی کسی بھی محرومی کا غم نہیں ہوگا۔ وہ اپنے بزرگوں ، ملک و قوم سے شکایت بھی نہیں کرسکے گاکہ اس کو اچھا کالج ، اچھے مواقعے اور اچھے استاد نہیں ملے بلکہ وہ خدا کا شکر ادا کرے گا کہ اس نے ایک ایسے امکانات کی دنیا میں داخل ہو نے کا راستہ بتادیا جہاں ہر قدم پر خزانوں کے باب کھلتے ہیں۔رب نے اس کے دماغ کو ایک ایسا حیرت کدہ بنا دیا جہاں سب کچھ ترتیب سے موجود ہے۔جہاں یادوں کو آپ چھو کر ٹٹول کر دیکھ سکتے ہیں۔جگ جیتنے کے سارے راز آپ کے پاس ہیں۔اب رب کے شکر کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔؎
“یاد رکھنا بھی اک عبادت ہے۔۔کیوں نہ ہم ان کا حافظہ ہو جائیں”
حافظہ کی حیران کن صلاحیتوں سے جڑے ایسے دعووں کو میں پہلے میں اپنی نا واقفیت کی سبب بلا تامل ٹھکرا دیا کرتا تھا۔ بلکہ یہ مانتا تھا کہ قوت ِ حافظہ یا یادکرنے کی صلاحیت صرف مخصوص لوگوں کی پہچان ہوتی ہے ۔ کسی خاص گروہ یا نسل کو یہ ملکہ حاصل ہوتا ہے۔ یہ اتفاقی مہارت ، عطائی قسم کی چیز ہوتی ہے وغیرہ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان معجزاتی ، کراماتی اور حیرت انگیز چیزوں کو پلک جھپکنے میں کیسے یادکرسکتا ہے۔ ہزاروں الفاظ، ہزاروں اعداد و شمار، ہزاروں رنگوں کی ترتیب ، پیچیدہ راستوں کی پہچان،مشکل الفاظ کے معنی، نئی زبانوں کا سیکھنا ، املا کی غلطیوں کا حل، حساب کے فارمولے، پورے کرہ ارض کے ممالک اور ان کے شہر، کرنسی۔ عرض البلد اور طول البلاد پر وقت کے بڑھتے اور گھٹتے ہوئے وقت کے اصول ۔ ہزاروں پاس وارڈس بلکہ حفظ قرآن بھی اس سے آسان ہوجاتا ہے۔
حفظ ِمتن ایک فن ہے۔یہ صرف معلومات پر منحصر علم نہیں بلکہ ہنر ہے۔ ہنر کو پل بھر میں سیکھا نہیں جاسکتا ۔ اس کو چند ہفتوں کی مشق درکار ہوتی ہے۔ پھر یہ اپنے کمال دکھاتا ہے۔ ہر سیکل چلانے والا اور تیراکی کا فن جاننے والا یہ بھی خوب جانتا ہے کہ وہ دوسرے شخص کو حتمی طور پریہ نہیں بتاسکتا کہ تم صرف یوں سیکل پر سوار ہوجاو تو توازن آجائے گا۔ تیراک بھی ٹھیک وہ راز نہیں دے سکتا کہ بدن پانی میں یوں چھوڑو یا یوں سنبھالو تو تیراکی کا ہنر آجائے گا بلکہ صرف کوشش پر لگا کر چھوڑدیا جاتا ہے پھر
یکا یک سیکل کا توازن اور تیراکی میں بدن پر قابو پانے کا ہنر آجاتا ہے۔ حافظہ کا یہ ہنر بھی تھوڑی سی مشق مانگتا ہے۔ پھر آپ جادو گر بن جاتے ہیں۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔ہم نے لیپ ٹاپ، پام ٹاپ کو سمجھا اور برتا ہے اب
Neck Top
کو سمجھنا ہوگا۔ جو دماغ ہم اپنے گردن پر ڈھوئے ڈھوئے پھرتے ہیں اس کے راز ٹٹولنے ہوں گے۔ اس لیے حافظہ کے ہنرکے بارے میں کسی سرسری رائے سے گمراہ ہونے کے بجائے اس کو مکمل طور پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔قوتِ حافظہ کا سفر حکمت سے برکت تک کا سفر ہے۔ کہیں بھی ذہانت کی سبیل و لنگر نہیں ملتی۔ہمیں اپنی کوشش، وسائل اور تعلیم یافتہ افراد کے ایثار سے یہ مہم سر کرنی ہوگی۔
اگر کوئی یہ پوچھے کہ یاداشت کسے کہتے ہیں؟ تو جواب یہ ہے کہ قوت ِ حافظہ انسانیت کی مشترکہ میراث۔ یہ فرد کی تنہا جاگیر نہیں ۔ہاں! ہر فرد کے سپرد یہ ایک امانت ہے۔ یہ کامن ویلتھ ہے ۔ جو رب نے سب کو دیا ہے اور وہ سب کی مشترک جاگیرہے۔ یادکی طاقت آپ کی چاکری کرنے کے واسطے رب نے عطا کی ہے۔ یہ “طاقت “کے بجائے “عذاب “جب بنتی ہے۔ جب ہم بے کار جذبات و احساسات سے بھری یادوں کی دنیا میں جینے لگتے ہیں ۔ کیوں کہ “جذبات “صرف عقل کے سفیر ہوتےہیں ۔ سفیروں کی باتیں سنی جاتی ہیں ۔ اس کا نا تو قتل کیا جاتا ہے اور نا ہی سفیر کو حاکم مان کر اس کی غلامی کی جاتی ہے۔بے نتیجہ جذبات کو ہم اگر اپنے حافظہ میں جگہ نہ دیں تو عقل بہتر فیصلے کرسکتی ہے۔ عقل ، حافظہ ، اور یاداشت کو صرف جذبات کے تڑکے سے ذائقہ دار بنا کر اس کو ذہن کے برف دان میں رکھیں اور جب چاہیں استعمال کریں۔؎
“یادوں نے لے لیا مجھے اپنے حصار میں۔۔۔میرا وجود حافظہ بن کر سکڑ گیا”
اگر ذہن میں یہ سوال ابھرے کہ یادکی روشن سطح پر کیا رہتا اور کیوں رہتا ہے۔ اس کا جواب ہوگا کہ ہم دن نہیں، لمحے یاد رکھتے ہیں۔ حافظہ میں صدیاں نہیں ، پل پناہ لیتے ہیں ۔ ہم یادوں کی زنجیر نہیں کڑی پکڑتے ہیں زنجیر خود بہ خود کھنچی چلی آتی ہے۔اگر یہ سوال ابھرے کہ کیا ہر آدمی کے پاس حافظہ ہوتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حافظہ یا تو تربیت یافتہ ہوتا ہے یا غیر تربیت یافتہ ہوتا ہے۔ کمزور سے کمزور ذہن شعوری کوشش سے تربیت لے کر کمال حاصل کرسکتا ہے ورنہ ہم تو کان میں پنسل اڑس کرسارے جنگل کے درختوں کی لکڑیوں کو ٹٹولتے رہتے ہیں تب بھی اپنے کان میں پھنسا قلم نظر نہیں آئے گا۔
حافظہ اور دماغ کی ساخت کے بارے میں ایک سائنسی حقیقت ہے کہ ایک مرتبہ سنہ 2002 میں انسٹیٹیوٹ آف نیورالوجی لندن نے عالمی شہرت یافتہ حافظہ کے 9ماہرین کا دماغ عام آدمی کے دماغ سے مقابلہ کرتے ہوئے
FMRI functional magnetic resonance Image
کے ذریعہ چیک کیا گیا تو انھیں حیرت ہوئی کہ بظاہر دونوں گروپوں میں کوئی فرق نہیں تھا سوائے جب یاد کرنے کی مہم پر ماہرین ہوتے ہیں ان کے ذہن میں نیورانس کی نورکی جل مل تحیریریں جو نیورولوجیکل شاہ راہ پر کوڈ ینگ کی شکل میں لکھتی ہیں جس کو
Synaptic messages بھی کہتے ہیں۔ ویسے دینے والے رب نے ہر انسان کو اتنا حافظہ دیا ہے کہ وہ 300 سال تک 24 گھنٹے چلائے جانے والی فلم کے برابر ہے۔ہاں! یہ اور بات ہے کہ ہم اس دولت کے خزانوں سے واقف نہیں۔ اسی لیے جگہ جگہ قرآن میں یاد ، ذکر ،حافظہ اور اس جڑی ذمہ داریوں کا ذکر آتا ہے۔(جاری)
***
***
نعیم جاوید
سعودی عرب
ڈائریکٹر شخصیت سازی ادارہ “ہدف”
Email: [email protected]