(Last Updated On: )
یاد کی مایہ بکھر گئی، جذبوں کا سہارا بکھر گیا
تم کو کیا مہمان کریں سامان تو سارا بکھر گیا
وقت نے یوں گل بوٹے کاڑھے ذہن کے تانے بانے پر
سوچوں کو جو رنگ دیا تھا، رنگ تمہارا بکھر گیا
ایسے لگا تم دل سے چل کر آ بیٹھے ہو آنکھوں میں
کچھ پل تو یوں خواب سا دیکھا، پھر وہ نظارا بکھر گیا
اونچے اونچے محل بنے انسان کے یکجا رکھنے کو
لیکن ان میں رکھنے سے انسان بچارا بکھر گیا
سیلابوں کے موسم میں دریا نے سنبھالا بہت مگر
ایک نشیبی بستی میں کمزور کنارا بکھر گیا
سارے دن کو سب لوگوں پر روشن رکھنا سہل نہیں
ایسا ٹوٹا رات کو سورج تارا تارا بکھر گیا
حیرت ہے تم سود و زیاں میں اپنے قصے بیٹھے
بھائی یہاں اسکندر ہارا، افسرِ دارا بکھر گیا
لفظ ہی باقی رہ جاتے ہیں جو ترتیب ریاض سے ہوں
جسم سے باقی کیا رہتا ہے، لاکھ سنوارا بکھر گیا