آج پھر اسی ساحل پر موجود ہوں لیکن تم ساتھ نہیں۔ چاند اپنی آب و تاب کے ساتھ اپنی چاندنی بکھیر رہا ہے۔ سمندر کی لہریں اٹھ اٹھ کر ساحل پر تمہیں تلاش کر رہی ہیں اور تمہاری غیر موجودگی کے احساس کے بعد ہر بار اپنا سر ساحل پر پٹکتے ہوئے بین کر رہی ہیں۔ میں بھی مغموم ہوں اور شاید غم کی شدت نے مجھے مجبور کر دیا ہیکہ آج میں اس ساحل سمندر پر آ موجود ہوا جہاں ہم ہفتہ کی شام ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اپنی محبت کے نشہ میں شرابور رہتے تھے۔ یاد ہے ایک بار جب ہم سمندر کی لہروں سے کھیل رہے تھے تو میں نے تم سے سوال کیا کہ تمہیں مجھ سے کتنی محبت ہے؟ تم نے میری طرف ایک لمحہ نظر اثھا کر دیکھا اور ہاتھ میں چلو بھر پانی لے کر کہا اتنی۔ میں نے بہت غور سے اس چلو بھر پانی کو دیکھا اور مغموم ہو کر خاموش ہو بیٹھا۔ تم نے میرا چہرہ پڑھ لیا۔
میرے جذبات سمجھ لئے اور بھر دونوں باہیں پھیلا کر کہا نہیں مجھے تم سے اتنی محبت ہے۔ میں مستی سے جھوم اٹھا اور تمہیں اپنی بانہوں میں سما کر کہا کہ اے اللہ تو ہماری اتنی ساری محبت سلامت رکھنا لیکن آج مجھے یوں لگتا ہے کہ تم نے اس چلو بھر پانی کی مقدار سے مجھے جتا دیا تھا کہ میرے تئیں تمہاری محبت اتنی ہی تھی اور یہی پہلا اشارہ قدرت نے ظاہر کر دیا تھا ورنہ تم آج بھی میرے ساتھ ہوتیں۔
ان ہی خیالات کے ساتھ بوجھل قدموں سے میں اس چٹان کی جانب آ نکلا ہوں۔ دیکھ رہا ہوں کے اسی چٹان کی اوٹ میں آج پھر ہم جیسا کوئ دیوانہ اپنی محبوبہ کی بانہوں میں سمٹا ہوا ہے۔ تمام مناظر آنکھوں میں گڈ مڈ ہورہے کہ آنکھوں سے سیلاب بلا نکلنے کو ہے۔ کیا کروں کہاں جاؤں۔ کچھ دنوں میں سب بدل گیا تم کتنی خوش ہوگی میں نہیں بتا سکتا لیکن میں خانماں برباد یہاں کھڑا ہوا اب یہی دعا مانگ رہا ہوں کہ اے خدا اس چٹان کی اوٹ میں موجود نئے دیوانوں کو ان کی منزل ضرور عطا کرنا۔