ساتھ دی گئی الفاظ کی فہرست پڑھیں اور بہت توجہ سے پڑھیں۔ ٹافی، کھٹا، چینی، کڑوا، اچھا، ذائقہ، دانت، مزیدار، شہد، سوڈا، چاکلیٹ، دل، کیک، کھانا، کھیر۔ اگر آپ نے اس کے صرف پہلے چند الفاظ احتیاط سے پڑھے تھے اور باقی پر سے فٹافٹ گزر گئے کہ اتنا وقت اور صبر نہیں تھا تو ایک بار پھر سوچ لیں۔ یہ اس مضمون کو سمجھنے کے لئے اہم ہے۔ تسلی سے ایک مرتبہ اس فہرست کو پڑھیں۔ اور اس کے بعد اس کو ڈھانپ دیں کہ ان الفاظ پر نظر نہ پڑے۔ اور اس کے بعد ہی اگلے سیکشن کو پڑھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مشق دنیا میں کئی گروپس کو دی جا چکی ہے اور اس کا نتیجہ ایک ہی طرح کا نکلتا ہے۔ یہ سادہ سی مشق ہے۔ آپ نے تین الفاظ پہچاننے ہیں کہ آیا وہ اس فہرست میں تھے یا کہ نہیں۔ ذائقہ، نقطہ، میٹھا۔ اس کا جواب سوچ کر دیں۔ ایک ایک کر کے ہر لفظ کے بارے میں سوچ کر بتائیں۔ کیا آپ نے یہ لفظ اس فہرست میں دیکھا تھا؟ جواب دے دینے کے بعد ڈھانپی ہوئی فہرست کو دوبارہ دیکھیں اور بتائیں کہ آپ نے جواب ٹھیک دئے یا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگوں کی بڑی اکثریت بہت اعتماد سے کہتی ہے کہ “نقطہ” اس فہرست میں نہیں تھا۔ اکثریت یہ بھی کہتی ہے کہ “ذائقہ” کا لفظ فہرست میں تھا۔ اس مشق میں جو لفظ الجھا دیتا ہے، وہ “میٹھا” ہے۔ اگر آپ کو یاد پڑا تھا کہ یہ لفظ آپ نے فہرست میں دیکھا، تو یہ آپ کا سراب تھا۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ یادداشت میں فہرست کا ایک ایک لفظ الگ الگ داخل نہیں ہوا۔ “میٹھا” فہرست میں نہیں تھا۔ لیکن کئی الفاظ ایسے تھے جو مٹھاس سے تعلق رکھتے تھے۔ اور یہ وہ وجہ ہے کہ اس مشق کرنے والوں میں سے کئی کو یاد پڑتا ہے کہ یہ لفظ انہوں نے اس فہرست میں دیکھا تھا۔ نصف لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔ اور ہو سکتا ہے کہ آپ نے بہت اعتماد سے اس پر ہاں کہا ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کو یہ بھی یاد ہو کہ لفظ فہرست میں کہاں لکھا تھا۔
چند الفاظ کے ساتھ، پوری توجہ کے باوجود اور فہرست دیکھنے کے چند سیکنڈ کے اندر ہی جانے والی یہ غلطی ہمیں یادداشت کے طریقے کے ایک رخ کے بارے میں بتاتی ہے۔
اب اگلا سوال: کیا ایک بعد یاد رہ جانے کے بعد وقت کے ساتھ یہ یاد صرف مدہم پڑتی ہے یا اس میں کوئی بھی تبدیلی ہوتی ہے؟ اور دوسرا یہ کہ یادداشت کی غلطی کے ساتھ ہمارے اس بارے میں اعتماد پر کیا فرق پڑتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پر انیس سال کی تحقیق کے بعد بارٹلٹ نے اسی موضوع پر اپنا پیپر شائع کیا تھا۔ ان کا نتیجہ یہ تھا کہ یادداشت خود وقت اور سماجی انٹرایکشن کے ساتھ تبدیل ہوتی ہے۔ یہ خود ایک متحرک شے ہے۔ اس میں ردوبدل ہوتا رہتا ہے۔
ایموری یونیورسٹی کے محقق الرک نیسئر اسی کام کو آگے بڑھا رہے تھے۔ امریکی خلائی شٹل چیلنجر کا افسوسناک حادثہ 1986 میں ہوا اور بڑی خبر بنا۔ نیسئر نے طلباء کے ایک گروپ سے پوچھا کہ انہیں پہلی بار اس حادثے کی خبر کیسے ملی۔ طلباء نے اپنے جواب لکھ کر انہیں دے دئے۔ تین سال بعد ان میں سے 44 طلباء سے یہی سوال دوبارہ کیا۔ کسی ایک کا جواب بھی مکمل طور پر وہ نہیں تھا جو اس نے تین سال پہلے لکھا تھا۔ اور ایک چوتھائی جواب مکمل طور پر غلط تھے۔ خبر کیسے سنی؟ اس کے جواب زیادہ ڈرامائی کہانیوں میں بدل گئے تھے۔ یہ نتائج بالکل ویسے تھے جیسا بارٹلٹ کا کام پیشگوئی کرتا تھا۔
مثال کے طور پر: ایک طالب علم جس نے پہلے بتایا تھا کہ اس نے کیفے ٹیریا میں دوستوں کے ساتھ گپیں لگاتے ہوئے اس بارے میں سنا تھا، اس نے بعد میں کہا “ایک لڑکی ہال میں بھاگتی ہوئی آئی، وہ شور مچا رہی تھی، شٹل پھٹ گئی ہے”۔ ایک اور جس نے اپنی کلاس میں ہم جماعتوں کے ساتھ سنا تھا۔ اس کا کہنا تھا، “میں اپنے روم میٹ کے ساتھ ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ اچانک بریکنگ نیوز آئی۔ ہم دونوں سکتے کی حالت میں آ گئے”۔
اس سے بھی زیادہ دلچسپ یہ تھا کہ جب انہیں ان کی اپنی تین سال قبل لکھی ہوئی سٹیٹمنٹ دکھائی گئی تو اسے ماننے میں ہچکچاہٹ تھی۔ ایک نے کہا، “ہاں، یہ لکھائی تو میری ہی ہے لیکن جو لکھا، وہ ٹھیک نہیں تھا۔ مجھے بہت اچھی طرح سے یاد ہے کہ ایسا نہیں ہوا تھا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم غلط ضرور ہوتے ہیں لیکن جب ہم غلط بھی ہوں تو بھی اپنے ٹھیک ہونے کے بارے میں شک نہیں رکھتے۔
اپنے ٹھیک ہونے کے اعتماد میں معمولی سی کمی ہم سب کو فائدہ دے سکتی ہے، خواہ ٹھیک ہونے کے بارے میں ہماری یاد کتنی ہی صاف اور واضح کیوں نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر میں ایک سوال: کسی چیز کو یاد کرتے ہوئے جب کسی چیز کے لئے جب دماغ پر زور دیتے ہیں تو کیا آپ بھی تصویر میں دئے گئے صاحب کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں؟ کیا اس سے فائدہ ہوتا ہے؟ اس کا جواب ہے کہ “ہاں، ایسا کرنا فائدہ دیتا ہے”۔ اب آپ بتائیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...