آخر شب کے ہم سفر فیض نہ جانے کیا ہوے
رہ گئی کس جگہ صبا صبح کدھر نکل گٸ
سرکاری ہسپتال کے سفیدی زدہ وارڈ میں سرخ کمبل میں لپٹی وہ کیا سوچ رہی ہوگی کون سا علمی خیال اس کے ذہین میں سلجھ رہا ہوگا یا کیمبرج میں گزراوقت شمع بن کر پگھل رہا ہوگا ،مسز سروجنی ناٸیڈو کے ہمراہ لندن کا بحری سفر، اقبال، شبلی، برنارڈشاہ کے ساتھ ہوے مباحث یا رحیمن کے ساتھ گزری محبت بھری زندگی کراچی کے جناح ہسپتال میں آخری سوچ کیا ہوگی عطیہ فیضی کی جو جنجیرہ کے محل میں پلی بڑھی ،جوان ہوٸی جنوبی ایشا۶ میں کیمبرج میں تعلیم حاصل کرنے والی پہلی مسلم خاتون کا اعزاز ملا وہ کوٸی بہت خوبصورت خاتون نہ تھی مگر مہذب، تعلیم یافتہ اور رقص و موسیقی میں دلچسی کی وجہ سے ہندوستان کے علمی حلقوں میں ممتاز حیثیت رکھتی تھیں،لندن قیام کے دوران ”تہذیب نسواں“ روزنامچہ لکھا پیرس یونيورسٹی میں اس وقت لیکچر دیا جب ہندستان کی خواتین مردانہ ناموں سے تحریریں چھپواتی تھی موسیقی کے فن پر تین کتابیں لکھیں
Indian Music
The Music of India
Sangeet of India
عطیہ کے سب سے اہم تصنیف علامہ اقبال پر ہے جس کا ترجمہ ضیا۶ الدین برنی نے کیا جو عطیہ اور اقبال کے درمیان ہونے والی انگریزی خط وکتابت ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ کون سی نظمیں علامہ اقبال نے بحیثت دوست کہی تھیں،عطیہ نے اقبال کو ایسے ہی متاثر کیا جیسے ڈاکڑ رشیدہ جہاں نے فیض کو متاثر کیا تھا ،قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ 1891 میں پیدا ہوٸیں ان کا زیادہ وقت بمبٸ کے قریب واقع ریاست جنجیرہ میں گزرا جہاں ان کی بہن نواب آف جنجیرہ کی بیوی تھیں ،اقبال نے ان کے لیۓ یہ شعر بھی کہا
اے کہ ترے آستانے پہ جبیں گستر قمر
اور فیض آستاں بوسی سے گل بر سرقمر
بقول نازی بیگم ”انھیں محمد علی جوہر،شوکت علی،قاٸداعظم،شبلی نعمانی“کی میزبانی کاشرف حاصل رہا ،وہ کہتی ہیں”قاٸداعظم ان سے فرمایا کرتے تھے کہ مجھے جنجیرہ آکر بہت آرام اور سکون ملتا ہے“شبلی نعمانی کی ”سیرت النبی“ کی تکمیل میں بھی اس خاندان کی معاونت شامل ہےشبلی نعمانی اور عطیہ کے درمیان بھی خط وکتابت کاسلسلہ چلتا رہا جس میں بے تکلفی کا رنگ پایا جاتا ہے ،عطیہ بہت خوبیوں کی مالک تھیں مگر شبلی واقبال کی وجہ سے زیادہ شہرت پاٸی اور ان کا اپنا تخلیقی کام پس پشت رہ گیا ،ماہر القادری کے بقول”یہ قصہ نشاطیہ تو ہے ہی مگر کسی حد تک المیہ بھی ہے…….عطیہ کے نام سے میں بہت دنوں سے واقف تھافنون لطیفہ سے عطیہ کو جو خاص شغف تھا اس کے تذکرے بھی لوگوں کی زبانی سنے تھے“شبلی نعمانی نے عطیہ کی شادی پر یہ اشعار کہے جب عطیہ کی غیر مسلم سے شادی پر اعتراض ہوا جو مسلمان ہوگیۓ اوررحیمن نا تھا ان کی بناٸی ہوٸی تصاویر دنیا کے مختلف عجاٸب گھرو کی زینت بنیں
عطیہ کی شادی پر کس نے نکتہ چینی کی
کہا میں نے جاہل ہے یاحمق ہے یا ناداں
بتاں ہند کافر کر لیا کرتے تھے مسلم کو
عطیہ کی بدولت آج ایک کافر مسلماں ہے
1907 میں انگلستان میں اقبال سے ملاقات ہوٸی اقبال نے اپنا تحقیقی مقالہ عطیہ کو سنایا اور باہمی آرا کو کاغذ پر نوٹ کیا، ان باہمی ملاقاتوں کو مختلف حلقوں میں مختلف رنگ دیۓ گیۓ کیونکہ علامہ اقبال کو خاص مسند پر بٹھا دیا گیا یہ دیکھے بغیر کہ علامہ اقبال ایک ذی حس اور بیدار مغز انسان تھے جو زندگی کو عام انسانوں کی نسبت زیادہ حساس زاویوں سے دیکھتے تھےعطیہ کو آٹو گراف میں لکھتے ہیں
عالم جوش جنوں میں ہے را کیا کیا کچھ
کہیۓ کیا حکم ہے، دیوانہ بنوں یا نہ بنوں؟
عطیہ کے ساتھ علامہ اقبال کی متعدد ملاقاتیں ہوتی رہیں اور خط وکتابت کا سلسلہ بھی چلتا رہاجو 1912 میں منقطع ہوا پھر بیس سال بعد لاہور میں ملاقات ہوٸی عطیہ نے خطوط کو قومی امانت سمجھتے ہوے 1947 میں شاٸع کردیۓ ایک جگہ اقبال لکھتے ہیں”آپ جانتی ہیں کہ میں آپ سے کوٸی بات راز نہیں رکھتا ،میرا ایمان ہے کہ ایسا کرنا گناہ ہے“ایک اور خط میں کچھ یوں لکھتے ہیں”مجھے معاف کرنا میں ہمدردی کا طالب نہیں صرف یہ چاہتا ہو کہ دل کا بوجھ ہلکا کروں“ قیام پاکستان کے وقت اس خاندان کا شمار متمول گھرانوں میں ہوتا تھا جن کاپاکستان کے قومی رہنماٶں سے گہرے ذاتی تعلق تھا چنانچہ عطیہ بیگم اپنی بہن نازی بیگم کے ہمراہ ”قاٸداعظم“کی خصوصی درخواست پر پاکستان آگٸیں اور انھیں بمبٸ والے”ایوان رفعت“ کے بدلے میں برنس روڈ پر قطعہ زمین الاٹ جو عطیہ نےکراچی آرٹس کونسل کو تحفہ میں دے دی اور متصل عمارت میں منتقل ہوکر ذاتی خرچ سے اس وقت 30 لاکھ روپے کی لاگت سے دو الگ الگ حصے تعمیر کراۓایک میں ”ایوان رفعت“ کے نام سے آرٹ گیلری بنواٸ اور دوسرے میں رہاٸش اختیار کی مگر قاٸاعظم کی وفات کے بعد اس معمر جوڑے کو اس جگہ سے بے دخل کردیا گیا”اس وقت کے کمشنر نےدونوں کو نہایت سفاکی سے ان کے گھر سے بے دخل کردیا“
اپنی موت تک یہ ممتاز معمر جوڑا اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور رہانوادرات و تصویریں تھیلوں اور صندوقوں میں بند ہوگٸیں جو ڈھیر کی صورت میں کمرہ میں پڑا رہتا جو قریب کے ہوٹل میں کریہ پر لیا اخراجات پورے نہ ہونے پر یہ نوادرات اور جواہرات ایک ایک کر کے بکنا شروع ہوگیۓاور یوں ایک موسیقی اور آرٹ کا دلدادہ جوڑا اپنی زندگی کے المناک انجام کو پہنچا بقول فیض
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
زندگی کی سفاکی اور بے چارگی کی عجیب داستان جس کی ابتدا شاندار اور انتہا بے حد تکلیف دہ ہے
ماخذات ازماہرالقادری یاد رفتگاں
قاٸداعظم کے چہیتوں کی در بدری ازاختر بلوچ
رٸیس فاطمہ ازایکسپریس .پی.کے
*ایک اہم بات شمولیت سے رہ گٸی کہ وکی پیڈیا اور دوسرے ذراٸع بتاتے ہیں کہ 1903 میں عطیہ کی شادی رحیمن سے ہوگٸ اور علامہ اقبال سے 1907 میں ملاقات ہوٸ درمیانی عرصہ میں باہمی ملاقات کے شواہد نہیں ملتے ،علامہ اقبال سے پہلی ملاقات تحقیقی مقالے پر بحث کے ضمن میں ہوٸی پھر باہمی گفت وشنید کا یا سلسلہ 1912 تک جاری رہا، جس کی گواہی عطیہ کے نام خطوط سے ملتی ہے مگر ان خطوط میں بھی شاٸستگی اور تہذیب قاٸم نظر آتی ہے ،علامہ اقبال کی شخصیت تکمیل کے مراحل میں تھی جس میں انھیں کسی قریبی پڑھے لکھے دوست کی ضرورت تھی جو انھیں سمجھ سکے عورت اور مرد کی تخصیص کیۓ بغیر۔