میں آج بھی پارک کی اسی کونے والی بینچ پر بیٹھی کسی کا انتظار کرتی ہوں ۔ بہت سال گزرنے کے بعد بھی یہ انتظار ختم ہونے کو نہیں آرہا ۔ آج سردی کچھ زیادہ بڑھ گئی ہے اچانک سے ۔
زندگی میں سنا تھا کہ مرنے والوں کی یاد بس کچھ عرصے تک لوگوں کو رہتی ہے ۔ اس کے بعد ان کی اچھائی برائی ، نیکی بدی سب ایک ایک کرکے لوگوں کے ذہنوں سے محو ہوجاتی ہے اور آخر میں وہ شکل و صورت تک بھول جاتے ہیں ۔ پر مجھے یقین نہیں تھا اس بات کا ۔
میں ایک بیٹی تھی اور میری بھی بیٹیاں تھیں ، میں نہیں مانتی تھی کہ بیٹی کو ماں بھول سکتی ہے ۔ بس ایسے ہی ایک بیٹی کے انتظار میں ، میں پچھلے تین سال سے مسلسل پارک کے اس مخصوص بینچ پر آ کر بیٹھ جایا کرتی ہوں ۔
اس کے گھر بھی گئی کئیں بار ، اس کے گھر والوں سے ، اس سے پوچھا کہ آخر ہوا کیا ؟
کوئی میری بات سنتا ہی نہیں ، شاید مجھے دیکھنا تک گوارہ نہیں کرتے ۔
پر پھر بھی امید کی ایک موہوم سی کسک ہے کہ وہ مجھے نہیں بھولی ، اب بھی اپنے کمرے میں بیٹھی کبھی کبھی مجھے یاد کرتی ہے اور میری باتوں پر مسکراتی ہے ۔
میں آج بھی گھر سے جلدی نکل پڑتی ہوں تا کہ وہ میرا انتظار کرتے کرتے ، لوٹ نہ جائے ۔ بوڑھی ہڈیوں اور بوڑھے جسم میں جتنی جان ہے وہ ساری لگا دیتی ہوں . پر اب وہ اگلی طاقت کہاں آہستہ آہستہ پارک میں پہنچتی ہوں ۔ پر اس دن کے بعد وہ کبھی نظر نہیں آئی ۔ شاید میرے یوں اچانک دور جانے سے وہ ناراض ہے یا کچھ دن منظر سے ہٹ جانے سے مجھے بھول گئی ۔
پر پھر بھی مجھے لگتا ہے کہ میری بیٹی مجھے کہیں اندر ، بہت اندر ، سب سے چھپا کر رکھے ہوئے ہے ۔ جہاں وہ مجھ سے اپنی ساری باتیں کرتی ہے ۔ جہاں میں اس سے اپنی ساری باتیں کرتی ہوں ۔
پر حقیقت یہی لگتی ہے کہ وہ مجھے بھول گئی ، کیونکہ تین سال ہونے کو آئے ، وہ پارک میں لوٹ کر نہیں آئی ، اس نے مجھ سے بات تک نہیں کی ۔
ارے یہ کیا ؟ شاید میرا واہمہ ہے ، ہاں شاید عمر کا اثر ہوگیا ، شاید سٹھیا گئی ہوں ۔ مجھے وہ آتی نظر آرہی ہے ۔ ہاں یا شاید نہیں ۔
مجھ اس کی طرف چل کر جانا چاہئے ۔
ہاں وہی ہے ، میری بیٹی لوٹ آئی آخر ۔ پر یہ کیا ، مجھے دیکھ کر ڈر کیوں گئی ۔ آہ ، میری بچی ۔ یہ میں ہوں ۔ ہاں شاید اسے ڈر کی لگنا چاہئے ۔ اتنے عرصے بعد بھلا کون لوٹتا ۔
اس نے اپنا وہم ہی جانا ہوگا ۔ پر ایک بات کی خوشی ہے ، وہ مجھے بھولی نہیں ہے ۔ اس نے مجھے پہچانا ہے ۔ وہ اب پہلے سے اچھی دکھنے لگی ہے ۔ پہلے سے زیادہ پر اعتماد لگتی ہے ۔ شاید اس نے اس دنیا میں جینا سیکھ لیا ہے ۔ بہت اچھی بات ہے ۔
کاش وہ مجھ سے کچھ باتیں کرے ۔ میں آج بھی اسی بینچ پر اس کا انتظار کررہی ہوں ، کاش وہ جان پائے ۔
پر نہیں ، شاید اب ایسا ممکن نہیں ۔ میں بس اب ایک فسانہ ہی ہوں ۔
پر اس سے فرق نہیں پڑتا اب ۔ مجھے بس اسے خوش دیکھنا تھا ، وہ دیکھ لیا اور سب سے بڑی خوشی کہ وہ مجھے بھولی نہیں ۔ میرے لئے اتنا بھی بہت کہ اسے اب پارک میں دیکھ لیا کروں گی ۔
اچھا بس چلتی ہوں ، میرے جانے کا وقت ہوگیا ہے ، تمام ارواح کو اس وقت اکٹھا کیا جاتا ہے ۔ ہمیں اپنے رب کے حضور زندگی میں اور بعد از حیات فانی نعمتوں کا شکرانہ بجا لانا ہے ۔
“