ایکس ٹو مرگیا
ملتان کے پل موج دریا سے حلیم اسکوائر جاتے ہوئے میری ٹانگیں جواب دے جاتی تھیں کیونکہ سائیکل پر ماموں کا بیٹا ندیم براجمان ہوتا تھا اور میں سائیکل چلاتا ہوا اُسے قدیر آباد کی قدرے گہری سڑک سے نہ صرف نیچے اترتا بلکہ اسی طرح بٹھا کر واپسی پر پوری قوت سے سائیکل چلاتا ہوا واپس بھی آتا تھا۔لیکن دل میں ایک خوشی بھری ہوتی تھی کہ بالآخر ’عمران سیریز‘ کا ناول مل گیا ہے۔ قدیر آباد کی گہری سڑک کے اختتام پر ’خاور لائبریری ‘ تھی جہاں چھوٹے سے قد کے ’خاوربھائی‘ دو روپے کے عوض ایک دن کے لیے ناول کرائے پر دیا کرتے تھے۔میرے پاس چونکہ دو روپے کی خطیر رقم نہیں ہوتی تھی لہذا ماموں کے بیٹے پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ ندیم کی ڈیمانڈ ہوتی تھی کہ اگر اسے سائیکل پر بٹھا کر خاور لائبریری لایا اور لے جایا جائے تو وہ اتنی سی مہربانی کرسکتا ہے کہ ناول پڑھنے کے بعد مجھے عنایت کردے گا۔ یہ بہت بڑی آفر ہوتی تھی۔
طارق آباد میں ماموں کے گھر کی دیوار ہمارے گھر کی دیوار سے جڑی ہوئی تھی اوردرمیان میں ایک کھڑکی تھی ۔ میں سارا دن ناول کے انتظار میں ندیم کے اِردگرد چکر کاٹتا رہتا۔ گھڑی کی سوئیاں جوں جوں آگے بڑھتی جاتیں میرا دل بھی بیٹھتا جاتا۔ آخر کب ندیم ناول پڑھنا شروع کرے گا اور کب ختم کرے گا۔ درمیان میں کئی دفعہ اُسے ہمدردانہ مشورہ بھی دے آتا کہ تم نے کھانا بھی کھا لیا ہے‘ لسی بھی پی لی ہے‘ اب تو ناول پڑھنا شروع کرلو۔ اُس کا جواب ہوتا’’ابھی میرا موڈ نہیں‘‘۔ اللہ جانتا ہے یہ جواب سن کر دل چاہتا تھا کہ اس کے سر پر تلوار دے ماروں۔۔۔لیکن مجبوری تھی‘ میری تھوڑی سی غلط حرکت سے ناول پہنچ سے دور ہوسکتا تھا۔خدا خدا کرکے وہ رات آٹھ نو بجے تک ناول ختم کرتا۔ اُن دنوں یہی سونے کا بھی وقت ہوتا تھا تاہم ناول ہاتھ میں آتے ہی نیند اُڑ جاتی ۔ پھر فوراً کتاب کھولی جاتی‘ اگلے دن ٹیسٹ کا بہانہ بنا کر اوپر چوبارے میں جاکر کتاب کے اندر ناول رکھ کر دل کی گہرائیوں سے پڑھا جاتا۔عمران سیریز پڑھنے کا چسکا میرے علاوہ مجھ سے بڑے دو بھائیوں کو بھی تھا لیکن ان کی باری میرے بعد آتی۔
ابن صفی کی تحریر ہمیشہ سے مجھے پسند رہی‘ وہ طنز و مزاح کا ایسا تڑکا لگاتے کہ جملہ دماغ میں مسلسل پھدکتا رہتا۔ابن صفی کے بعدیہ بیڑا ملتان کے مظہر کلیم ایم اے اور صفدر شاہین نے سنبھالا۔ صفدر شاہین اتنے کامیاب نہ ہوسکے تاہم مظہر کلیم چھاگئے۔ جن لوگوں نے عمران سیریز نہیں پڑھی وہ بہت بڑے مطالعے سے محروم ہیں۔ یہ وہی سیریز ہے جس نے مستقبل کی ایجاد کے بارے میں برسوں پہلے بتا دیا تھا۔ عمران سیریز ہی میں پڑھتے تھے کہ ’’بلیک زیروکی کلائی پر بندھی گھڑی پر ضربیں لگنے لگیں‘‘۔ یہ ’’وائبریشن‘‘ کا اُردو ترجمہ تھا۔آج سمارٹ واچ آچکی ہے اور اُسے وائبریشن پر لگائیں تو ایسی ہی ضربیں لگتی ہیں۔ یاد کریں۔۔۔بلیک زیرو‘ ایکسٹو‘ تنویر‘ جولیا‘ صفدر‘جوزف‘ جوانا‘ عمران‘ سر سلطان‘ کیپٹن فیاض‘ سلیمان۔۔۔تنویر کا جولیا کو پسند کرنا اور جولیا کا عمران پر جان وارنا۔ عمران کی مضحکہ خیز حرکتوں کے پیچھے چھپی انتہائی ذہانت۔ایکس ٹو بھی بڑے کمال کی چیز تھا‘ سیکرٹ سروس اس کے بارے میں اندازے لگا لگا کر تھک جاتی تھی کہ یہ کون ہے لیکن یہ ہمیشہ نقاب میں ہوتا تھا۔یہ نقاب کبھی سلیمان نے پہنا‘ کبھی بلیک زیرو نے اور کبھی خود عمران نے۔سیکرٹ سروس کے یہ لوگ ہر مشن میں بڑے آرام سے کسی کا میک اپ کرکے اُس جیسے بن جایا کرتے تھے۔اُس وقت تو سسپنس کی انتہا ہوجاتی جب کوئی ایک انتہائی مصیبت میں پھنس جاتا اور قاری کو یقین ہوجاتا کہ اب یہ نہیں بچے گا۔۔۔لیکن پھر مظہر کلیم اسے ایسی خوبصورتی سے نکال لاتے کہ پڑھنے والے کی بھی جان میں جان آتی۔
مظہر کلیم کی نیلے رنگ والی تصویر ہر ناول کے آخر میں پرنٹ ہوتی تھی جس کے نیچے ان کا نام لکھا ہوتا تھا۔ ان کے ناولوں کی بدولت پبلشر آج کروڑ پتی بن چکا ہے لیکن مظہر کلیم ویسے کے ویسے ہی رہے۔۔۔میں نے ان کو جب بھی دیکھا سکوٹر پر ہی دیکھا۔ سکول کے دِنوں میں تو یہ کوئی دیومالائی کردار لگتے تھے اوریہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ عمران سیریز لکھنے والے مظہر کلیم سے کوئی جیتے جاگتے ملاقات بھی کر سکتا ہے۔انہوں نے لکھا ‘ بہت زیادہ لکھا اور بہت اچھا لکھا۔ میں بھی اُس وقت کا گواہ ہوں جب ان کے ناولوں کی ایڈوانس بکنگ ہوجایا کرتی تھی۔ یہ وی سی آر کا زمانہ تھا جو بہت کم لوگوں کو میسر تھا۔ سینما جانا برا سمجھا جاتا تھا لہذا مظہر کلیم کے ناولوں سے بڑی تفریح کوئی نہیں ہوتی تھی۔ جسے بھی یہ لت پڑی وہ پھر کسی کام کا نہیں رہا۔ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ ناول میں تین چار ٹریک چھیڑ دیتے تھے اور پھر ہر ٹریک کے ساتھ دوسرے ٹریک کو یوں ملاتے کہ قاری کے سامنے ساری کہانی فلم کی طرح چلنے لگتی۔جیمز بانڈ کی فلمیں ایک طرف اور عمران سیریز ایک طرف۔ وہ نسل جس نے عمران سیریز ‘ انسپکٹر جمشید سیریز اور عنبر‘ ناگ ماریا پڑھی ہیں وہ آج بھی اُس سنہرے دور کے حصار میں ہیں جس میں مظہر کلیم ایم اے‘ اشتیاق احمد اور اے حمید کا ڈنکا بجتا تھا۔
مظہر کلیم کی وفات کی خبر سن کر اس لیے بھی زیادہ دکھ نہیں ہوا کہ وہ اپنے زندہ رہنے کا پورا بندوبست کرکے گئے ہیں۔تین نسلوں کو انہوں نے ایسی شاندار کہانیاں دی ہیں کہ کسی سے بھی ان کے ناول کی پوری کہانی سن لیں۔میں جب عمران سیریز پڑھتا تھا تو اکثر سوچتا تھا کہ اسے لکھنے والا یقیناًکوئی بہت بڑا ایجنسی کا بندہ رہا ہوگا۔ ایسی ایسی باریک باتیں ہوتی تھیں کہ معلومات بھی مل جاتیں اور کہانی کا ٹھرک بھی پورا ہوجاتا۔مظہر کلیم نے عمران سیریز میں پاکستان کو خاص اہمیت دی‘ جن موضوعات پر وہ ناول لکھتے تھے وہ اُس دور میں بھی ایک پاکستانی کا خون گرما دیتے تھے۔ عمران کے کردار کو انہوں نے بظاہر ایک چلبلا‘ خوبصورت ‘ کھلنڈرا اور لاپرواہ بنایا ہوا تھا جو اصل میں انتہائی زیرک اور شارپ مائنڈڈ تھا۔ خطرناک ترین ماحول میں بھی جب وہ عمران کی زبان سے مزاحیہ بات کہلواتے تو پڑھنے والوں کے لبوں پر بھی مسکراہٹ کھیل جاتی۔ مظہر کلیم ایم اے نے شائد گھر والوں کے ساتھ اتنا وقت نہ گذارا ہوجتنا انہوں نے ’سیکرٹ سروس‘ کے ساتھ گذارا۔ کیا کمال کا لکھاری تھا ‘ سکرین پلے کا ماسٹر۔۔۔لیکن ساری زندگی درویش ہی رہا۔ بس لکھتا رہا‘ لکھتا رہا اور لکھتا رہا۔ بدلے میں سننے کو وہی ملا جو ابن صفی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’ادب میں ان کا کوئی مقام نہیں‘۔
مجھ سے ایک دفعہ ایک ٹی وی چینل نے پوچھا کہ اگر بھاری بجٹ ہو تو کیا عمران سیریز بن سکتی ہے؟ میرا جواب تھا’نہیں۔۔۔کیونکہ عمران سیریز کا ہر کردار‘ قاری نے اپنے اپنے انداز کا بنایا ہوا ہے۔ میرے تصور میں عمران کی شکل اداکار وحید مراد جیسی تھی جبکہ میرے ماموں کے لڑکے کو یقین کامل تھا کہ عمران ہوبہو ’گوندا‘ جیسا ہوگا۔ سو جس کے دل کو عمران کی جو شکل بھائی اُس نے اُسے ویسے ہی ڈھال لیا۔ اب میں سوچتا ہوں کہ عمران سیریز کتنی ’وسیع القلب‘ تھی جس میں جولیا‘ جوزف اور جوانا جیسی ’اقلیت‘ بھی نہ صرف برابر کے حقوق رکھتی تھی بلکہ اپنے ملک کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت تیار نظر آتی تھی۔مظہرکلیم صاحب! آپ زندہ ہیں‘ ایکسٹو مرگیا۔۔۔!!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“