ایکس رے شعاعیں ،جسم کے اندر ہڈیوں اور ٹھوس اجزاء پر مشتمل ڈھانچے کی تصاویر بنانے کے لیے برقی مقناطیسی تابکاری کا استعمال کرتی ہیں۔ یہ عام طور پر فریکچر، اندرونی جسمانی انفیکشن، ٹیومر اور دیگر غیر معمولی یا غیر متوازن حالات کا پتہ لگانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ایکس رے تیز، نسبتاً سستی، اور آسانی سے دستیاب ہوجاتی ہیں، اور یہ دیگر طبعی معائنے کی چیزوں سے زیادہ پرانے دور سے استعمال ہورہی ہیں۔ایکس ریز وہلیم کونراڈ روٹنجنٹ نے 1895 عیسوی میں دریافت کی تھیں اور اسکے ایک سال بعد ہی یعنی 1896 سے لیکر اب تک اسپتالوں میں تشخیص کے لیے استعمال ہورہی ہے۔
سی ٹی اسکینز یا کمپیوٹڈ ٹوموگرافک اسکین CT (Computed Tomography) Scan، جسم کی اندرونی اعضاء کے کراس سیکشنل یا عمودی تصاویر بنانے کے لیے ایکس رے اور جدید کمپیوٹر پروسیسنگ کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ روایتی ایکس رے سے زیادہ تفصیلی معلومات فراہم کرتے ہیں اور ہڈیوں، اعضاء، خون کی نالیوں اور نرم بافتوں کو بھی دکھا سکتے ہیں۔ سی ٹی اسکین اندرونی چوٹوں، ٹیومر، انفیکشن، اور جسم میں جمنے والے خون کے لوتھڑے جیسے حالات کی تشخیص میں مفید ہوتی ہیں۔سی ٹی اسکین 1970 کی دھائی میں دریافت ہوئے تھے گوڈ فرائے ھاؤنس فیلڈ اور ایلن میک لاؤیڈ نے 1971 میں سی ٹی اسکینر ایجاد کیا تھا۔ پھر اسکے بعد ہی اسپتالوں میں استعمال ہورہی ہیں۔
ایم آر آئی امیج یا MRI :Magnetic Resonance Imaging ،جسم کے اندر نرم بافتوں، اعضاء اور ڈھانچے کی تفصیلی تصاویر بنانے کے لیے مضبوط مقناطیسی فیلڈز اور ریڈیو برقی مقناطیسی لہروں کا استعمال کرتا ہے۔ اسکے علاوہ یہ ہڈیوں اور جوڑوں کی انتہائی ڈیٹیل کی تصاویر بھی بنانے پر استعمال ہوتی ہیں۔ یہ مختلف قسم کے نرم بافتوں کے درمیان بہترین تضاد کو تصویری انداز میں فراہم کرتا ہے اور خاص طور پر دماغ، ریڑھ کی ہڈی، جوڑوں اور پٹھوں کی تصویر کشی کے لیے مفید ہے۔
ایم آر آئی میں چونکہ آئنائزنگ تابکاری شامل نہیں ہوتی اس لیے یہ جسم کے اندرونی اعضاء کی امیجنگ اور انکی خرابیوں کی تشخیص کے لیے ایک محفوظ آپشن بناتی ہے، خاص طور پر حاملہ خواتین اور بچوں کے لیے، کیونکہ اسکے انسان پر کوئی مضر اثرات نمایاں طور پر مشاہدہ نہیں ہوئے۔تاہم، MRI اسکین کو انجام دینے میں زیادہ وقت لگتا ہے، اور اسکے ٹیسٹ ایکس رے یا سی ٹی اسکین سے زیادہ مہنگے ہوتےہیں، اور ہو سکتا ہے کہ ان مریضوں جنکا معائنہ کیا جارہا ہے، انکے جسم میں بعض طبی امپلانٹس یا دھاتی اشیاء ہونے کی وجہ سے ایسے افراد کے لیے موزوں نہ ہوں،جیسے بعض افراد جو اپنے منہ میں دھاتی دانتوں کا استعمال کریں یا پھر انکے جسم میں کہیں دھاتی راڈ جیسی کوئی چیز لگی ہوئی ہو۔
ایم آر آئی ، سنہ 1980 میں دریافت ہوئیں اور 1982 میں پہلا آیم آر آئی اسکینر ایجاد ہوا۔ پھر 1980 دھائی کےوسط سے یہ دنیا کے مختلف اسپتالوں میں تشخیص کے لیے استعمال ہورہا ہے۔
یہ میڈیکل امیجنگ ٹیکنالوجیز اپنے متعارف ہونے کے بعد سے لیکر اب تک ایک طویل سفر طے کر چکی ہیں، اور یہ مختلف طبی حالات کی تشخیص اور علاج معالجے میں اہم کردار ادا کرتی رہیں۔
تحریر و تحقیق
#حمیر_یوسف
ڈائنوسارز کتنے بڑے ہوا کرتے تھے؟
ڈائنوسارز کتنے بڑے ہوا کرتے تھے، اسکا اندازہ آپ اس تصویر سے لگائیں۔ دیوقامت ڈائنو سار: ارجنٹینوسارس ہینکولنسس کی ٹانگ...