فلاطون، ارسطو، سقراط جیسے حضرات کی وسعت نظر تو کہیں زیادہ تھی۔ میں اور منیرے جیسے کیا اور ہماری وسعت نظر کیا؟ ان نامور یونانی مفکّرین کے بعد بھی بہت سے آئے جن میں ڈیسکارٹیس سے لے کر مارکس اور اینگلز تک شامل تھے۔ فلاطون ارسطو اور سقراط کے خیالات کو قبولیت عام ملنے میں صدیاں صرف ہو گئی تھیں مگر بعد میں آنے والوں کے خیالات کو نسبتا جلد پذیرائی میسّر آ گئی۔ اس کے اسباب میں بدلے ہوئے معروضی حالات تھے۔ آج فکرونظر بصارت اور گویائی کے آگے ہیچ ہو کر رہ گئے ہیں۔ ہر شخص عجلت میں ہے۔ سننے کی عجلت میں، کہنے کی عجلت میں، دیکھنے کی عجلت میں اور جاننے کی عجلت میں غرض عجلہ ہے کہ علم کو محدود و مسدود کیے چلا جا رہا ہے مگر غلط فہمی ہے کہ وسعت نظر کے مقابلے میں وسیع تر ہوتی جا رہی ہے۔
ارتباطی وسائل Communication means کی وسیع پیمانے پر دستیابی اور ان کی عامۃالناس میں پذیرائی پر ناک بھوں چڑھانا بنتا ہی نہیں کیونکہ اس کا بنیادی تعلق “صارفین کے معاشرے” کے ساتھ ہے جو اتنی تیزی سے فروغ پا رہا ہے کہ بعض اوقات اس کے انہدام کا خدشہ ہونے لگتا ہے۔ ہر شے کے اگر اپنے اوصاف ہوتے ہیں تو اپنے نقائص بھی ہوتے ہیں۔ ارتباطی وسائل کے اوصاف و نقائص بہت جلدی عیاں ہونے لگے ہیں جن کے بہت سے اوصاف اس کے ایک نقص یعنی وسعت نظر سے گریز کے بوجھ تلے دبنے لگے ہیں۔
ذہانت ایک خداداد صلاحیت ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں اوسط درجے کی ذہانت کو صیقل کیا جا سکتا ہے اور مستعد بھی مگر جب ذہانت کے استعمال کی نوبت ہی نہ آئے یا کم سے کم آئے تو اس وصف کے فروتر ہونے کے مواقع پیدا ہی نہیں ہوتے۔ علم کی طلب کم ہو چکی ہے اور معلومات کی طلب زیادہ۔ کسی بھی چیز کے بارے میں جاننا چاہا، گوگل پر گئے ایک کلک کیا، چھچھلتی ہوئی نظر سے پڑھا اور معلومات حاصل ہو گئیں لیکن کم اشیاء سے متعلق بہت زیادہ علم حاصل کرنے کی خواہش مسلسل معلومات تک رسائی کے سیلاب میں بہہ چکی ہے۔
سوشل میڈیا پر کسی پوسٹ کا ردعمل دیکھتے ہوئے بعض اوقات پریشانی لاحق ہو جاتی ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر آپ نے کوئی پوسٹ کی جسے پڑھنے میں کم سے کم تین منٹ لگتے ہیں لیکن سیکنڈز بعد آپ کو “لائک” ملنے لگ جاتے ہیں۔ بعض مبصّرین سمجھتے ہیں کہ چونکہ لوگ کسی ایک کے “فین” ہوتے ہیں اور ان کے خیال میں ان کی پسندیدہ شخصیت نے کوئی اچھی بات ہی لکھی یا پیش کی ہوتی ہے۔ فین ہونا بذات خود المیہ ہے جیسے کے عقیدہ پرستی۔ علم یا معلومات کوئی فرمان نہیں ہوا کرتے جنہیں ماننا آپ کا فرض ہو بلکہ علم اور معلومات کا لین دین اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ اگر ہے تو اختلاف ضرور کیا جائے۔ سوالات تو لازمی کرنے چاہییں کیونکہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص کسی نکتے کو مقصّل بیان کر دے یا اس کے بیان میں کوئی چاہے مہین سا ہی سہی، سقم یا نقص نہ رہ جائے جس پر دوسرے کسی کی نظر پڑ سکتی ہے۔
بہت اچھا لکھنے والے جیسے ایاز امیر، وجاہت مسعود اور وسعت اللہ خان اپنے مضامین “فیس بک” پر بھی لاتے ہیں لیکن ان کی پذیرائی بھی آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔ ان کے برعکس اگر کسی ایک سیاسی گروہ یا سیاسی شخصیت کی مخالفت یا مواقفت میں کوئی تحریر ہو تو اس پر نگاہ ڈالنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ اگریہی مصنف شخصیات الیکٹرونک میڈیا پر جلوہ گر نہ ہوا کرتیں تو ان کے بارے میں جاننے والے بھی بہت کم ہوتے۔ بیشتر صحافیوں نے اعتراف کیا ہے کہ ان کو زیادہ پذیرائی گفتگو کے سبب ملی ہے چہ جائیکہ ان کی تحریروں کے طفیل۔
یہ بات نہیں کہ وسعت نظر کے اظہار کے نتائج نہیں ہوتے یا منفی ہوتے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ عاجل دنیا کے پاس وقت ہی نہیں ہے کہ وہ زیر سطر معاملات کو سمجھنے کی سعی کرے۔ ان کے لیے ٹھوس ہاں یا نہ اور جوش آور اور اشعتال انگیز گفتگو زیادہ دلکش ہوتی ہے۔ یہ قصہ اکثریت کا ہے لیکن ایسے بھی ہیں جو وسعت نظر سے استفادہ کرتے ہیں اور اگر براہ راست نہیں تو اپنی گفتگووں اور بحثوں میں ان باتوں کو پھیلاتے بھی ہیں جو انہیں درست لگی ہوں۔
http://www.humsub.com.pk/15960/mujahid-mirza-29/
“