کیا دہشت گردی ختم کی جا سکتی ہے؟
ملک اسحاق کو اس کے ساتھیوں سمیت ہلاک کر دیا گیا۔ لشکر جھنگوی جس کا کہ وہ بانی تھا، فرقہ وارانہ دہشت گردی کے لیے بدنام ہے مگر وہ اسے نیک نامی سمجھتی ہے کیونکہ علم کی کمی کے نقصانات سے وہی آگاہ ہو سکتا ہے جو علم کو علم سمجھ کر سیکھتا ہو نہ کہ علم کو اپنے مزاج اور اپنی سوچ کے مطابق ڈھال کر حاصل کردہ "نیم پختہ" علم سے اپنےمقاصد کی تکمیل کا کام لیتا ہو۔ چاہے وہ مقاصد انسانیت کے لیے کتنے ہی گھناؤنے اور مذموم کیوں نہ ہوں۔
اب وہ زمانے نہیں کہ مولانا کہلانے والے مدبر عالم ہوا کرتے تھے جو مذہبی علوم کے علاوہ عام سماجی علوم سے بھی کما حقہ بہرہ مند ہوتے تھے۔ آج کے مولانا کو،چاہے کوئی بھی کیوں نہ ہو دیکھ لیجیے آپ ان کی شخصیت اور علم کو اتھلا ہی پائیں گے، چہ جائیکہ ملک اسحٰق جیسے لوگ جن کے دماغوں میں کہیں ایک جگہ پر کھپچی اٹک جاتی ہے جو نکلنے کا نام نہیں لیتی اور نکلے بھی کیسے کیونکہ اسے نکالنے کا کام تو ماہرین نفسیات کرتے ہیں مگر یہ لوگ تو باعلم شخص کا زندہ رہنا برداشت نہیں کرتے۔
کہنے کو ایسے لوگوں کا مقصد فرقہ واریت ہوتا ہے جسے وہ اپنے الوہی مقاصد سے وابستہ قرار دیتے ہیں مگر درحقیقت وہ خاص طاقتوں کے ہاتھوں میں استعمال ہو رہے ہوتے ہیں۔ ایسی طاقتیں ملک کے اندر کی بھی ہو سکتی ہیں اور ملک سے باہر کی بھی۔ ان کے مقاصد بین الاقوامی بھی ہو سکتے ہیں خطہ جاتی بھی اور علاقائی بھی۔ ایسا بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص قتل کے بہتر سے زیادہ مقدمات کا سرعام اقرار بھی کرتا ہو، مسکراتا ہوا مقدمہ سنتا ہو اور بری ہو کر انگلیوں سے وکٹری کا نشان بناتا ہوا عدالت عالیہ سے نکلتا ہو۔ کیا ملک میں قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے اتنے ناکارہ ہیں کہ وہ کسی ایک قتل کا بھی ثبوت فراہم کرنے سے قاصر رہے۔ پھر ایسا ہوتا ہو کہ نہ صرف ملک اسحٰق بلکہ اس کے دوبیٹوں سمیت چودہ افراد کو پولیس نے مار دیا اور ان کے کسی ساتھی دہشت گرد نے تاحال احتجاجا" کوئی کارروائی نہیں کی۔
ہم کوئی مفروضہ نہیں باندھنا چاہتے بس اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ جب ایسے لوگوں سے ہاتھ کھینچ لیا جائے تو ان کی ہمت جو مستعار ہمت ہوتی ہے، جواب دے جایا کرتی ہے۔ ہمارا بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا دہشت گردی ختم کی جا سکتی ہے؟ اس کا جواب نہ تو یہ ہے کہ جی ہاں بالکل کی جا سکتی ہے اور نہ ہی یہ کہ جی نہیں اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب تک ملکی اور بین الاقوامی حالات ایسی تنظیموں اور ایسے کم علم، ہتھیار پر بھروسہ کرنے والے لوگوں کے لیے سازگار رہیں گے تب تک دہشت گردی بطاہر ختم کی جانے کے باوجود پھر سے پھوٹتی رہے گی۔ ویسے ہی جیسے پھپھوندی دنیا کی سب سے زیادہ پھیلنے والی چیز ہی۔ اسے بظاہر نظر سے اوجھل کیا جا سکتا ہے لیکن یہ موقع ملتے ہی روٹی سے لے کر بوٹی اور جاندار سے لے کر بے جان تک میں پھوٹ پڑتی ہے۔
دہشت گردی کا سب سے زیادہ تعلق دو مسائل کے ساتھ ہے یعنی علم کی کمی اور بیروزگاری یا عسرت کے ساتھ۔ کہنے والے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ " دولت اسلامیہ" نام کے دہشت گرد گروہ کے ساتھ پڑھے لکھے ایسے لوگ بھی مل کر لڑ رہے ہیں جن کو روزگار کی کمی کا مسئلہ نہیں تھا۔ جی ہاں، یہ کون لوگ ہیں ، کیوں ایسی تنظیم کے ساتھ وابستہ ہیں، وہ اس سب سے کیا چاہتے ہیں اور ایسے بے تحاشہ دوسرے سوالات ہیں جن کے جواب جانے بغیر ایسے لوگوں کی نفسیات، وابستگی اور مقصد کا پتہ نہیں چل سکتا۔
لیکن ہم بات کر رہے ہیں عمومی دہشت گردوں کی جن میں لشکر جھنگوی اور طالبان جیسے گروہ آتے ہیں۔ ان میں کون لوگ شامل ہوتے ہیں؟ ظاہر ہے وہ جن کو مختلف مسائل کے باعث تعلیم حاصل نہ ہو سکی، جن کا علم محدود ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر ابتدائی تعلیم کے حامل ہیں یا دینی مدرسوں سے حاصل کی گئی یک رنگی تعلیم کے۔
دہشت گردی کو کم کرنے کے لیے تعلیم اور روزگار کے مواقع تک زیادہ سے زیادہ لوگوں خاص طور پر نوجوانوں کی رسائی ممکن بنائی جانی ہوگی۔ برداشت کو بڑھاوا دینے کے لیے نوجوانوں میں کھیلوں اور ورزش کو رواج دینا ہوگا۔ مسموم اذہان کو صاف کرنے کے لیے بحالی مرکز بنائے جانے ہونگے جن میں دانشور لوگ ماہرین نفسیات کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوں۔ ساتھ ہی باقاعدہ دہشت گردوں کی بیخ کنی کا عمل جاری رکھنا ہوگا تب کہیں سالوں بعد جا کر دہشت گردی کی پھھوندی کو نظر سے اوجھل کیا جا سکے گا۔ پھر مسلسل نظر رکھنی ہوگی کہ جہاں سے یہ ابھرے وہاں سے اسے کھرچ کر مندمل کرنے والی دوا چھڑکی جائے۔ اگر یہ سارے کام وسیع پیمانے پر اور یکدم نہیں کیے جائیں گے تو پھوندی کبھی ختم ہونے کا نام نہیں لے گی۔
Top of Form
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1189198281106280&id=100000483586264
“