’’وو کانگ‘‘
نظم
(’’وو کانگ‘‘ ایک قدیم چینی داستان کا اساطیری کردار ہے جسے دیوتاؤں نے ابدیت کی تلاش کے جرم میں چاند پر اُگے کیکر کے درخت کو کاٹنے کی سزا سنائی تھی۔لیکن ووکانگ کی کلھاڑی کے وار سے یہ درخت جتنا کٹتا ہے اتنا ہی دوبارہ اُگ آتاہے اور یوں ’’وو کانگ‘‘ کی سزا کا لامتناہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔’’وو کانگ‘‘ کا یہ کردار میں نے کامریڈ ماؤزے تنگ کی ایک نظم ’’لافانی روحیں‘‘ سے لیا ہے۔ مشتاق علی شان)
(1)
میں ’’ابدیت ‘‘کی جستجو میں
ریگ زاروں کے سفر سے آ چکا ہوں لوٹ کر
دشت وبن سے ساحلوں کی
سب مسافتیں تمام کر چکا
جہان بھر میں پھر چکا
اب ’’وو کانگ‘‘ کی طرح
ہوں چاند پہ کھڑا ہوا
ہے اِذن دیوتاؤں کا
سو ہاتھ میں تبر لیے
اک ببول کے شجر پہ وار کر رہا ہوں میں
جو کٹ رہا ،بکھر رہا ہے بار بار
اور اس کے ساتھ ہی ابھر رہا ہے بار بار
یعنی یہ جہدِ مستقل ہے ایک دائمی سزا
جس کی ابتدا نہیں ،جس کی انتہا نہیں
جو آخری نتیجے میں
بس رائیگاں ہے رائیگاں
(2)
نہیں نہیں نہیں نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں نہیں نہیں نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ واہمہ تھکن کا ہے
خیالِ خام ہے مرا
جو قلب کی چبھن کا ہے
وگرنہ ساری کائنات
حرکت وبہاؤ ہے
ازل کی گود میں پلی کوئی تیرگی نہیں
اک جگہ پہ مرتکز کوئی روشنی نہیں
یہی ہے رازِ ابدیت کہ کچھ بھی دائمی نہیں
سو یہ قنوطیت مری
بس ایک دو گھڑی کی ہے
فرس پہ حرکتوں کے ہی
یہ دن گزار لوں گا میں
یہ ’’دائمی سزا ‘‘ سے بھی
جزا تراش لوں گا میں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“