وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ (۱)
تقریباً تمام آسمانی صحائف میں عورت کا ذکر کسی نہ کسی حوالے سے ضرور موجود رہا ہے۔دنیا کے قدیم مذاہب میں جہاں مرد دیوتا کا ذکر آیاوہاں دیوی کے حسن و کمالات کی داستانیں بھی ملتی ہیں۔معاشرہ خواہ قدیم ہو یا جدید وہ عورت کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو علم ہوگا کہ یہ عورت سدا اپنے روپ بدلتی آئی ہے۔حجری دور (stone age) میں اس عورت نے مردوں کے شانہ بشانہ شکاری مہمات میں حصہ لیا،زرعی دور میں یہی عورت کھیتوں میں اناج اُگاتی نظر آتی ہے،صنعتی عہد میں بھی عورت کو آرام کا موقع نہیں ملا اور کارخانوں میں دن رات محنت مشقت کر کے روزی کمانے میں مصروف ہو گئی۔جدید عہد کی عورت مکمل طور پرمعاشرے کا حصہ بن چکی ہے۔دنیا میں عورت کے حوالے سے جو فکری انقلاب آیا اُس نے پرانے تصورات کو خس و خاشاک کی طرح بہا دیا، یہی وجہ ہے کہ آج کی عورت علم کے تمام شعبوں میں حاوی نظر آتی ہے۔بات چاہے سائنس کی ہو یا آرٹ کی وہ عورت کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔آج جب کہ دنیا سکٹر کر آفاقی گاؤں کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے تو عورت ملک کی صدر بھی ہے اور افلاک میں نئے جہانوں کی تحقیق میں اضافے کا باعث بھی بن رہی ہے۔
عورت کی عظمت اورصلاحیت کا اعتراف زمانہء قدیم سے کیا جا رہا ہے۔تاریخ ِ مصر میں Hatshepsut کا ذکر ملتا ہے،یہ فرعونوں کی اٹھارویں سلطنت کی پانچویں ملکہ تھی،حکومت میں آنے سے قبل بھی اس خاتون نے تجارت اور فنون ِ لطیفہ کے فروغ میں نمایاں کا م کیا تھا۔
مصر ی حکومت میں اس کی بصیرت اور حکمت کے بڑے چرچے تھے۔اس کے دور میں مصر نے کافی ترقی کی اور ملکہ نے ثابت کردکھایا کہ ایک عورت بھی بڑی سے بڑی سلطنت کو بطریقِ احسن چلا سکتی ہے، اس کا زمانہ پندرھویں صدی قبل از مسیح کا ہے اور اس کا خوب صورت مقبرہ آج تک قائم ہے۔
پندرھویں صدی قبل از مسیح کی ایک حکمران ملکہ نیفر ٹیٹی (Nafertiti) کا ذکر تاریخی کتابوں میں عام ملتا ہے،یہ طاقت ور ملکہ اکھی نیٹن (Akhenaton) کی بیوی تھی،اس کا خاوند روایتی بتوں کے برعکس صرف ایک دیوتا ایٹن Aten کا پرستار تھا۔نیفر ٹیٹی اس مذہب پر کاربند نہ ہوسکی اور پرانے مذہب پر خاوند کو بھی واپس آنے پر مجبور کر دیا۔ملکہ کی لاجواب خوب صورتی کے چرچے جگہ جگہ ہوتے تھے لیکن اس کی شاندار حکمت ِ عملی کودشمن بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔اس ملکہ کے حسین و جمیل مجسمے آج بھی دنیا کے عظیم میوزیم کی زینت ہیں۔
مصر ہی کی ایک اور ملکہ قلوپطرہ (Cleopatra) کا نام کون نہیں جانتا،اس کا زمانہ ۹۶ تا۰۳قبل از مسیح کا ہے۔قلوپطرہ قدیم مصر میں سلطنت ِمقدونیہ کی آخری ملکہ تھی۔اپنے ملک کی ترقی،خوشحالی اور مستقل آزادی کی خاطر اس عظیم خاتون نے جولیس سیزر کی مدد حاصل کر لی تھی اورا علیٰ تعلیم یافتہ ہو نے کی وجہ سے یہ ملکہ اپنے عہد کے مردوں پر واضح برتری رکھتی تھی۔اس کی دور اندیشی آج تک ضرب المثل چلی آ رہی ہے۔ (جاری ہے)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔