کرنے کو کچھ تھا نہیں; نیند بھی نہیں آ رہی تھی; یو ٹیوب پہ خاتون اول کا ندیم ملک کو دیا گیا انٹرویو دیکھنے لگا.
چالیس پینتالیس منٹ کے پروگرام میں خاتون اول تیس پینتیس منٹ اپنی عبادات کا ذکر کرتی رہیں, اس کے بعد ندیم ملک صاحب نے پوچھا آپ کیا ہر سوم وار کو روزہ رکھتی ہیں, تو محترمہ نے عاجزی سے فرمایا, آپ کو عبادت کے متعلق سوال نہیں کرنا چاہیے تھا (میں یہی سمجھا وہ کہنا چاہتی ہیں کہ میں سوال کیے بنا سب بتا رہی ہیں تو پوچھنے کا کیا مطلب; لیکن میں غلط سمجھا تھا).
اس انٹرویو سے معلوم ہوا, خاتون اول یتیم خانے کا دورہ کر آئی ہیں اور فکر مند ہیں کہ یتیموں اور بزرگوں کی حالت دگر گوں ہے, حکومت کو ان کے لیے بہت کچھ کرنا ہے; نیز عمران خان کے پاس جادو کی چھڑی نہیں کہ سب ٹھیک کر دیں; الخ. لیکن وہ معجزے پر یقین رکھتی ہیں, کہ عمران خان تبدیلی لے آئیں گے (حال آں کہ معجزوں اور جادو کی چھڑی کا ایک ربط ہے).
ایک ہی نشست میں اپنی کہی باتوں کی کیسے نفی کی جاتی ہے, خاتون اول سے یہ سیکھنا ہو تو یو ٹیوب کو وزٹ کریں. خاص بات یہ ہے کہ پروگرام کے آخر میں خاتون اول نے اپنی زبان سے دوسرے کو تکلیف پہنچانے پر بہت افسوس کا اظہار کیا ہے; ان کا فرمانا تھا, انسان کو سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے کہ اپنی زبان سے پہچانا جاتا ہے (ایسے میں ان کا ہدف عمران خان نہیں تھے).
پروگرام دیکھنے کا حاصل یہ ہوا, کہ میرا اس بات پر یقین پختہ ہو چکا ہے, ریاست پاکستان کی مقتدرہ نے دیو بندی فکر سے سوئچ کر کے بریلوی فکر کو استعمال کرنے کا عہد کر لیا ہے. عوام کو گر یہ غلط فہمی ہے کہ دیو بندی, سلفی ہی متشدد ہیں تو بہت جلد ان کا یہ گمان جاتا رہے گا, جب کئی خادم حسین رضوی ریاست کے لیے چیلنج بن کر سامنے آئیں گے.