میں کچھ دنوں سے اسلامی اقتصادی نظام کا مطالعہ کر رہا ہوں، صرف اس لیے کہ بہت سارے پڑھے لکھے دوستوں نے یہ فرمایا تھا کہ اسلام کا تو کوئ معاشی نظام ہی نہیں ۔ میری روحانی روشنی بہت منور ہے ۔ میں ہر معاملہ اسی سے سمجھتا ہوں ۔ جن دنوں سرکاری ملازم تھا تب بھی سینکڑوں صفحہ کی فائل کہ کچھ صفحہ پڑھ کر بتا دیتا تھا معاملہ کیا ہے ۔ خداداد صلاحیت ہے ۔ اللہ سبحان تعالی کا بہت کرم ہے ۔ اسی طرح میرا بچپن سے ایمان رہا ہے کہ اسلام روایتی مزہب نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور محمد ص ہی میرے آقا ، رہبر اور نبی رہے ۔ ان کی اسوۂ حسنہ میرے لیے مشعل راہ رہی ۔
دراصل یہ سارا معاملہ انسان کو holistically دیکھنے کا ہے ۔ اگر ایسا دیکھا جائے تو ایک core belief ہمیشہ pervade کرتا ہے جو اس کی جیت اور خوشی کی بات کرتا ہے ۔ کل بلکل ایسا ہی ہوا ، میں نے محمد باقر الصدر کی اقتصادونہ iqtisaduna کا بغور جب مطالعہ شروع کیا ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میری روح یہ بنیادی فلسفہ بیان کر رہی ہے ۔ میں بھی باقر الصدر کی طرح انسان ہوں ۔ ایک جملہ میں quote کرنا چاہوں گا اس احساس کو جسے باقر الصدر نے کیا خوب capture کیا ۔ کیونکہ کتاب عربی میں ہے اور میں انگریزی ترجمہ پڑھ رہا تھا لہٰزا انگریزی میں ہی quote کر رہا ہوں ۔
“In the Capitalist view the role of man is that of “means” which serves production and not the “end” which production serves. As for the status of man in Islamic view, that is of “end” and not that of “means”..
اسی وجہ سے میں استحصال کا اپنے بلاگز میں اتنا ڈھنڈورا پیٹتا تھا ۔ مزے کی بات کہ یہی بات آج کہ دور میں مغرب میں ، رِیش کر رہا ہے ، پیٹر ویریک اور برنی سینڈرز کر رہے ہیں ۔ برنی سینڈرز نے تو اگلے دن فیس بک لائیو پر پانچ ٹاپ CEOs کو بلایا ڈیبیٹ کے لیے وہ نہیں آئے ۔ برنی نے خود پروگرام کیا اور کہا کہ خدارا ملا زمین کو منافع کا ایک فیصد بھی نہیں مل رہا اس کو ہی پانچ فیصد کم از کم کر دو ظالمو ۔ شئیر ہولڈرز کو بونس کی صورت میں بھی بہت کم مل رہا ہے ، جو کمپنی کہ ڈائریکٹرز کی صوابدید ہوتی ہے ۔ یہی بات ٹرمپ نے Amazon کہ چیف کو کہی کہ میں تمہیں تمہاری مرضی کی لُوٹ مار اور منافع کی اجازت نہیں دوں گا ۔ اور بلکل یہی بات آسٹریلیا کہ موریسن نے Amazon کہ چیف کو کہی کہ میں تمہے فٹ پاتھوں پر گھسیٹوں گا ۔ یہ ہے monopoly کہ خلاف جنگ ، استحصال کہ خلاف مقابلہ جو دنیا میں جاری ہے ۔ بھوٹان جیسے چھوٹے سے ملک کی ہاورڈ سے پڑھی ہوئ ملکہ اسے سمجھ گئ اور اسے Gross National Happiness کہا ۔ باقر الصدر بھی انسانی خوشی کو goal گردانتا ہے ۔ مسلمانوں کی تعداد اس وقت کوئ ایک ارب اسی کروڑ ہے ۔ آپ تو اپنے پیارے نبی کی ہدایت اور نسخہ پر عمل کر لیں ۔ عمران کی زبان سے اگر غلطی سے مدینہ کی ریاست کا لفظ نکل ہی گیا تو اب وہ اس پر عمل ہی کر دے ۔ ہم لبیک کہیں گے ۔
باقر الصدر نے ایک اور بہت اچھا تزکرہ سوشل بیلینس کا کیا ۔ جسے وہ کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں ۔
“Social Balance is in fact balance of the standard of living and not the balance of income among the individual members of society as believed by Marxism. Islamic Economy is not scientific rather the most Doctrinal one “
لوگ اکثر سمجھتے ہیں کہ اسلامی اقتصادیات مارکسزم اور کیپٹلزم کا کوئ درمیانہ راستہ ہے ۔ بلکل ایسا نہیں ۔ یہ یکسر مختلف ہے ۔ بھٹو نے اسے اسلامی سوشلزم کا نام دے کر بُھگتا ۔ اسلامی نظام کا سارا معاملہ روح اور جسم پر فوکس کرتا ہے جبکہ سرمایادارانہ اور کیمونسٹ نظام matter یا مادہ سے شروع ہوتا ہے اور ختم ۔ باقر الصدر بھی بلکل ہوُبہو پیٹر ویریک کا بیانیہ دے رہا ہے کہ جناب ، تاریخ کی تشریح material کہ اعتبار سے بلکل غلط ہے خواہ وہ کمیونسٹ کریں یا سرمایا دار ۔ تاریخ کی صیحیح اور اصلی تشریح اخلاقیات اور مزہب کی بنیاد پر ہے ۔
باقر الصدر نے ریاست اور معاشرہ کا بہت بڑا فرض اور اہمیت بھی اس بارے میں واضح کی ہے ۔ یہاں تک کہ اگر زکوت سے پیسہ پورا نہ ہو ریاست پر فرض ہے کہ کوئ بھوکا نہ مرے ۔ کپڑے کہ بغیر نہ ہو ۔ ضروریات زندگی پوری ہوں ۔ ایک تو باقر الصدر کہ نزدیک یہ کام ہم سب کا باہمی یعنی reciprocal ہے دوسرا ریاست کا فرض ۔ جیسے قرآن حکیم میں اللہ تعالی فرماتے ہیں ، خرچ کرو اللہ کی راہ میں ، اپنے رشتہ داروں پر ، عزیزوں پر ، نادار ، بیوگان اور یتیموں پر ۔ کل ایک دوست نے مجھے کہا کہ اگر میں لنگر پر کچھ لکھوں ۔ تو میں یہیں عرض کیے دیتا ہوں کہ یہ بھی دراصل ریاست کا فرض ہے لیکن اگر ریاست پورا نہیں کر پا سکتی تو جو اہل توفیق ہیں ضرور ایسا کریں ۔ صرف احتیاط کیا جائے کہ کھانے والوں کی تزلیل نہ ہو کوئ نمائش کا معاملہ نہ ہو ۔ یہاں امریکہ میں بھی تقریباً ہر شہر میں یہ روایت ہے فرق صرف یہ ہے کہ کھانے والوں کو بہت عزت دی جاتی ہے تا کہ وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں ۔
پاکستان میں اسد عمر صاحب اور اس کی ٹیم کیا گُل کھلاتی ہے وہ تو وقت بتائے گا ۔ پرانے استحصالیوں کو دفنایا جا رہا ہے نئے جنم لے رہے ہیں ۔ بابو کریسی کی اصلاحات ہوں گی ۔ کونسی اصلاحات ؟باقر الصدر حضرت علی کا مصر کہ گورنر کو خط کا حوالہ دیتے ہیں جس میں حضرت علی ہدایت کرتے ہیں کہ اگر تمہاری jurisdiction میں کوئ بھوکا ننگا رہا تو تم جوابدہ ہوگے ۔ یہ colonial اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر جواب کیا جوابدہ ہیں عوام کو؟ یا عثمان بزداراور چوہدری سرور ، توبہ اللہ کی ان کہ ظلم، تکبر اور شوخیاں دیکھیں ؟ خدا کا خوف کھائیں خان صاحب ۔ کل ایک خاتون کہ رہی تھیں خان صاحب کو ۳۰ سال تو دیں ، جناب نواز شریف کو تین دفعہ وزیر اعظم میں بھی دس سال ملے اور اس نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دیں ۔ خان صاحب اپنا قبلہ تو درست کریں ۔ نماز پڑھنے مسجد میں آیا کریں ۔ لوگوں سے گُھلے ملیں ۔ اُن سے بے شک پسینے کی بُو بھی آئے ، آپ نے خود ان کا سربراہ بننے کے لیے رسے تڑوائے جناب ۔ ٹی وی پر ہی ہر ہفتہ پروگرام مسٹر پرائم منسٹر میں عوامی عدالت میں آ جایا کریں ۔ کیا ایسا ممکن ہو گا یا ایک خواب ہو گا ؟
میں آپ کو یقین سے کہ سکتا ہوں ایسا ہی ہو گا ۔ عمران کرے یا کوئ اور یہ قدرت کا فیصلہ ہے وہی فیصلہ ہے جس کہ تحت کل تین بار فرسٹ لیڈی بننے والی کلثوم نواز کو دفنایا جا رہا ہے ۔ مرزا غالب پھر یاد آ گئے ۔ خان صاحب ہم ۲۲ کروڑ آپ کہ دیوانے ہیں ، کچھ کر جائیں ۔
دل نادان تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے
شکن زلف عنبریں کیوں ہے
نگہ چشم سرمہ سا کیا ہے
سبزہ گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
ہاں بھلا کر ترا بھلا ہوگا
اور درویش کی صدا کیا ہے
جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے
میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
کل ہی میں ایک اور بہت دلچسپ موضوع پر ایک کتاب پڑھ رہا تھا
“Every one brave is forgiven “
اس کہ مرکزی کردار کا تاریخی جملہ آپکی حاضر خدمت ۔
“I was brought up to believe that every one brave is forgiven, but in war time courage is cheap and clemency out of season “
پاکستان اس وقت ایک ہولناک جنگ میں ہے ۔ جنگ جو ۲۲ کروڑ کو نگل رہی ہے ۔ ۲۲ کروڑ کی جیت کہ لیے کچھ دیر اخلاقیات کو بلائے طاق رکھ دیں وگرنہ قدرت تو ان کو مار ہی رہی ہے اور یہ دائرہ تو پورا ہو کر ہی رہے گا ۔ میری والدہ کہتی تھیں ، “بیٹا مر کے ای جان چُھٹے گی “ اور میں کہتا تھا کہ “دعا کرو مرن تو پہلو کُج کر جائیے “
پاکستان پائیندہ باد