اُس دن اتوار تھا _ ہم میاں بیوی جہلم دریا کنارے اپنے گھر سے سیر کرنے میر پور کیلئے نکلے _ سرائے عالمگیر سے نہر کراس کی اور لیفٹ کو آزاد کشمیر کی طرف مڑ کر بائیک کو فُل ایکسلریٹر دے دیا _
پُرانی یاماہا بائیک تھی _ نہر کنارے دس پندرہ کلو میٹر چلے تو بائیک کا پلگ شارٹ ہو گیا _ ایک درخت نیچے رُکے اور میں پلگ کھول کر صاف کرنے بیٹھ گیا _
چھوٹا سا درخت تھا ، سایہ کم ، دھوپ بہت تیز ، جولائی کا مہینہ _
پلگ صاف کرتے ہوئے میں جس طرف ہوتا ، چند ماہ کی وہ دُلہن بازوؤں پر چادر پھیلائے میرے اور سورج درمیان رہ کر اُسی طرف ہو جاتی _ خود دھوپ میں رہی ، مُجھے چھاؤں میں رکھا _ اُسے میرے سے ٹَچ کرتی دھوپ بھی اپنی سوکن جیسی لگی _
میر پور کے ایک ہوٹل میں دوپہر کا کھانا کھاتے اُس نے مُجھے پوچھا _ اگر میں مر گئی تو تم کیا کرو گے _ ؟
میں نے اُس کے سوال کو بہت ٹالا پر وہ پوچھتی رہی _ پتہ نہیں اُس کے دل میں کیا تھا _ ہنستے ہنستے وہ سوال کرتی ہی رہی _ بتائیں نا ، اگر میں مر گئی تو آپ کیا کرو گے _ ؟
آخر میں نے کہہ دیا _ اگر تُم مر گئی تو میں بھی مر جاؤں گا _ تمہارے بغیر میرے لئے جینا ممکن نہیں _
آج اُسے فوت ہوئے آٹھ سال ہو گئے _ اب بھی زندہ ہوں اور اِس وقت کِنو کھاتے ہوئے ٹی وی پر چارلی چپلن کی فلمیں دیکھی جا رہی ہیں _