اپنی بیماری کی تشخیص تو ہم نے کر رکھی ہے اور اس کی تفصیل آپ کو بتانے سے بھلا کیا ہچکچاہٹ؟ لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اب تک آپ خود ہی جان چکے ہوں۔
پرانے کاغذات میں سے کوئی ایسا پرزہ مل جائے جس پہ کوئی حکایت دل لکھی ہو، خستہ حال سوٹ کیس خالی کرتے ہوئے کوئی دھندلی سی بلیک اینڈ وائٹ تصویر ہاتھ لگ جائے، جستی پیٹیوں میں بند لحافوں کو ہوا لگواتے ہوئے کوئی بدرنگ سا دوپٹہ مل جائے، الماری کی صفائی کرتے ہوئے کسی کونے میں کوئی بچگانہ فراک نظر کے سامنے آ جائے تو ہم سب کام چھوڑ کے بے اختیار یادوں کا دریچہ کھول کر اس میں گم ہو جاتے ہیں۔ کبھی لبوں پہ مسکراہٹ پھیلتی ہے تو کبھی آنکھ نم ہو جاتی ہے کہ مہ و سال کی گردش میں بہت کچھ پیچھے رہ چکا، وقت کی گرد نے بہت کچھ دھندلا دیا اور بہت کچھ ایسا ہے جو ہمارے ساتھ ہی دفن ہونے کو جا رہا ہے۔
کیا آج کے بچوں کو کاغذ سے کشتی بنانا آتی ہے؟ کیا برستے آسمان تلے وہ اپنی کشتی کے ساتھ دوڑتے ہیں؟ کل چھماچھم برستی بارش میں ہم نےبے اختیار ہو کر سوچا… شاید نہیں… بھلا نئے ہزاریے کے بچوں کو کاغذ کی کشتی اور بارش کے پانی سے کیا لینا دینا؟
شاہین نامی طوفان نے ہمیں یادوں کے طوفان کے حوالے کر دیا اور ہم بارش میں چائے کی پیالی تھام کر جا بیٹھے۔ گرما گرم چائے میں بارش کےقطرے ٹپ ٹپ گرتے، چھوٹا سا بھنور بنتا اور اور پھر ختم! گزرے ہوئے دن بھی شاید ایسا ہی کرتے ہیں، ہستی میں ہلکا سا ارتعاش اور پھر ختم!
ارے ہاں، بیماری کا نام تو بتانا ہی بھول گئے ہم۔ ناسٹیلجیا کہتے ہیں اسے، جب کوئی معمولی روزمرہ کی غیر اہم بات ماضی کے لمحات کو کو کھینچ کر حال میں لے آئے اور وہ گزرے پل کچھ بھولی ہوئی کہانیاں کہنا شروع کر دیں تو راہ فرار کہاں ہوتی ہے بچنے کی؟ سو واللہ ہم مجبور ہیں، وہ سب کچھ کہنے سننے پہ جو برس ہا برس سے وقت کی قید میں ہے-
جونہی بارش شروع ہوتی ہم کونے کھدروں میں پڑی کسی پرانی نوٹ بک کی تلاش تیز کر دیتے۔ ادھر ادھر دیکھ کر کچھ صفحے پھاڑتے اور جلدی سےگلی میں کھسک لیتے کہ جہاں بارش سے بچتے ہوئے چھجے کے نیچے کچھ ہم جیسے ہمارا انتظار کر رہے ہوتے۔ ہر بچے کے ہاتھ میں چار چھ کاغذ ہوتےجو گھر والوں کی نظر بچا کے کسی بہن بھائی کی کاپی سے پھاڑے ہوتے۔ وہاں کھڑے ہو کر ان کاغذوں کی کشتیاں بنائی جاتیں۔ جس بچے کو نہ بنانی آتی، اسے بنا کر دی جاتی یا بنانا سکھائی جاتی، کشتی بنانا بھی تو ایک فن ہی تھا۔
گلی میں کہیں کہیں بارش کے پانی سے چھوٹا سا تالاب بنا ہوتا اور کہیں پانی تیزی سے ڈھلوان کی طرف بہہ رہا ہوتا۔ اونچی نیچی گلیوں میں یہ ڈھلوانیں ہی تو پانی کے نکاس کا سبب بنتی تھیں۔ سب بچوں کی توجہ کا مرکز وہ بہتا ہوا دھارا ہوتا جس میں سب نے اپنی کشتی ڈال کر اس کےساتھ ساتھ چلنا ہوتا۔
لیجیے جناب اب کشتیوں کی دوڑ شروع ہوتی۔ ہرکوئی اپنی اپنی کشتی پر نظرجمائے اس کے ساتھ ساتھ چلتا۔ کبھی تیز، کبھی آہستہ، ڈگمگاتی، اچھلتی،ٹکراتی، بارش میں بھیگتی، بہتی کشتیاں اور ان پر نظریں جما کر ساتھ دوڑتے بچے۔ جس کی کشتی آگے نکل جاتی، اس کی خوشی دیکھنے کے قابل ہوتی اور وہ دوسروں کو فاتحانہ مسکراہٹ سے نوازتا۔ جس کی کشتی بھیگ کر ڈوب جاتی، وہ اداس نظر سے اسے الوداع کہتا اور دوسری کشتی بنانےکے لئے دوڑ پڑتا۔ ایک ایک کر کے سب کی کشتیاں ڈوبتی جاتیں، بھیگےکاغذ کی تہیں بھلا کتنی دیر پانی سے بچ کر رہتیں؟
کبھی کبھار کوئی ایک آدھ خوش قسمت کشتی گلی کی نکڑ تک تیرتی رہتی اور پھر بہتے پانی کے ساتھ ہی نظر سے اوجھل ہو جاتی۔ کشتی کا مالک بچہ اسے انجان سفر پہ روانہ کر کے چھجے کے نیچے واپس لوٹ آتا جہاں اگلی کشتی بنا کر پانی میں اتارنے کی تیاری ہو رہی ہوتی۔ یہ کھیل جاری رہتا جب تک سب کے لائے ہوئے کاغذ ختم نہ ہو جاتے۔
کشتیاں چلاتے ہوئے ہم سب بارش میں بھیگ چکے ہوتے لیکن پھر بھی مزید تمنا باقی رہتی۔ کشتیوں کے ساتھ دوڑتے ہوئے بھیگنا بارش سے آنکھ مچولی تو نہیں تھی نا۔ برکھا کی رم جھم علیحدہ سے محبت کی متقاضی تھی۔ سو کیا ہوتا کہ سب بارش میں کھڑے ہو جاتے، آنکھیں میچ کر منہ کھول کر آسمان کی طرف دیکھنے لگتے۔ آنکھ ایک گہری مٹیالی ابر آلودد نیا دکھاتی جو اس وقت صرف ہم سب کی ہوتی۔ منہ پہ تیز رفتار پانی کےقطرے گرتے، جسم میں سنسناہٹ سی پھیلتی، کچھ قطروں کا ذائقہ زبان محسوس کرتی، کسی انجان دنیا سے بھیجا ہوا پانی کا تحفہ ایک انجانی سی خوشی بخش دیتا۔ بچپن کا سن، ہم جولیوں کا ساتھ، آسمان کا فسوں، بارش کی جلترنگ، تیز ہوا اور بھیگے ہوئے کپکپاتے جسم، زندگی بس اسی کا نام تھا۔
یہ منظر جب تمام ہوتا جب شام کا سرمئی اندھیرا اترنے لگتا۔ تب سب کو یاد آتا کہ کہیں کسی اور دنیا میں ایک نرم گرم سی آغوش منتظر ہو گی جو پیار بھرے لہجے میں سرزنش کرتے ہوئے پوچھے گی، اتنی دیر؟ آج کتنی کشتیاں چلائیں؟
زندگی کا ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد آج ایسا لگتا ہے کہ بچپن میں برسات کے وہ دن اور کشتیوں کا کھیل، محض کھیل نہیں تھا۔ وہ تو زندگی کے سٹیج پہ کھیلے جانے والے اصل کھیل کی ایک جھلک تھا۔ زندگی، جس کے پانیوں میں ہر کوئی اپنی کشتی ڈالتا ہے اور نہیں جانتا کہ بہنے والا پانی کہاں لے جائے گا؟ کہیں لے کر بھی جائے گا بھی کہ نہیں؟ کشتی پانی کے تھپیڑے سہار پائے گی کہ نہیں؟ گلی کا موڑ مڑنے کے بعد کشتی کےساتھ کیا ہونے والا ہے، یہ ہم نہ تب جانتے تھے اور نہ اب!
کاغذ کی کشتی اور اصل کھیل میں ایک فرق اور بھی ہے۔ زندگی کے سٹیج پہ ایک ہی کشتی ملتی ہے اور ایک ہی موقع!
بہت برس ہوئے، طالب علمی کے دور میں ایک کانفرنس کے دوران ڈاکٹر یاسمین راشد کو گنگناتے سنا تھا، مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون، وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی۔ اس وقت شہرت اور دولت کو بچپن کےساتھ ایک ترازو میں تولنے کی خواہش کچھ زیادہ سمجھ میں نہیں آئی تھی کہ بچپن گزرے کچھ زیادہ دن نہیں ہوئے تھے۔
مگر اب زندگی کی شام میں بھیگی ہوئی دہلیز پہ چائے کی پیالی میں بارش کا ذائقہ محسوس کرتے ہوئے ہم سوچ رہے ہیں کہ شاید ٹھیک ہی لکھا تھا شاعر نے۔
چائے کی پیالی میں بارش کےقطروں کے ساتھ کچھ اور قطرے بھی شامل ہو جائیں تو شام امر ہو جاتی ہے۔ آزما کر دیکھ لیجیے، آنکھ سے گرتا نمکین پانی!
***
تحریر: ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...