تعلیمی اداروں میں شعبہ تربیہ guidance کو کیسے اُجالا جائے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- کیریکٹر بلڈنگ سیشنز میں سیرت النّبیؐ، خلفائے راشدین و دیگر بزرگانِ دین کے واقعات کو جدید زبان اور جارگن سے مرصّع کریں۔ بہت ضروری ہے۔ بہت ضروری!! شعبہ تربیہ یعنی guidance کے لئے ضروری نہیں کہ ٹوپی، داڑھی، اور سُرخ رومال لپیٹے کوئی مولوی صاحب ایپوائنٹ کئے جائیں ـــ نیکی کا سِمبل بنا کر۔ بلکہ ایسا سیشن دینا (ہفتہ بھر میں ایک بار) ہر اُستاد کی ذمّہ داری ہو۔ تیاری میں انہیں مدد دی جائے۔ سکول میں وقت اس طرح نہ گزرے کہ باقی مضامین کے اساتذہ کو کچھ خبر نہ ہو کہ گائیڈنس ڈیپارٹمنٹ میں کون کیا کر رہا ہے۔ بلکہ سب لوگ اس کے ساتھ مستقلاً connected رہیں۔ سب جانتے ہوں کہ شعبہ تربیہ کی طرف سے کونسا نیا پیغام float کیا گیا ہے جس کا سب سے پہلا مظاہرہ بچے تمام اساتذہ میں دیکھنا چاہیں گے۔ اب اس کے پیش نظر ہر استاد اس مخصوص پہلو کے حوالے سے احتیاط برتے گا۔
2- ہر ہفتے تین سے چار manners اور تین سے چار precautions یعنی احتیاطی تدابیر سکھائی جائیں ـــ باقاعدہ demonstrate کروا کر۔
3- نیز، ساتھ ہی ساتھ یہ بتایا جائے کہ کیریکٹر اور اچھی صفات traits رکھنا ایک عالمگیر شے ہے، ایک سَیٹ آف ویلیوز جو کسی بھی شخص میں ہو سکتی ہیں۔ بات کچھ values رکھنے اور انہیں نبھا جانے کی ہے۔ بات کمٹمنٹ کی ہوتی ہے۔ جو کوئی بھی اس کا مظاہرہ کرے، وہ رول ماڈل ہے۔
4- ریڈرز ڈائجسٹ میں سے سچّے واقعات لئے جائیں جو انسپائر کرنے کو ایک بیش بہا خزینہ ہیں۔ اسی طرح مولانا وحیدالدین خاں صاحب کی کتابوں سے مدد لی جائے ۔۔۔ جیسے اُن کی کتاب "رازِ حیات"، اور باقی بھی۔ برادر عامر خاکوانی کی کتاب "زنگار" سے بھی کچھ مواد ملے گا۔ ہالی ووڈ فلموں سے اور ارطغرل جیسے ڈراموں سے چھوٹے چھوٹے کلِپس اٹھائیں۔۔۔ پاکستانی ڈراموں سے کلِپس اٹھائیں۔
5- اپنے کلچر سے بھی اور دیگر کلچرز سے بھی مواد!! تا کہ بتایا جا سکے کہ یہ اچھائی، کردار، نیکی ایک عالمگیر شے ہے۔ کھلاڑیوں کی زندگیوں میں سے واقعات ضرور شامل کریں۔ نِیز، روز مرّہ زندگی سے مواد اٹھائیں جس سے بچوں کو روز واسطہ پڑتا ہے۔ مثلاً بچوں سے یہ سوال پوچھ کر کہ بتائیں گذشتہ کل گھر یا سکول میں آپ کا دل کس بات سے بوجھل ہوا؟ ملنے والے جوابات پر سوالات کئے جائیں کہ کیا ہونا چاہئیے تھا، کیوں ہونا چاہئیے تھا۔۔۔ پھر رہنمائی دی جائے۔
6- بچوں کی سکول لائف کو آبزرو کیا جائے، کلاس روم اور گراؤنڈ وغیرہ پر جس کسی نے کچھ اچھا کیا ہو، اُسے رول ماڈل مثال بنایا جائے۔ جہاں کچھ برا ہو گیا ہو، رہنمائی دی جائے کہ کیا ہونا چاہئیے تھا، اور کیوں ہونا چاہئیے تھا۔
7- ہر کلاس ہفتہ بھر میں دو بار سکول کا کوئی گوشہ صاف کرے۔ اساتذہ بھی اس میں شامل کئے جائیں۔ ایسی کچھ بھی ترتیب بنا لی جائے۔۔۔ جیسے گھنٹی بجا کر یکدم سارا سکول 5 سے 7 منٹس کے لئےاِنگیج کر لیا جائے۔۔۔ یا کسی اور طرح سے۔ سٹاف کیساتھ مشاورت کر کے کوئی ایک سٹریٹجی اپنائیں، پھر اُسے ہر ماہ تبدیل کرتے رہیں۔ ورائٹی کی غرض سے۔
8- کسی کی بات سے اختلاف کا اظہار کیسے کیا جائے؟ اگر کوئی آپ کی بات سے اختلاف کرے تو ردّ عمل کیسے دیا جائے؟ ــــ با قاعدہ ڈرِِلز کیصورت مشق کرائی جائے، تا کہ عادت بنے، برداشت پیدا ہو۔
9- بچوں میں پڑھائی کا خوف اور دباؤ کم کرنے کو، اُن کی زندگیاں آسان بنانے کو سب سے زیادہ ضروری یہ بات ہے۔ 8 پیریڈز والی بورنگ رُوٹین کو توڑ دیا جائے۔ضروری نہیں ہر مضمون ہر روز پڑھایا جائے۔ بلکہ دو پیریڈز کے برابر دورانیہ کو ورکشاپ کی شکل دے دی جائے۔ اس میں 5 منٹس کا مزید اضافہ کر دیں اور یہ وقت تربیہ یعنی guidance کے لئے مختص کر دیں۔ ایسی ورکشاپ کا فارمیٹ آپ جِیپ JEEP ISB سے مفت میں حاصل کرسکتے ہیں۔ ٹیچرز کی زندگیاں آسان بنانے کو مارکنگ والا burden کم کرنا بے حد ضروری ہے۔ اس کا کیا حل ہو؟ جِیپ سے رابطہ فرمائیں، اور فری میں ایسی strategies حاصل کریں۔ جب بچوں اور اساتذہ کی زندگیاں آسان ہوں گی تو کیریکٹر بلڈنگ کے عمل کی طرف توجہ دینا بے حد آسان ہو جائے گا۔ ورنہ بس ڈنگ ٹپاؤ انداز میں چل سو چل۔
10- ایک بات یاد رکھیں۔ اِس ایج میں، چھوٹے بچوں میں اللہ سے محبّت پیدا نہیں ہو سکتی۔ بچوں نے زندگی کی دھوپ چھاؤں ابھی نہیں دیکھی۔ مشکلات نہیں دیکھیں۔ بے وفائی، تنہائی، بے روزگاری، ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا، بیماری، چیلنجنگ سیچوئیشنز۔۔۔ بلکہ اُن کی زندگیوں میں سب کچھ for granted سٹائل میں چل رہا ہوتا ہے۔ اِس لئے اللہ سے محبت کی بجائے رول ماڈلز کیساتھ وابستگی، یعنی سمبل آف گُڈ نیس کیساتھ اُنسیت ہی ممکن ہے۔
اب ایک اسلامی رول ماڈل میں انہیں یہ نظر آئے گا کہ وہ کسی اصول کی پاسداری کیوں، کِس وجہ سے کر رہا ہے؟ ــــــ چونکہ اللہ فلاں بات سے منع کرتا یا فلاں بات کو پسند کرتا ہے ۔۔۔ ایسا رول ماڈل جو سب سے زیادہ اثر انداز ہو سکتا ہے وہ دو ٹانگوں پر سامنے کھڑا، ایک زندہ حقیقت، استادِ گرامی ہی ہے۔ اساتذہ کو رول ماڈل بننے کو کیا کرنا چاہئیے، اور کِن سیچوئیشنز میں کیا تدابیر اختیار کرنی، کیا زبان برتنا چاہئیے؟ ـــ اِس پر آپ جولائی کے آخر میں ہماری ورکشاپ اٹینڈ کریں۔
11۔ یہ ایکٹوٹی کرائیں، ہفتہ بھر میں دو بار۔ اِسے کوئی مناسب سا نام دے لیں۔
بچے دن بھر میں کوئی سا ایک پری کاشن، یا ایک آدابِ زندگی برت کر ـــ ایک دکھائی دینے والا manner ، ایک نہ دکھائی دینے والی نیکی ــــ کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ کر (نام ظاہر کئے بغیر) ریکارڈ باکس میں ڈال جائیں۔ آپ ان میں سے کچھ منتخب کر لیں، اگلے روز اسمبلی میں شیئر کریں۔ تا کہ نیکی رواج پکڑے۔ اس کا جذبہ فروغ پائے۔ (پہلے آپ وضاحت دیں گے کہ دکھائی دینے والی نیکی یا manner کیا ہے، اور نہ دکھائی دینے والی نیکی کیا ہے۔)
12۔ والدین کے ساتھ ہم رابطہ ہوں۔ ایک ماہ میں گھنٹہ بھر کا ایک سیشن والدین کے ساتھ ضرور رکھیں۔ انہیں بتائیں بچوں کی تعلیم و تربیت میں ایسا رابطہ سخت ضروری ہے۔
اب انہیں بتائیں اور پھر اس پر فیڈبیک بھی لیں کہ بچے جب گھر میں ہوتے ہیں تو بیشتر وہ اپنے کام خود کریں، جیسے جوتے پالش کرنا، کپڑے استری کرنا۔ اسی طرح رات سونے سے پہلے دانت برش کرنا وغیرہ جیسی صحت مند عادات پروان چڑھانے کو رہنمائی اور ریمائنڈرز دیے جائیں۔
13- نویں اور دسویں جماعت اور اس سے اوپر کے بچوں کو نماز، عبادت اور رسالت اور خاص طور پر رسالتماب صلعم کے ایک سچا پیغمبر، اور پیغمبرِ آخر الزماں ہونے کے حوالے سے دنیا بھر میں سب سے اچھا مواد ابوالاعلی مودودی رحمتہ اللہ صاحب کی کتاب دینیات میں موجود ہے۔ اس مواد کو موثر انداز میں بچوں تک پہنچانے کا اہتمام کیا جائے۔