میں یہ کالم تسمانیہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں لاٹروب میں بیٹھ کر سپردِ قلم کر رہا ہوں، تسمانیہ آسٹریلیا کا ایک صوبہ ہے‘ آسٹریلیا ایک جزیرہ ہے اور تسمانیہ اس بڑے جزیرے کے جنوب میں واقع ایک اور چھوٹا سا جزیرہ ہے اگر یہ کہا جائے کہ تسمانیہ کا دنیا کے سب سے زیادہ خوبصورت علاقوں میں شمار ہوتا ہے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ پورا جزیرہ کسی گالف کے میدان کی طرح ہے، درخت، جھلیں، سبزہ زار، وسیع و عریض چراگاہیں جن میں جانور کسی کھونٹے اور رسی کے بغیر آزادانہ چل پھر رہے ہیں۔
ڈھلانوں اور ترائیوں پر مخملیں سبزے کے قالین۔
ایک ایک گاؤں صاف ستھرا، دُھلا ہوا، جیسے مرغزار کے درمیان زمرد ٹانک دیا گیا ہو۔
جگہ جگہ چاکلیٹ کی فیکٹریاں،
شہد اور پنیر کے فارم،
گل لالہ کے حدنظر تک سرخ کھیت،
دریاؤں کیساتھ پیدل چلنے کے ٹریک، ذرا دور بحرالکاہل میں چلتے ہوئے جہاز …؎
اگر فردوس برروئی زمین است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح سائیکلوں کاروں اور بسوں میں اِدھر اُدھر گھوم رہے ہیں رہائش سے لیکر سیر تک سارے پروگرام پہلے سے طے شدہ ہیں۔ کوئی وعدہ خلافی نہ تاخیر، بحث نہ جھگڑا، بھاؤ تاؤ نہ گفتگو میں گرمی ۔ ہر شخص اپنے فرائض یوں انجام دے رہا ہے جیسے یہ مسرت کے حصول کا ذریعہ ہو۔
لیکن اس خوبصورت اور بہشت آسا سیر گا ہ میں بھی غم کا ایک بادل ہے جو دل پر چھایا ہوا ہے؎
مزے سارے تماشا گاہِ دنیا میں اٹھائے
مگر اک بات جو دل میں ہے جس کا غم بہت ہے
رہ رہ کر ایک خیال آتا ہے اور تازیانہ لگا جاتا ہے۔ آخر یہ سب کچھ پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ ایبٹ آباد سے شمال کی طرف سفر کریں تو خوبصورت سبزہ زار، ڈھلانوں اور ترائیوں پر جھومتے ہوئے درخت، سرسبز و شادات چراگاہیں، دریا اور ندیاں، چشمے اور برفانی چوٹیاں سب کچھ موجود ہے لیکن سیاح کچھ اور بھی مانگتے ہیں۔ صفائی معیاری شاہراہیں باعزت ہوٹل، خوردونوش کی خالص اشیاء وعدے کی پابندی، قانون کا نفاذ، گفتگو میں شائستگی معاملات میں دیانت اور سب سے بڑھ کر سیکورٹی اور امن وامان افسوس! یہی تو وہ سب کچھ ہے جو نہیں ہے!
ایک گرداب ہے جس میں ہم پھنسے ہوئے ہیں کشتی ہچکولے کھا رہی ہے۔ ساحل دور ہے ناخدا جن کے ہاتھ میں پتوار ہیں فاترالعقل ہیں اور المیہ یہ ہے کہ چند ملاح سارے مسافروں کو غرقاب کرنے پر تُلے ہوئے ہیں وہ جو ان ملاحوں کو معزول کر کے خود ناخدا بننا چاہتے ہیں وہ بھی اُسی قماش کے ہیں خیر سے ان کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ بقول حافظ شیراز …؎
راہی است راہِ عشق کہ ہیچش کنارہ نیست
آنجا جُز آن کہ جان بسپارند، چارہ نیست
یا ظہور نظر کے لفظوں میں …؎
آبنائے خوف کے چاروں طرف ہے دشتِ مرگ
اب تو چارہ جان دینے کے سوا کچھ بھی نہیں
مریض جان بلب ہے لیکن علاج کے بجائے ساری توجہ پھولوں گلدستوں اور مٹھائیوں پر ہے جس کا مریض کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا اسے تو تشخیص کی ضرورت ہے اور پھر ایسی دوا کی جو بیماری کے سبب کو دور کرے۔
ایک صاحب دل نے (نام کو چھوڑیے کہ فتوے لگیں گے اور خطوط اور ای میل میں ’’پھول‘‘ جھڑیں گے!) حال ہی میں ان بیماریوں کی فہرست پیش کی ہے جن میں مسلمانوں کی اکثریت بالعموم اور اہل پاکستان بالخصوص مبتلا ہیں۔ ’’جھوٹ، بددیانتی، غبن، خیانت، چوری، غصب، ملاوٹ، سود خوری، ناپ تول میں کمی، بہتان طرازی، وعدے کی خلاف ورزی، سِفلی علوم سے اشتغال، ایک دوسرے کی تکفیر و تفسیق، قبروں کی پرستش، مشرکانہ رسوم، بے ہودہ تفریحات اور اس نوعیت کے دوسرے جرائم
…‘‘
سِفلی علوم سے اشتغال کا یہ عالم ہے کہ کالے جادو سے لیکر زائچہ بازی تک اور اعداد پرستی سے لیکر پیش گوئیوں تک قوم کو ہر قسم کا نشہ دیا جا رہا ہے تاکہ کچھ کرنا نہ پڑے اور سارے کام بیٹھے بٹھائے ہو جائیں۔ کوئی کہتا ہے کہ مجھے ’’اس سے آگے بتانے کی اجازت نہیں‘‘ اور کوئی بتاتا ہے کہ فلاں ہندسہ مقدس ہے۔ حیرت ہے کہ حضرت عمر فاروق اعظمؓ اور حضرت علی مرتضٰی کرم اللہ وجہ، سے لیکر طارق بن زیاد، محمد بن قاسم، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اور مجدد الف ثانیؒ تک اور اقبالؒ سے لیکر قائداعظمؒ تک کسی نے زائچوں کا سہارا لیا نہ مقدس ہندسوں کا اور نہ پیش گوئیوں کا نہ ہاتھ دکھائے نہ فائیو سٹار ہوٹلوں میں نجومیوں کو رکھا اور نہ اپنے آپکو مشتہر کرنیوالی نام نہاد روحانی شخصیات سے مستقبل کی خبریں پوچھیں، تذلیل اور احتیاج کی یہی تو وہ زنجیریں ہیں جو اسلام نے توڑی ہیں اور انسان کو پیدا کرنیوالے کے سوا کسی کا محتاج نہیں کیا یہی وہ بُت ہیں جن کی پرستش سے اقبالؒ روکتے رہے …؎
ستارہ کیا تری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار وزبوں!
مستقبل سے آگاہی اگر ہمارے لئے مفید ہوتی تو کیا سب کچھ عطا کرنیوالے پروردگار کو ہم سے کوئی دشمنی تھی کہ اس نے ہمیں مستقبل سے بے خبر رکھا؟ اگر کسی کو یہ معلوم ہو کہ اس نے کار کے حادثے میں مرنا ہے فلاں سال میں دنیا سے اٹھنا ہے تو اس کیلئے ہر لمحہ موت سے کم نہ ہو گا اور اسکی حالت اس قیدی کی سی ہو گی جسے معلوم ہوتا ہے کہ صبح اس نے پھانسی پر لٹکنا ہے! رہا یہ مسئلہ کہ ملک کی حالت کب بہتر ہو گی تو اللہ کی آخری کتاب نے بتا دیا کہ ’’انسان کیلئے وہی کچھ ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے۔‘‘
حقائق سے بے نیازی اور اپنے آپکو حرفِ آخر سمجھنے کی ایک مثال ملاحظہ کیجئے۔ گزشتہ ہفتے افغانستان اور پاکستان کے چند علماء کرام نے فتویٰ جاری کیا ہے کہ سارے غیر مسلم ممالک سے برآمد کردہ گوشت اسلام میں ممنوع ہے کیونکہ ان ملکوں میں جانور اسلامی احکام کے تحت ذبح نہیں کئے جا رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کے نامور علماء کو جن سے مسئلہ پوچھنا چاہیے تھا یہ فتویٰ بطورِ اطلاع بھیجا گیا ان میں جسٹس تقی عثمانی کے علاوہ اکوڑہ خٹک، جامعہ اشرفیہ اور بنوری ٹاؤن جیسے چوٹی کے اداروں کے علماء کرام شامل ہیں اب جو سوالات پیدا ہوتے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں کہ کیا چوٹی کے ان علماء کو فتویٰ بھیجنے کے بجائے ان کی رائے لینا ضروری نہیں تھا؟ کیا غیر مسلم ملکوں میں رہنے والے کروڑوں مسلمان جو کئی کئی گھنٹے گاڑی چلا کر حلال گوشت مہیا کرنیوالوں کے پاس پہنچتے ہیں اور خرید کر واپس آتے ہیں حرام گوشت کھا رہے ہیں؟ خود پاکستانی علماء ان ملکوں میں تشریف لے جاتے ہیں تو انہی مسلمانوں کے مہمان بنتے ہیں اور یہی گوشت تناول فرماتے ہیں۔ کیا فتویٰ دینے والے علماء نے سارے غیر مسلم ممالک کے ذبح خانوں کا معائنہ کیا ہے؟ کیا انہوں نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ گوشت درآمد کرنیوالے ملکوں (سعودی عرب، یو اے ای اور بہت سے دوسرے ممالک ) کے علماء سے اس ضمن میں مشورہ لیا جائے؟
علم اور تحقیق، اعداد وشمار اور حقائق، سائنس اور ٹیکنالوجی، تجربہ اور تجزیہ، بحث لیکن شائستگی سے، مباحثہ لیکن ذاتیات سے ماورا۔ یہ ہیں وہ بنیادیں جن پرترقی یافتہ ملکوں نے اپنی برتری کی بنیادیں کھڑی کیں۔ آہ وزاری اور شور وفغاں کرنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا نہ کوئی شارٹ کٹ ہے نہ کوئی پیشگوئی کام آ سکتی ہے۔ لائبریریاں اور یونیورسٹیاں، محنت اور سخت محنت دیانت اور وقت کی پابندی، یہ ہے وہ راستہ جس پر چلے بغیر چارہ نہیں۔ ترقی یافتہ اقوام اسی راستے پر چل کر منزل پر پہنچی ہیں اور ہمیں کہہ رہی ہیں …؎
وہ زلف ہے پریشاں ہم سب اُدھر چلے ہیں
تم بھی چلو کہ سارے آشفتہ سر چلے ہیں