پاکستان پیپلزپارٹی کی تاریخ جہاں ملک و قوم کے لئے سرانجام دئیے گئے کارناموں سے بھرپور ہے وہاں جمہوریت کے لئے پیپلزپارٹی کی قیادت اور کارکنان کی جانب سے دی جانے والی عظیم الشان قربانیاں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ پاکستان کی کوئی اور سیاسی جماعت نہ تو ایسا تابناک ماضی رکھتی ہے اور نہ کسی کے پاس پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالوں جیسے بہادر اور نڈر کارکن موجود ہیں۔
اسی طرح پاکستان پیپلزپارٹی کی تاریخ جہاں قیادت کی جانب سے دی جانے والی بے مثال قربانیوں سے بھری پڑی ہے وہاں پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے بھی پھانسیاں، کوڑے، تشدد اور قید و بند کو ہنس کر جھیلا ہے۔ کسی دوسری سیاسی جماعت کی قیادت اور کارکنوں کی جانب سے ایسی قربانیوں کی نظیر نہیں ملتی۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالے کارکنوں نے جرات و بہادری کی جو تاریخ رقم کی ہے اس چھوٹی سی تحریر میں اس کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ سیاسی تحریکوں میں کارکنوں کی جانب سے قید و بند کا سامنا کرنا تو ایک معمول کی بات سمجھی جاتی ہے لیکن پیپلزپارٹی واحد جماعت ہے جس کے کارکن نعرے لگاتے اور بھنگڑے ڈالتے ہوئے پھانسی کے پھندوں پر جھول گئے، پیپلزپارٹی ہی وہ واحد جماعت ہے جس کے کارکنوں نے خودسوزیاں کیں اور پروانوں کی طرح جل کر جماعت اور نظریے کے ساتھ اپنی محبت کا لازوال ثبوت دیا۔ شاہی قلعے میں بدترین تشدد اور کوڑے کھانے کی مثال بھی سوائے پیپلزپارٹی کےجیالوں کے کسی اور جماعت کے پاس نہیں ملے گی۔ وطن کی محبت، جمہوریت کی سربلندی اور اپنی جماعت سے وفاداری کے نتیجے میں قربانیاں پیش کرنے والے کارکنوں کی تعداد سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے۔
آج چھ اگست کا دن ہمیں پیپلزپارٹی کے دو عظیم جیالوں عثمان غنی اور ادریس طوطی کی اس عظیم الشان قربانی کی یاد دلاتا ہےجب چھ اگست 1984 کو اُس وقت کے بدترین آمر جنرل ضیا نے ان دو بہادر جیالوں کو بحالی جمہوریت کی جدوجہد کی پاداش میں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا تھا۔ پھانسی کے وقت عثمان غنی کی عمر صرف اکیس سال تھی۔ جنرل کے ایم عارف جو اس وقت شائد وائس چیف آف آرمی سٹاف تھے انہوں نے جنرل ضیا سے سفارش کی کہ کم عمری کی وجہ سے عثمان غنی کی سزائے موت کوعمر قید میں بدل دیا جائے لیکن آمر ضیا نے یہ کہہ کر اپنا فیصلہ بدلنے سے انکار کردیا کہ میں عثمان غنی کو نہیں بلکہ پیپلزپارٹی کو پھانسی پر چڑھا رہا ہوں۔ اس واقعہ کے تقریباً چار سال بعد اگست ہی کے مہینے میں آمر ضیا طیارے کے حادثے میں لقمہ اجل بن کر اپنے انجام کو پہنچ گیا، آج اس کا کوئی نام لیوا ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ آمر ضیا کے سیاسی وارث بھی آج اس کا نام لینا پسند نہیں کرتے لیکن پیپلزپارٹی آج بھی موجود ہے اسے نہ آمر ضیا پھانسی پر چڑھا سکا اور نہ اس کے بعد آنے والے اس کے سیاسی وارث یا آمر پھانسی چڑھا سکے۔
یہاں ان جیالوں کی پارٹی قیادت کے ساتھ بے لوث محبت کا ایک واقعہ بیان کئے بغیر ان شہدا کا ذکر مکمل نہیں ہو سکتا۔ عثمان غنی نے لواحقین سے اپنی آخری ملاقات میں سگریٹ کے پیکٹ کے اندر موجود چمکیلے کاغذوں سے بنا ہوا ایک تاج ان کے حوالےکیا اور وصیت کی کہ جب محترمہ بینظیر بھٹو جلاوطنی کے بعد وطن واپس آئیں اور پھر میری تعزیت کے لئے میرے گھر تشریف لائیں تو یہ تاج اُن کو پہنایا جائے۔ محترمہ بینظیر بھٹو جلاوطنی سے واپسی کے بعد جب عثمان غنی کے گھر تشریف لے گئیں تو عثمان غنی کی وصیت کے مطابق یہ تاج محترمہ بینظیر بھٹو کو پہنایا گیا۔
عثمان غنی پیپلزپارٹی لاہور کی بہادر جیالی شاہدہ جبیں کے بھائی جبکہ خواجہ معین الدین سید صدر ہیومن رائٹس ونگ یوکے جو کہ خودبھی آمر ضیا کے دور میں پاکستان بھر کی جیلوں میں پابند سلاسل رہے اور ہر طرح کی ظلم و بربریت کا سامنا کرتے رہے عثمان غنی اور شاہدہ جبیں کے برادر نسبتی ہیں۔ جمہوریت اور پارٹی کے لئے اس پورے خاندان کی قربانیاں پیپلزپارٹی کی تاریخ کا حصہ ہیں۔
چھ اگست کا دن جہاں ہمیں عثمان غنی اور ادریس طوطی کی عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے وہیں چھ اگست کا دن ہمیں ان شہدا کی قربانیوں کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی حکومت کی آمر ضیا کی باقیات کے ہاتھوں جبری برطرفی کی یاد بھی دلاتا ہے جب چھ اگست 1990 کو صدر غلام اسحاق خان نے بیک جنبش قلم محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی حکومت کو گھر بھیج کر ایک بارپھر آمر ضیا کی باقیات کے اقتدار کی راہ ہموار کر دی تھی۔
پاکستان پیپلزپارٹی کو قائم ہوئے پچاس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس دوران پیپلزپارٹی کو صرف چودہ پندرہ سال کا اقتدار حاصل ہو سکا جبکہ باقی تمام عرصہ پیپلزپارٹی یا تو آمروں کے خلاف جدوجہد کرتی رہی یا ان آمروں کی باقیات کے خلاف۔ پاکستان میں آج بری بھلی جیسی بھی جمہوریت موجود ہے وہ پیپلزپارٹی کی قیادت اور کارکنوں کی عظیم الشان قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے۔ ہر آمر نے پیپلزپارٹی کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن پیپلزپارٹی کے بہادر اور نڈر کارکن ہر دفعہ ان کوششوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت دو دفعہ چھین لی گئی لیکن پیپلزپارٹی کو ختم نہ کیا جا سکا۔ پیپلزپارٹی آج بھی بلوچستان کےسنگلاخ پہاڑوں، سندھ اور پنجاب کے صحراؤں اور میدانوں سے لے خیبرپختونخواہ کی بلند چوٹیوں اور میدانوں سے لے کر گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے برف پوش پہاڑوں اور دور دراز مقامات تک موجود ہے اور غیر جمہوری قوتوں کو کھٹک بھی رہی ہے۔
پیپلزپارٹی کا کارکن تمام تر مشکلات اور مصائب کے باوجود آج بھی پوری طاقت کے ساتھ اپنی جماعت اور نظریے کے ساتھ اسی طرح جڑا نظر آتا ہے جیسے 1967 میں پیپلزپارٹی کے قیام کے وقت جڑا تھا۔ پیپلزپارٹی آج بھی واحد سیاسی جماعت ہے جو ایک نظریے پر قائم ہے یہی وجہ ہے کہ تمام تر مشکلات اور دو دفعہ قیادت چھن جانے کے باوجود پیپلزپارٹی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ پیپلزپارٹی کا کارکن جانتا ہے کہ جمہوری اور نظریاتی جماعتوں کا راستہ آسان نہیں ہوتا کیونکہ مقابلہ میں موجود آمرانہ اور غیرجمہوری قوتوں کو ہر طرح کی ریاستی طاقت میسر ہوتی ہے جبکہ جمہوری اور نظریاتی جماعتوں کا واحد سہارا عوامی طاقت ہوتی ہے۔
لیفٹ کی سیاست اور لیفٹ کا راستہ آسان نہیں ہوتا یہ بات پیپلزپارٹی کی قیادت اور کارکنان بڑی اچھی طرح جانتے ہیں لیکن درست راستہ یہی ہے، یہ بات بھی قیادت اور کارکنان بڑی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی آمر کوڑوں، پھانسیوں، قید و بند اور ہر طرح کے ظلم و تشدد کے باوجود پیپلزپارٹی کی قیادت اور کارکنان کو شکست نہیں دے سکا اور ہر آزمائش سے پیپلزپارٹی سرخرو ہو کر ہی نکلی ہے۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...