میں کئی ایسے اشخاص سے واقف ہوں جو غیر مسلم ، غیر اردو پسمنظر سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان حضرات نے اردو شاعری کے عشق میں مبتلا ہو کر اردو پڑھنی لکھنی سیکھی. انہوں نے نہ صرف زبان پر سبقّت حاصل کی بلکہ اردو میں شاعری بھی کرنی شروع کر دی اور آج مقبول قسم کے شاعر ہیں . ہو سکتا ہے آپ بھی کچھ ایسے افراد کو جانتے ہوں
لیکن اگر آج میں آپکو ایک ایسے انسان کی کہانی سناؤں جو اسی قسم کے پسمنظر سے آتا ہے لیکن جس نے ابن صفی کے جاسوسی ناولس کے عشق میں مبتلا ہو کر اردو سیکھی – حروف ، الفاظ سے لیکر زبان تک –تو آپکو تھوڑا تعجب ہونا لازمی ہے ، یہ ایک غیر معمولی قسم کی بات ہو گی اور آپ شاید اس پر بہت آسانی سے یقین نہ کریں ، لیکن یہ سچ ہے ' اس انسان کا خواب تھا ابن صفی کے لکھے ہر لفظ کو اردو میں پڑھنا ' یوں تو وہ اس سب کو ترجمہ سے بھی پڑھ سکتا تھا لیکن وہ ابن صفی کی کتابوں کی بنیادی زبان کی لزت سے محروم نہیں ہونا چاہتا تھا
اس انساں کا نام ہے نریش کمار جانو. جانو کا تعلق جے پور سے ہے ، حال میں وہ انڈین فا رسٹ سروس کا رکن ہے ' اس کے والد دفاعی محکمہ میں افسر تھے، لیکن جانو کی کہانی محض اتنی سی نہیں ہے اور نہ اس قدر سادہ ہے ' اس نے نہ صرف اردو سیکھ کر ابن صفی کے لکھے ہر الفاظ کو پڑھ ڈالا بلکہ انکی تمام ناولس کو تلاش کر کر کے ایک ذاتی ذخیرہ بھی تعمیر کر ڈالا ' لیکن یہ کام اتنا آسان بھی نہیں تھا ' بلکہ بے انتہا مشکل اور پیچیدہ تھا لیکن جنون ہر مشکل کا ہل نکال لیتا ہے
جانو نے جس دور میں ہوش سمبھالا ابن صفی کی کتابیں کم سے کم ہندوستان میں تو چھپنی بند ہو گئی تھیں ، یہ دور ١٩٨٠ کی دہائی کا درمیانی حصہ تھا ' جب تک ابن صفی صاحب ہندوستان میں رہائش پزیر تھے ان کی کتابیں الاہاباد کے نکہت پبلیکیشن سے چھپتی تھیں ، بعد میں قاری حضرات کی تعداد کم ہو جانے اور خود ابن صفی صاحب کے پاکستان حجرت کر جانے کے بعد یہ کتابیں اردو میں الٰھآباد سے چھپنی بند ہو گئیں . خود ابن صفی صاحب کا پاکستان میں ١٩٨٠ میں انتقال ہو گیا اور آگے آنے والی پیڈھیاں ابن صفی کی تخلیقات سے محروم ہو گئیں.
آج سے ٣٠ -٣٥ پہلے کی بات ہے ، جانو کو ١٢-١٣ سال کی عمر میں کہیں سے کوئی 'جاسوسی دنیا' ہاتھ لگ گئی تھی ، تب وہ محض ایک لڑکا بھر تھا ' یہ کتاب ہندی میں تھی اور جانو اس سے لطف اندوز ہو رہا تھا ، بعد میں اس نے کئی اور جاسوسی دنیا کے ناولس ہندی میں پڑھے اور لطف اندوز ہوا لیکن تبھی اس کے بڑے بھائی کے کسی دوست نے اسے مشورہ دیا کہ اگر اسے واقعی میں ابن صفی سے لطف اندوز ہونا ہے تو وہ ان نا ولس کو اردو میں پڑھے ' ، جانو کے ذہن میں یہ بات کہیں بیٹھ گئی اور جانو نے اردو سیکھنی شروع کر دی، سیکھنے کے مرحلے بہت تیزی سے آگے بڑھے اور جانو نے حیرت انگیز سرعت سے اردو پر عبور حاصل کر لیا اور اردو میں ابن صفی کو پڑھنا شروع کر دیا ، اور پھر اس کے بعد کتابوں کو جمع کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ، جانو نے اردو کتابوں کی دکانوں کی خاک چھاننی شروع کی، سرکاری نوکری میں آنے کے بعد تو اس نے الٰھاباد کے درجنوں چکر لگاۓ، اردو کی پرانی کتابوں کی دکانوں پر پرانی بوسیدہ کتابوں کے ڈھیروں کو کھنگھالا ، کچھ کتابیں ملیں ، کچھ نہیں ملیں، کتابیں بھی زیادہ تر بوسیدہ حالت میں تھیں ، تشنگی بجھی نہیں، فہرست نامکمل رہی، لیکن جانو نے ارادہ پکّا کر رکھا تھا .
کچھ اور وقت گزرا، اور پھر کچھ مدد غائب سے آئ، انہی کرم فرماؤں نے جنہوں نے اسے ابن صفی کی راہ پر ڈال دیا تھا اور اب مدد کرنے کے مقام پر تھے انہوں نے مدد کی ، کتابیں لاھور کے اسرار پبلیکیشن سے آنی شروع ہوئیں ، یکے بعد دیگرے، سلسلہ جاری رہا اور آخرش ٢٠٠٩ کے اواخر تک جانو کے پاس ابن صفی کی تمام کتابوں کا مجموعہ ظہور پزیر ہو چکا تھا، اور اس طرح ایک خواب کی تعبیر مکممل ہوئی .
اسرار پبلیکیشن لاھور نے ابن صفی کے سارے ناولس –قریب ٢٥٠ سے زائد – الگ الگ نہیں چھا پے تھے بلکہ ایک جلد میں ٢-٣ ناولس تک چھاپے تھے ، اس طرح یہ ساری ناولس قریب ١٠٠ جلدوں میں چھپی ہیں، اور آج جانو انکا فخریہ مالک ہے – یہ ایک ایسا خزانہ ہے جس سے کوئی بھی ابن صفی مدّاح حاسد ہو سکتا ہے
ویسے تو میں جانو کو ذاتی طور سے سن ٢٠٠١ سے جانتا ہوں – تب وہ نوکری میں بلکل تازہ تھا ، بعد میں ہم دونوں نے ساتھ ساتھ بھی کام کیا لیکن تب ہماری گفتگو کبھی رسمی سطح سے اوپر نہیں بڑھ پائی ، میں نوکری سے سن ٢٠١٢ میں سبکدوش ہو گیا
جانو کی شخصیت کے اس پہلو کو جاننے کا موقع مجھے اپنی نوکری سے سبکدوشی کے بعد اتفاق سے ہی ملا، سن ٢٠١٣ میں میں آگرہ میں سارک لٹریچر فیسٹیول کے سلسلے میں گیا ہوا تھا اور چند گھنٹوں کے لئے مقامی فارسٹ گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرا ہوا تھا ، جانو ان دنوں آگرہ میں ہی ڈی ایف او تھا ، اور اس طرح اس کے ساتھ چند گھنٹوں کی ملاقات رہی ، اس بار گفتگو کی سطح غیر رسمی تھی اور اسی غیر رسمی گفتگو کے دوران جانو کے اس شوق کا علم ہوا ، چونکہ بچپن میں میں خود ابن صفی کی کتابوں کے ساتھ پلا بڑھا تھا اس لئے یہ ملاقات نہایت مسرت کا سبب بنی ' اور اس کے بعد میں اور جانو گفتگو کے دوران انھیں جاسوسی ناولس کے تذکرے میں غرق ہو گئے ، ابن صفی کے تخلیق کردہ تمام کردار – کرنل فریدی، کیپٹن حمید، عمران، جولیا، صفدر، چوہان، ایکس ٹو، راشدہ، انور، جوزف، فنچ، سنگ ہی، اور نہ جانے کتنوں – کے ذکر اور سحر کا لامحدود سلسلہ کچھ اس طرح شروع ہو گیا کہ کئی گھنٹوں کا وقت کافور کی مانند اڈ گیا .
ابتدا میں تو جانو کے جنون کی حد تک ابن صفی کی کتابوں سے لگاؤ اور کتابوں کے مجموعہ کے بارے میں یقین ہی نہیں ہو پا رہا تھا ' میں نے جانو سے کتابوں کے ذخیرے کو دیکھنے کے اشتیاق کا اظھار کیا ، لیکن وقت کی تنگی کی وجہ سے یہ ممکن نہ تھا ، بہر حال وعدہ ہوا کی آگرہ کے اگلے دورے کے دوران یہ کام بھی سر انجام ہو گا – جانو کے ایک طویل رسمی انٹرویو کے بارے میں بھی طے پایا گیا .
لیکن اس بیچ ہم دونوں ہی غم روزگار میں مبتلا رہے ، جانو کے کئی سرکاری تبادلے ہو گئے اور اسکے جائے مقام بدلتے رہے ، اور کچھ اس کی مشغولیت بھی رہی، اور اس طرح سے ابن صفی کے اس کے کتابوں کے مجموعہ کی زیارت اور اس کے انٹرویو میں محض ساڑھے پانچ سال کی تاخیر ہو گئی ، ہے نہ دلچسپ !
بہر حال آج اس صبح میں اس کے گھر پر حاضر تھا، جانو اس وقت گورکھپور میں تعینات ہے اور اس کی فیملی لکھنؤ میں ایک کشادہ سے اپارٹمنٹ میں رہتی ہے جسے اس نے بڑے ذوق و شوق سے اس طرح آراستہ کر رکھا ہے کہ کتابوں کے لئے مکمل گنجائش رہے، ویسے تو اسے تمام قسم کی کتابیں پڑھنے کا شوق ہے لیکن ابن صفی کی کتابوں کے مکمل مجموعہ سے رو بہ رو در پیش ہونا اپنے آپ میں ایک انوکھا تجربہ تھا ، اس طرح آج پھر اس صبح ایک بار ابن صفی کی کتابوں اور ان کے کرداروں کا ذکر چلتا رہا بہت لمبے وقت تک، میں نے جانو کا ایک غیر رسمی سا انٹرویو بھی لیا ، کتابوں کی تصویر کشی بھی کی، اور ایک چھوٹا سا ویڈیو بھی بنایا .
ابن صفی کی 'جاسوسی دنیا' کی کشش کو وہی سمجھ سکتے ہیں جو میری پیڑھی کے ہیں اور جنہوں نے ابن صفی کو پڑھا ہے، یہ ناولس جاسوسی ضرور تھے لیکن اس دور میں اردو جاننے والے معاشرے میں ایک صحتمند تفریح کا ذریعہ بھی تھے، ہم جیسے کتنوں نے تو صرف ابن صفی کو پڑھنے کے لئے اردو سیکھی تھی، لیکن یہاں ایک فرق ہے، میرا پسمنظر اردو والا تھا ، جانو نہ صرف میری بعد کی پیڑھی کا ہے بلکہ اس کا پسمنظر بھی مختلف غیر اردو والا ہے اس لئے اپنے اس شوق کے لئے اس کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے .
دلچسپ چیز یہ ہے کہ جانو نے اردو پر عبور حاصل کر لینے کے بعد اردو شاعری یا اردو ادب کی طرف کوئی خاص رجھان نہیں دکھایا ، جب میں نے اس سلسلے میں اس سے اپنے تجسس کا اظہار کیا، اس کا جواب بہت سٹیک اور سیدھا تھا " سر، مجھے ابن صفی کو اردو میں پڑھ کر جو لزت حاصل کرنی تھی کر لی اور ان کی کتابوں کا مجموعہ حاصل کرنا تھا سو کر لیا ، اور اس طرح میری زندگی کا یہ چھوٹا سا مشن پورا ہو گیا، مجھے اردو ادب یا شاعری سے صرف واجب بھر کا لگاؤ ہے حالانکہ اردو زبان سے مجھے بے انتہا محبّت ہے "
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...