اکتوبر کی تیسری صبح تھی جب تعمیلِ حکم کےلئے فرشتہ گھر میں داخل ہوا اور زندگی پروں کو پھڑپھڑاتی دریچے سے باہر نکل گئی۔ فاروق گیلانی اپنے پروردگار کے حضور پہنچ گئے۔ سب سے بے نیاز۔ جیسا کہ رومی نے کہا تھا ….
بروزِ مرگ چو تابوتِ من رواں باشد
گماں مبر کہ مرا فکرِ این و آن باشد
مرگ کے دن جب میرا تابوت جا رہا ہو گا تو یہ نہ سوچنا کہ مجھے اِدھر اُدھر کی فکر ہو گی۔
وہ اِس عصر میں اُن اہلِ کمال کی تصویر تھے جن کے گزرے زمانوں کو لوگ یاد کر کے حیران ہوتے ہیں۔ 36 سال سروس کے اعلیٰ عہدوں پر یوں رہے جیسے بتیس دانتوں میں زبان۔ تلوار کی طرح تیز اور کھرے۔ کتنی ہی دفعہ سزا کے طور پر او ایس ڈی بنائے گئے لیکن کبھی اتنی مصلحت کیشی بھی پسند نہ کی جسے بڑے بڑے صالحین بھی جائز سمجھتے ہیں۔ نصف درجن کے قریب کتابیں آغازِ جوانی ہی میں تصنیف کر چکے تھے۔ گفتگو ایسی کہ ادب اور تاریخ کا، دانش اور حکمت کا مرقع۔ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ انکے سامنے فارسی یا اردو کا کوئی مصرع یا قرآن پاک کی کسی آیت کا حصہ پڑھا گیا اور انہوں نے اسے مکمل نہ کر دیا۔ اردو اور انگریزی پر یکساں مہارت۔ خیال کو پوشاک پہنانے کا ارادہ کرتے تو لفظ غلاموں کی طرح حاضر ہونا شروع ہو جاتے۔
پشاور کے سرکاری تربیتی ادارے میں لیکچر دینے گئے تو معروف شاعر ڈاکٹر وحید احمد نے، جو وہاں تعینات تھے، بتایا کہ انہوں نے زیر تربیت افسروں کو مٹھی میں لے لیا۔ آج کے کئی سیاستدان اور قلم کار اُنکے بابِ دانش سے فیض یاب ہوئے لیکن گیلانی صاحب نے کبھی ذکر کیا نہ جتایا۔ استغنٰی کا یہ عالم تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کئی ساتھی بیورو کریٹ ”قندِ مکرر“ کےلئے دوڑ دھوپ میں لگ گئے لیکن فاروق گیلانی نے دامن جھاڑا، گھر کو روانہ ہو گئے اور پلٹ کر نہ دیکھا۔ کئی بار کہا کہ شاہ جی! اداروں کو آپ جیسے شخص کی ضرورت ہے۔ ہر بار ایک ہی بات کہتے ”لیکن اظہار بھائی! مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں“۔ شام کو اسلام آباد کلب میں دوستوں کی بزم برپا کرتے۔ جہاں بیٹھتے ملاقاتی آنا شروع ہو جاتے۔ ہر جا کہ رفت، خیمہ زد و بارگاہ ساخت! لامحدود دستر خوان۔ گھر ہو یا کلب۔ مہمانوں کا ہجوم۔ خود کم کھانے والے فاروق گیلانی کی وسعتِ قلب پر حیرت ہوتی۔ دوست تو دوست تھے، واقف کاروں کو بھی پکڑ کر لاتے اور ضیافتوں میں شریک کرتے۔
جب تک مکان زیرِ تعمیر رہا ہر ہفتے مزدوروں اور کاریگروں کی دعوت کرتے اور دوستوں کو بھی شریک کرتے۔ خوشحالی اللہ نے جتنی دی اُس سے زیادہ ہی خرچ کیا۔ اس میں رمق بھر مبالغہ نہیں کہ ہر قدم پر بٹوہ کھولتے اور خسروانہ بخشش کرتے۔ انکے جانے سے کتنے ہی ملازم، کتنے ہی دربان اور کتنے ہی سفید پوش سرپرستی سے محروم ہو گئے۔ مال کو بکری کی چھینک سمجھنے کا محاورہ پڑھا تو تھا لیکن خدا کی قسم! فاروق گیلانی کو دیکھنے اور انکے ساتھ رہنے سے سمجھ میں آیا۔
آسٹریلیا میں اُس وقت شام کا سرد دھندلکا پھیل رہا تھا جب سکائپ پر میرا بیٹا معاذ نمودار ہوا۔ اُس کا چہرہ دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا اور جب اس نے بتایا تو جو کیفیت ہوئی اُس کیفیت کا کوئی نام نہیں تھا۔ سکتہ نہ ہوش نہ بے ہوشی۔ ہر ہفتے طویل فون کرتے اور ہر بار واپسی کی تفصیل پوچھتے۔ دو سال پہلے جب بیٹے کے اصرار پر میں کچا پکا بیرون ملک منتقل ہوا تو سخت ناخوش تھے۔ چھ ماہ بعد واپس آیا تو ہر شام اکٹھی گذرتی اور جب بھی موقع ملتا باہر نہ جانے کی ترغیب دیتے۔ اب خبر ملی تو احساسِ جرم، صدمے کے علاوہ تھا۔ اُن کے گھر، ظاہر ہے، فون اٹھانے کا ہوش کسے ہونا تھا! مشترکہ دوستوں کو فون کرنے شروع کئے۔ آکہ وابستہ ہیں اس حُسن کی یادیں تجھ سے۔ ہارون الرشید فون اٹھا نہیں رہے تھے۔ پروفیسر معظم منہاس ملے تو بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہے تھے۔ اپنے گھر فون کیا تو حسان سسکیاں بھر رہا تھا۔ پھر دوستوں کی میلز آنا شروع ہو گئیں۔ جاوید علی خان نے لکھا کہ اسلام آباد اب کبھی پہلے جیسا نہیں ہو گا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے سعید صاحب نے اطلاع دی۔ یہ سانحہ ہر شخص کے لئے ذاتی المیہ تھا۔
نماز کی پابندی تو تھی ہی، نمازِ باجماعت کی حرص شدید تھی۔ یہ فقرہ آج بھی میرے کانوں میں گونج رہا ہے ”اظہار بھائی! جماعت کے ساتھ پڑھنے میں پچیس گنا زیادہ ثواب ہے“۔ اسلام آباد کلب کے اندر گراﺅنڈ فلور پر مردوں کےلئے اور بالائی منزل پر خواتین کےلئے نماز کی جگہ بنوائی۔ بیٹیوں کو پڑھاتے تو سبھی ہیں انہوں نے تربیت بھی کی۔ تینوں کو انگریزی ادب میں ماسٹر کرایا اور نماز کا پابند بھی بنایا۔ مدتوں پہلے میں نے مریم کا کالم پڑھا اور مبارک دی تو فون نمبر لکھایا کہ بھتیجی کو خود مبارک دو۔ پھر وہ سول سروس کے لئے منتخب ہو گئی۔ ریلوے میں سیاسی اور ذاتی بنیادوں پر بھرتی کی کوشش ہوئی تو مریم متعلقہ شعبے کی انچارج تھی۔ پہاڑ کی طرح رکاوٹ بن گئی۔ اکثریت۔ مجھ سمیت۔ اپنے بچوں کےلئے گوشہ عافیت تلاش کرتی ہے لیکن فاروق گیلانی نے بیٹی کو ڈٹ جانے کےلئے کہا۔ وہ دن سخت آزمائش اور ابتلا کے تھے۔ معطلی ہوئی۔ پھر برطرفی ہو گئی۔ گیلانی صاحب ایک لمحہ کےلئے بھی پریشان نہ ہوئے۔ ایک ہی بات زبان پر رہتی تھی کہ انشاءاللہ آخر کار مریم کی جیت ہو گی۔ اسعد گیلانی کی پوتی اور فاروق گیلانی کی بیٹی نے عدالت اور ٹریبونل میں اپنے مقدمے کی پیروی زیادہ تر خود کی۔ دھمکیاں ملیں تو سید زادی نے بندوق چلانا سیکھ لی۔ آخر کار اس کا موقف درست مان کر اُسے بحال کر دیا گیا۔ چند ہفتے پیشتر گیلانی صاحب نے فون کر کے بتایا۔ مبارک دی تو مسلسل اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے۔
اپنی شریکِ حیات کےساتھ فاروق گیلانی کا سلوک دیکھ کر وہ حدیث مبارکہ یاد آ جاتی تھی کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کےساتھ اچھا ہے۔ فرزانہ بھابھی کےساتھ جو تعلق تھا وہ شرکتِ حیات اور دوستی سے کہیں آگے کا تھا۔ سفر و حضر میں اکٹھے رہے۔ ہمیشہ اکٹھے۔ ملک میں بھی اور بیرون ملک بھی۔ کسی ضروری کام سے تھوڑی دیر کےلئے بھی کراچی لاہور یا پشاور جانا ہوتا تب بھی اکیلے نہ جاتے۔ سب کچھ خواب و خیال ہو گیا ….
خوش بود لبِ آب و گُل و سبزہ و نسرین
افسوس کہ آن گنجِ روان رہگذری بود
فاروق گیلانی پکے اور سچے پاکستانی تھے۔ پاکستان کی بقا پر پختہ یقین تھا۔ ہم کئی دوست بلوچستان کے حالات سے پریشان ہو کر وسوسوں کا شکار ہوتے اور ہمیں مشرقی پاکستان کا حادثہ یاد آ تا تو گیلانی صاحب دلائل کا انبار لگا کر ثابت کرتے کہ مشرقی پاکستان کے ساتھ تطابق غیر منطقی ہے۔ انہیں سیاسی حرکیات کا قابل رشک ادراک تھا۔اور اسے پیش کرنے کا اس سے بھی زیادہ قابل رشک فن رکھتے تھے۔ وہ اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا حیرت انگیز حوصلہ رکھتے تھے۔ سخت پابند صوم و صلوٰۃ ہونے کے باوجود ان کے قریبی حلقئہ احباب میں دوسرے مذہب اور دوسرے مسالک رکھنے والے احباب شامل تھے اور مہمان نوازی، قربت اور محبت ان کے ساتھ بھی غیر مشروط تھی۔
اسلام آباد میں دو قبرستان ہیں۔ ایک میں میرے والد گرامی اور میرا چار ماہ کا بیٹامحو استراحت ہیں ۔ اب دوسرے میں فاروق گیلانی نے ڈیرہ ڈال لیا ہے۔ وہ ہر روز فون کرکے پوچھتے اظہار بھائی کلب کس وقت آرہے ہیں؟ مجھے لگتا ہے اب بھی پوچھیں گے اظہار بھائی آج میرے پاس چکر لگائیں گے؟ شاہ جی آپ چھ ماہ فون کر کر کے واپسی کاپوچھتے رہے ۔اور واپسی سے چودہ دن پہلے خود وہاں چلے گئے جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ آپ نے خوب سزا دی۔
اِذا زُرتُ ارضاَ َ بعدَ طولِ اجتنابا بہا
فَقدتُ صَدیقی و البلادُ کما ھیا
میں طویل غیر حاضری کے بعد وطن واپس آیا تو شہر تو وہی تھے لیکن میرا دوست غائب تھا۔
وہی مکاں وہی گلیاں مگر وہ لوگ نہیں
یہی مراد تو ہے بستیاں اجڑنے سے
فاروق گیلانی چلے گئے۔ ہائے صادق نسیم مرحوم کا شعر یاد آ رہا ہے ….
وہ میرا شعلہ جبیں موجہ ہوا کی طرح
دیے بجھا بھی گیا اور دیے جلا بھی گیا