(وہ میرا شہر نہ تھا)
سیالکوٹ میں جنم لینے والے امن دوست بھارتی صحافی و سفارت کار کلدیپ نائر نہیں رہے، انہوں نے اپنی جنم بھومی شہر کے بارے میں Distant Neighbour میں لکھا ہے کہ مارچ 1972 میں، میں پاکستان کے شہر اور اپنی جنم بھومی سیالکوٹ میں تھا۔ میں پچیس سال پہلے ریفیوجی ٹرک میں بیٹھ کر سیالکوٹ سے نکلا تھا مگر پچیس سال بعد میں صدر کے مہمان کی حثیت سے سرکاری کار میں سیالکوٹ پہنچا۔ یہ شہر کچھ زیادہ نہیں بدلا۔ لڑکے بالے اب دیواروں سے ٹیک لگائے تماشائے اہل دنیا دیکھتے ہیں بلکل میری طرح، میں گھنٹوں یوں ہی کیا کرتا تھا وہ سکول جس میں پڑھتا تھا اب لڑکیوں کا سکول بن گیا ہے کالج جوں کا توں ہے سارا عملہ بدل گیا مگر وہ برسوں پہلے لنگڑاتا چپراسی اب بھی کالج میں کام کرتا ہے۔ بھارتی فضائیہ نے ریلوے اسٹیشن کو بہت نقصان پہنچایا۔ میں اپنا گھر دیکھنے گیا اس میں کوئی تبدیلی نظر نہ آئی۔ اب یہاں دلی کے کوئی مہاجر آباد ہیں مجھے گھر کے اندر داخل ہونے کی شدید خواہش نے آن لیا، مگر نئے لوگوں کی پرائیویسی کا احساس کر کے میں باز رہا۔ ہمارے گھر کے پیچھے ایک مسلمان بزرگ کا مزار تھا۔ ہر جمعرات کو یہاں پھول چڑھاتے ہیں اور چراغ روشن کرتے تھے۔ اب یہ کسمپرسی کے عالم میں پڑا تھا کوئی جان نہ پہچان، یکایک ایک بوڑھے آدمی نے مجھے روک لیا۔ وہ کہنے لگا تم فلاں ابن فلاں ہو اور میرے جواب کا انتظار کئے بغیر وہ مجھ سے بغل گیر ہو گیا اس کی آنکھوں نے مجھے آنسوؤں کا ہار پہنا دیاوہ بولا۔ تم مجھے چاچا کہا کرتے تھے تمہیں یاد ہے نا ؟
میری یاد دھندلا گئی تھی پچیس برس تک تو ایک مدت ہوتی ہے میں اس کی یادداشت پر حیران رہ گیا یہ سن کر کہ کوئی ہندو آیا ہے۔ اس وقت تک وہ بہت سے لوگ جمع ہو گئے تھے وہ ٹکڑیوں میں بٹے مجھے معاندانہ نہیں بلکہ متجسانہ نگاہوں سے گھور رہے تھے مجھے وہ سب اجنبی لگے۔ مجھ میں یکایک اجنبیت کا احساس پیدا ہو گیا۔ مجھے وہ شہر اجنبی سا لگا۔ وہ میرا شہر نہ تھا۔ شہر اینٹ اور گارے سے کا نہیں لوگوں کا مرہون منت ہوتا ہے مجھے شناسا چہرے دکھائی نہ دئیے۔ مانوس آوازیں سنائی نہ دیں میں وہاں پچیس منٹ سے زیادہ نہ ٹھہر سکا باوجود اس کے کہ میں پچیس برس تک وہ پچیس برس جو ایک مدت ہوتی ہے یہاں آنے کے خواب دیکھتا رہا۔
نوٹ: جس مزار کا ذکر انہوں نے کیا ہے اسکے بارے میں انہوں نے ایک بار اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ میں کسی ماورائی ہستی کا قائل نہیں مگر جب میں اندرا گاندھی کی ایمر جنسی کے خلاف جیل میں تھا تو مجھے خواب میں ایک نورانی ہستی نظر آئی میں نے پوچھا آپ کون ہیں تو انہوں نے بتایا کہ میں سیالکوٹ میں ٹرنک بازار والے مکان میں مدفون وہ ہستی ہوں جہاں آپ کی والدہ ہر جمعرات کو اگربتیاں جلایا کرتی تھیں اور بچوں میں مٹھائی تقسیم کیا کرتی تھیں میں آپ کو اس مشکل میں حوصلہ دینے آیا ہوں کہ پریشان نہ ہوں۔ کلدیپ نائر لکھتے ہیں اس کے بعد زندگی کے کئی مشکل مراحل میں میں نے ان کو اپنے قریب محسوس کیا کہ وہ مجھے حوصلہ دے رہے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔