پندرہ دسمبر کی بھیانک ترین رات پھر سےآگئی۔ وہ خنک رُت، وہی گولیوں کی ترتراہٹ، وہی ماتم، وہی بین، وہی گریہ اور اُس کے بعد وہی دل دہلا دینے والا سناٹا۔ ۔۔۔”دسمبر مجھے راس آتا نہیں ” ایک بھائی کے لیے ایک بھائی کی موت اور وہ بھی اتنی اچانک ۔۔۔ یقیناً ایک کربِ نا تمام ہے۔ اور ایک ایسا زخم ہے جسے وقت کا مرہم بھی مندمل نہیں کر پایا۔
وہ میرا ناصر۔ ۔۔جسے سب علامہ ناصر عباس کے نام سے جانتے ہیں ، کتنا خوش بخت تھا کہ چالیس سال چار مہینے اور چار دن(4+4+4=12) کی مختصر مدتِ حیات میں ذکرِ امام حسین ؑ کی برکت سے وہ شہرتِ عام و بقائے دوام پائی کی کہ جس کے لیے دوسرے سو سو برس کی ریاضت کے باوجود ایسی مثالی عزت و عظمت کی حسرت لیے پیوندِ خاک ہو جاتے ہیں ۔
پاکستان ٹیلی ویژن پر مجلسِ شبِ عاشور و دیگر قومی چینلز سے مجالسِ شامِ غریباں پڑھنا کسی کم اعزاز کی بات نہیں ۔دنیا کا وہ کون سا خطہ ہے جہاں علامہ ناصر عباس کی آواز نے اپنا سحر طاری نہیں کیا۔ ولایت علیؑ رکھنے والی کون سی بستی ہے جہاں ناصر عباس نہیں بستا۔غمِ حسینؑ سے مستفید ہر طبقہ اُنہیں ہر وقت سنتا ہے اور اپنے قلوب کو مودّتِ محمدؐ و ال محمدؐ سے منور کرتا ہے۔ سوشل میڈیا پہ ہزاروں کی تعداد میں گردش کرتے ہوئے اُن کے خطابات (اور ہرمجلس ایک اچھوتا رنگ لیے ہوئے) اُن کے ہر دل عزیز ہونے کا بیّن ثبوت ہیں ۔
پیکرِ خلوص و محبت علامہ ناصر عباس کی پوری زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح میرے سامنے ہے۔ وہ سب سے پیار کرنے والا اور اِسی لیے سب کو دل سے پیارا بھی! وہ ہر ایک سے پوری چاہت اور خلوص سے ملتا، اور ایسا ملتا کہ دل میں گھر کر جاتا۔ سادگی، بلند حوصلگی اور ملنگانہ مزاجی اُس کی شخصیت کا خاصہ تھی۔ عشقِ محمدؐ و آل محمدؐ اس کی زندگی تھا جو خون کی طرح اس کی رگوں میں دوڑتا تھا۔ بقول سید عقیل محسن نقوی” وہ خوش خرام بلا کا تیز خرام بھی تھا جو جلد اپنا سفر طے کرکے اپنی منزل پا گیا۔
پندرہ دسمبر کی رات نفرتوں کے بارود سے لبریز گولیوں نے خدا خبر کتنے دلوں کو زخمی اور نہ جانے کتنے چہروں کو اُداس کیا ہے۔
ناصر عباس ۔۔۔ایک ماں کا لختِ جگر تھا ۔جس کے جانے کے بعد والدہ جس کرب سے گزر رہی ہے وہ کچھ اُسی کا حوصلہ ہے۔ جس کے جگر پہ لگے ہوئے زخم ناسور بن کر ایک موذی بیماری کے روپ میں ظاہر ہوئے ۔اندر ہی اندر زخموں سے چور چور ماں کراہتے ہوئے زندگی کے مقررہ دن کاٹ رہی ہے ۔
ناصر ایک بیوی کا شوہر تھا ، جس کی بیوہ اُس کی واپسی کا راستہ دیکھتے دیکھتے یوں لگتا ہے جیسے پتھرا سی گئی ہو۔ ذمہ داریوں کا ایسا شدید بوجھ کہ پہاڑ کے قدم بھی لڑکھڑا جائیں ۔خدا اُسے حوصلہ استقامت اور صبرِ جمیل عطا فرمائے ۔
ناصر عباس ایک باپ ۔۔اور وہ بھی ایک نہیں بلکہ چھ بیٹیوں اور ایک کمسن بیٹے کا۔
چھوٹی بیٹی کی عمر تو باپ کی شہادت کے وقت صرف بیس دن تھی ۔وہ تو یہ جان ہی نہیں پائی کہ باپ کا پیار کہتے کسے ہیں ؟ چھوٹا بیٹا حسین ناصر عباس بھی اُس وقت تین سال کا تھا ۔اُسے اتنا تو یاد ہے کہ میں باپ کے سینے پہ لیٹا، پاپا نے اُنگلیوں سے میرے بال سنوارے، میرا ماتھا چوما اور آخری بار گھر سے جاتے ہوئے مجھے اُٹھا کر ندیم سرور کے نوحے کا یہ مصرعہ دہرایا۔
ع ۔ ۔ ساری دنیا حسینؑ حسینؑ کرے
اس کے بعد گاڑی میں بیٹھے اور ایسے سفر پہ چلے گئے جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی!!
ناصر چھ بیٹیوں کا باپ بھی تھا۔ جن کی تعلیم و تربیت کے لیے ملتان کے سب سے بڑے اسکول کا انتخاب کیا گیا۔ اُن کی ہر ضرورت کا خیال رکھا، مقامات مقدسہ پہ اُن سب کو لے گئے،اور نا جانے اُن کی مستقبل کے حوالے سے کیسے کیسے خواب اُس کی آنکھوں نے دیکھ رکھے تھے۔
ناصر عباس ایک بھائی بھی تھا ،اور ایسا کہ خدا ہر ایک کو ایسا نصیب کرے۔بھائ اور بہنوں کے لیے یوں کہ اُس کے ہوتے ہوئے باپ کے جانے کے بعد یتیمی کا ذرہ بھر بھی احساس نہ ہوا۔ اُس کے جانے کے بعد بہنوں کے دل کی کیا حالت ہے یہ تو وہی جانتی ہیں البتہ مجھ کم نصیب بھائی کی حالت بالکل ایسی ہے جیسے ٹوٹی ہوئ قبر پہ جلتا بجھتا چراغ ! !
اے نفرتوں سے لبریز درندو! تمہیں کیا خبر کہ تم نے کیسا چراغ گل کر دیا۔ علامہ ناصر عباس پیکر خلوص و محبت سفیرِ ولا و عزا تھا ۔اُس کے لفظ لفظ سے علم و آگہی کی قندیلیں روشن ہوتی تھیں۔ اُس کی آواز اُس کا لہجہ محبتیں تقسیم کرتا تھا ۔وہ بولتا تو یوں لگتا جیسے میثمِ تمار فرازِ دار سے گویا ہے۔
اے نفرتوں سے لبریز درندو! تم سمجھتے ہو کہ تمہاری چند گولیوں نے آواز حقہ کو خاموش کر دیا؟ نہیں نہیں یہ تمہاری بھول ہے۔ وہ ایک ایسا آئینہ کہ جب ایک تھا تو لاکھوں اعدا پہ بھاری ، اور جب کرچی کرچی ہو کے چہار سو بکھرا ہے تو اب اُس کی آواز قوم کی آواز بن گئی ہے ۔
اے نفرتوں سے لبریز درندو!
چھلنی اگر کرو گے یہاں کہکشاں سے لوگ
دنیا بسانے آئیں گے کیا آسماں سے لوگ؟
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...