وہ میرا خیال نہیں رکھتی!
’’میں اپنی بیوی کو طلاق دے رہا ہوں‘‘۔۔۔مقبول صاحب نے پہلی بار یہ بات مجھ سے کی تو میں چونک اٹھا۔مجھے اندازہ نہیں تھا کہ حالات اِس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔لیکن اُن کے لہجے سے صاف اندازہ ہورہا تھا کہ وہ واقعی حتمی فیصلہ کرچکے ہیں۔میں کسی کے گھریلومعاملات میں دخل اندازی کے خلاف ہوں لیکن چونکہ بات خود انہوں نے شروع کی تھی اس لیے میں نے نہایت محتاط انداز میں پوچھا کہ وجہ کیا ہے؟۔ انہوں نے ایک نہیں کئی وجوہات گنوا دیں۔ مثلاً یہ کہ جب میں دفتر سے تھکا ہارا گھر آتا ہوں تو وہ مجھ سے کہتی ہے کہ ہمیں کہیں باہر گھمانے لے کر جائیں۔ انکار کرو ں تو منہ بنا کر بیٹھ جاتی ہے۔ بچوں کو بلاوجہ ڈانٹتی رہتی ہے۔میں گھر کے لیے فروٹ بھی خود سے خرید کرلاؤں تو اُس میں سے سو سو نقص نکالتی ہے۔کھانا انتہائی بدمزہ بناتی ہے۔گھر میں ہر وقت ایک لڑائی کی کیفیت طاری کیے رہتی ہے۔حالانکہ بیڈ روم میں ہر وقت اے سی چلتا رہتا پھر بھی اُس کا چڑچڑا پن ختم ہونے کو نہیں آتا۔‘‘ میں نے گہری سانس لی۔ ’’وجوہات تو واقعی بڑی ٹھوس ہیں‘ یہ بتائیے کہ ایسے معاملات کو دیکھ کر یقیناًآپ کو غصہ آتا ہوگا؟‘‘۔ وہ تلملائے’’ظاہری بات ہے، میں اتنی گرمی اور حبس میں گھر آتا ہوں تو سکون نام کی کوئی چیز نہیں ملتی‘ زچ ہو کر کئی دفعہ کھانا کھائے بغیر باہر نکل جاتاہوں‘‘۔میں سیدھا ہوا’’اوہو! پھر تو آپ بھوکے رہ جاتے ہوں گے؟‘‘۔ انہوں نے پیر پھیلائے’’نہیں! باہر کسی ہوٹل سے کھالیتا ہوں یا کسی دوست کے پاس چلا جاتا ہوں۔‘‘میں نے سرہلایا’’ظاہری بات ہے بندے نے بھوکا تو نہیں مرنا ‘ یہ فرمائیے کہ جب آپ اپنی اہلیہ سے لڑتے ہیں اور کھانا کھائے بغیر چلے جاتے ہیں تو وہ کہاں سے کھانا کھاتی ہیں؟‘‘۔ مقبول صاحب ہڑبڑائے’’کیا مطلب؟ وہ گھر میں ہی ہوتی ہے‘ گھر کا ہی کھانا کھاتی ہے اُس نے بھلا کہاں جانا ہے؟‘‘میں نے اُن کی طرف غور سے دیکھا’’اس کا مطلب ہے کھانا اچھا نہ بنے تو آپ کو یہ سہولت ہے کہ آپ باہر جاکر کھاسکتے ہیں؟‘‘وہ ایک لمحے میں بات سمجھ گئے اور پہلو بدلا’’دیکھئے میں کون سا اپنی مرضی سے باہر جاتاہوں، گھر کا ماحول اور اُس کی بدتمیزی مجھے باہر جانے پر مجبور کرتی ہے۔‘‘ میں نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی’’بالکل ٹھیک کہا‘ اچھا یہ بتائیے کہ آپ کی ڈریسنگ بڑی اچھی ہوتی ہے‘ شرٹ‘ ٹائی ‘ پینٹ پہنتے ہیں اور جتنی بھی گرمی ہو جرابوں کے ساتھ بوٹ پہنتے ہیں ‘ آپ کو اِس موسم میں الجھن نہیں ہوتی؟‘‘۔ وہ ہنس پڑے’’یہ کیا سوال ہے‘ آپ جانتے ہیں کہ الحمدللہ گاڑی کا اے سی بھی بہت اچھا ہے اور میرا دفتر بھی سنٹرلی ایئرکنڈیشنڈ ہے۔‘‘ میں بھی مسکرایا’’اچھا یہ بتائیے آپ آفس کے ڈریس میں کتنی دیردھوپ میں کھڑے ہوسکتے ہیں؟‘‘ وہ بوکھلائے’’دھوپ میں ؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ ایک منٹ بھی نہیں کھڑا ہوسکتا۔‘‘میں نے کچھ آسانی پیدا کی’’چلیں اگر آپ کو نارمل سا ٹراؤژر اور ٹی شرٹ پہنا دی جائے اور پیروں میں چپل ہو‘ پھر آپ کتنی دیر دھوپ میں رہ سکتے ہیں؟‘‘۔ وہ چلا اٹھے’’یہ آپ کیوں مجھے دھوپ میں کھڑا کرنے پر تلے ہوئے ہیں، بھائی صاحب اس موسم میں تو سادہ کمرے میں بیٹھنا محال ہے آپ دھوپ کی بات کرتے ہیں۔‘‘میں ہنس پڑا’’چلیں دھوپ کو چھوڑتے ہیں، یہ بتائیں آپ ہیٹر کے سامنے بیٹھ سکتے ہیں؟‘‘۔ اُن کا بے اختیار قہقہہ نکل گیا’’ہاں سردیوں میں پورا دن بیٹھ سکتا ہوں لیکن اِن دِنوں تو ہیٹر کانام سن کر بھی پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔‘‘ میں نے تیسری آپشن پیش کی’’چلیں ہیٹر بھی رہنے دیں‘ اگر ایک چھوٹے سے کمرے کے ایک کونے میں آگ جلادیں تو وہاں آپ موجودہ موسم میں کتنی دیر بیٹھ پائیں گے؟‘‘۔مقبول صاحب جھنجھلا گئے’’آپ کیوں مجھے زندہ جلانے پر تلے ہوئے ہیں‘ ظاہری بات ہے چھوٹے سے کمرے میں آگ جل رہی ہوتی تو اِس موسم میں تو وہ کمرہ تندور بنا ہوا ہوگا، یہاں کوئی پاگل ہی رہ سکتا ہے‘‘۔
’’درست فرمایا۔۔۔ہماری بیویاں ہی وہ پاگل ہیں جو ایسے موسم میں بھی کچن جیسے چھوٹے کمرے میں ہمارے لیے کھانا تیار کرتی ہیں‘ چائے بناتی ہیں‘ روٹیاں پکاتی ہیں اورٹھنڈے کمروں میں ہمارے سامنے لاکر پیش کرتی ہیں۔یہ دن میں تین دفعہ باقاعدہ اس جہنم نما کمرے میں ایک ایک گھنٹے سے زائد گذارتی ہیں۔اس دوران اِن سے کبھی غلطی سے نمک بھی زیادہ ڈل جاتاہے‘ مرچوں کے تناسب میں بھی کمی بیشی ہوجاتی ہے لیکن یہ اپنا کام ادھورا نہیں چھوڑتیں۔بچے اکثر تین ٹائم کے علاوہ بھی نوڈلز ٹائپ کھانے کی کوئی ایسی فرمائش کردیتے ہیں جو صرف کچن میں ہی تیار ہوسکتی ہیں۔ یہ اُن کو بھی مایوس نہیں کرتیں۔شام کو جب ہم تھکے ہارے گھر آتے ہیں تو یہ ہم سے زیادہ تھکی ہوئی ہوتی ہیں لیکن اِس اُمید پر سارا دن گذارتی ہیں کہ شام کو جب شوہر واپس آئیں گے تو اُن کے ساتھ چند لمحات گھر کے باہر کی فضا میں گذارنے کا موقع ملے گا‘ تھوڑی تبدیلی مل جائے گی۔ لیکن ہم نے چونکہ اِن کو دن کے وقت کچن کی آگ کے سامنے جھلستے نہیں دیکھا ہوتا اس لیے ہمیں لگتاہے کہ چونکہ گھرمیں اے سی چل رہا تھا لہذا یہ سارا وقت اے سی ہی میں بیٹھی رہتی ہیں۔ رہی بات آپ کی خریدی ہوئی چیزوں میں سے نقص نکالنے کی ۔۔۔تو محترم!یاد کیجئے ۔۔۔جو فروٹ ہم گھر کے لیے لاتے ہیں اُس میں سے ہم اور ہمارے بچے کتنا کھاتے ہیں اور ہماری بیویاں کتنا؟ یہ بیچاری اس لیے نقص نکالتی ہیں کہ گلے سڑے پھل کھا کر اِن کے بچے یا بچوں کا باپ نہ بیمار پڑ جائے۔گھر میں لڑائی کی کیفیت اس لیے بھی ہوتی ہے کہ ہم باہر کی دنیا کے لیے نہایت میٹھے اور ہنس مُکھ بنے رہتے ہیں لیکن گھر میں داخل ہوتے ہی ہماری ہیبت جاگ اٹھتی ہے کیونکہ طے پاچکا ہے کہ صرف بیوی کا کام ہی شوہر کو خوش رکھنا ہے۔ہمیں گرمی لگے تو ہم تڑپ اٹھتے ہیں‘ کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں لیکن بیویاں کچن میں آگ کے سرہانے کھڑی رہ کر ہماری پیٹ پوجا کا انتظام کریں تو پھر بھی ہماری خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے لہجے کا میٹھا پن برقرار رکھیں۔ ہم اے سی والی گاڑی سے اتر کر اے سی والے دفتر میں بیٹھتے ہیں‘ واپسی پر گھر کے اے سی والے کمرے میں آکر لیٹ جاتے ہیں پھر بھی ہمارے مزاج ٹھنڈے کیوں نہیں ہوتے؟جب ہم گھر کا کھانا چھوڑ کر ہوٹل میں یا دوستوں کے گھر جاکر پیٹ کی بھوک مٹاتے ہیں تو وہاں بھی کھانے میں ہزار نقص ہوتے ہوں گے لیکن وہ ہمیں کیوں قابل قبول ہوتے ہیں؟صرف اس لیے کہ تب ہمیں پتا ہوتا ہے کہ یہاں کوئی دادا گیری نہیں چلے گی۔‘‘
مقبول صاحب دم بخود میری ساری باتیں سنتے رہے۔ اُن کی آنکھوں میں ہلکی ہلکی سی نمی آگئی تھی۔ میں نے شکر ادا کیا کہ عین موقع پر وہ بات سمجھ گئے تھے۔ تاہم ایک ہفتے بعد اطلاع ملی کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کو طلاق دے کر اپنے دفتر کی کسی کولیگ سے شادی کرلی ہے۔میں نے بڑا سوچا کہ مقبول صاحب نے ایسا کیوں کیا؟ ایک ہی وجہ سمجھ میں آئی کہ وہ چونکہ کولیگ سے شادی کا ارادہ کرچکے تھے لہذا انہیں کوئی بہانہ درکار تھا۔ انہوں نے ایک کی بجائے کئی بہانے تراشے اور پھر عمل کرگذرے۔ اُن کی دوسری شادی کو ڈیڑھ سال کا عرصہ گذر چکا ہے۔ اس عرصے میں اُن سے بہت کم ملاقاتیں رہیں۔ کل وہ اچانک رات کے 9 بجے بغیر اطلاع تشریف لے آئے۔ بڑے خوش نظر آرہے تھے۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھتے ہی بے تکلفی سے بولے’’یار باقی باتیں بعد میں‘ بھوک بہت لگی ہے‘ جو بھی پکا ہے لے آؤ۔۔۔!!!‘‘
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔