وہ محسوس کریں گے کہ کیا ہوا ہے
ترکی میں روس کے سفیر آندرے کارلوو کو انقرہ میں قتل کیے جانے کے بعد روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے کریملن میں روس کے وزیر برائے امور خارجہ سرگئی لاوروو، بیرون ملک جاسوسی کے محکمے کے سربراہ سرگئی ناریشکین اور ملک کی خفیہ ایجنسی فے ایس بے (ایف ایس بی) کے سربراہ الیکساندر ناریشکین سے ملاقات کی اور یقینی بنایا کہ دہشت گردوں کو اس بہیمانہ دہشت گردی کی پاداش میں دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں شدت کا لازمی طور پر احساس ہونا چاہیے۔
انہوں نے مارے جانے والے سفارت کار آندرے کارلوو کے اعزاء و اقرباء کے ساتھ گہرے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ،"وہ ایک جہد والے عہدے پر فائز ہوتے ہوئے اس جہان سے گئے ہیں، اس کا جواب ایک ہی ہو سکتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی شدید کر دی جائے اور ان غنڈوں کا اس کی شدت محسوس ہونی چاہیے۔
صدر مملکت نے بتایا کہ ایک بین الشعبہ جاتی ورکنگ گروپ تشکیل دے دیا گیا ہے جو ترک حکام کا تفتیش میں ہاتھ بٹانے کی خاطر انقرہ جائے گا، انہوں نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان سے ٹیلفون پر ہوئے سمجھوتے کا حوالہ دیا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ حکومت روس جاننا چاہے گی کہ اس بہیمانہ دہشت گردی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔
منگل کے روز ماسکو میں روس، ترکی اور ایران کے وزرائے خارجہ کی پہلے سے طے شدہ ملاقات میں روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروو نے صدر مملکت کے کہے الفاظ دہرائے۔
اگرچہ ترکی کے حکومتی حلقوں میں مبینہ قاتل پولیس کے اہلکار میولود میرت الطنطاش کا تعلق گیولن تحریک سے جوڑا جا رہا ہے لیکن روس کے حساس شعبے شبہ ظاہر کر رہے ہیں کہ قاتل، جسے موقع پر ہلاک کر دیا گیا تھا کا تعلق جبہۃ النصرہ سے ہو سکتا ہے جسے ترکی میں جبہہ فتح شام کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس شک کا اظہار قتل کے بعد قاتل کی جانب سے لگائے گئے نعروں کی بنا پرکیا جا رہا ہے تاہم روس کی مستعد حساس ایجنسیاں جلد ہی معلوم کر لیں گی کہ قاتل کا کس تنظیم کے ساتھ تعلق تھا۔ مغربی ترکی کے ایک شہر سے تفتیش کے ضمن میں قاتل کے والدین اور بہن کو ترک حکام نے حراست میں لے لیا ہے۔
شام کے بحران کے حل میں پیش پیش روس کے سفارت کار آندرے کارلوو کا قتل کسی بین الاقوامی جھگڑے کا سبب نہیں بن سکتا کیونکہ اقوام متحدہ سے لے کر تمام مغربی ممالک بشمول امریکہ، جرمنی، فرانس،برطانیہ وغیرہ کے علاوہ اس بہیمانہ جرم کی مذمت فتح اللہ گیولن تک نے کی ہے۔
اس قتل کے چند ہی گھنٹوں بعد برلن میں ایک دہشت گرد نے معصوم لوگوں پر بس چڑھا دی جس کے نتیجے میں اب تک 12 افراد مر چکے ہیں اور اڑتالیس زخمی ہیں۔ بس کے پولش ڈرائیور کو قتل کرکے ڈرائیونگ سیٹ پر کوئی اور سوار ہو گیا تھا جس نے ایسا کیا۔ اس جرم کی تفتیش کے ضمن میں حراست میں لیے گئے افراد میں ایک 23 سالہ پاکستانی شہری کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔
دہشت گردی کے یہ دونوں واقعات حلب پر شامی فوجوں کے قبضے کے بعد ہوئے ہیں۔ قریب تین برس سے شامی باغیوں اور بنیاد پرست دہشت گردوں کے زیر قبضہ اس بڑے شہر کو جو ان برسوں میں ویران اور تباہ و برباد ہو چکا ہے آزاد کرائے جانے کی غرض سے روسی عسکری مشیروں کی مشاورت سے شامی فوج نے شدید جارحانہ کارروائی کا آغاز نومبر کے اوائل سے کیا تھا۔ حلب کے مشرقی حصے میں اہل و عیال سمیت موجود باغیوں اور دہشت گردوں کو کمزور کیے جانے کی خاطر شدید بمباری کی گئی تھی۔ لامحالہ ان حملوں کی وجہ سے دہشت گردوں کے علاوہ بھی لوگ مارے گئے۔ یہ جنگ ہے، باغیوں اور دہشت گردوں نے بچوں اور عورتوں کی موجودگی کو ڈھال کے طور پر استعمال کرکے بین الاقوامی برادری کی توجہ حاصل کرنے کا طریقہ اختیار کیا تھا۔
حلب میں ہوئی ہلاکتوں کو مغربی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر نہ صرف اچھالا گیا بلکہ مبالغہ آرائی سے بھی کام لیا گیا۔ جبکہ شام میں گذشتہ چار برس سے قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے جس میں ہر دو طرف سے زیادتیاں بھی کی جاتی رہی ہیں۔ زہریلی گیس کے حملے ہوئے، قتل عام ہوئے، یزدی لڑکیوں کو باندیاں بنایا گیا بلکہ بیچا تک گیا۔ غرض جنگ کی جتنی قباحتیں ہو سکتی ہیں شامی عوام ان کا شکار رہے ہیں۔ مگر حلب کی شامی فوج کے ہاتھوں فتح بین الاقوامی دہشت گردوں کے تابوت میں لگتا ہے آخری کیل ثابت ہوئی ہے اور انہوں نے سفارت کار اور برلن میں مذہبی تہوار کی خوشیاں خریدنے والوں کو نشانہ بنایا ہے۔
دہشت گردی کا یہ سلسلہ جلد ختم ہونے والا نہیں ہے۔ بس جغرافیہ تبدیل ہوتا رہے گا۔ عرب بادشاہتوں کی کوشش ہوگی کہ ان کے ملکوں کی بجائے یہ آگ دوسرے ملکوں میں سلگتی رہے لیکن لگتا یہی ہے کہ اب بادشاہتوں کے دن گنے جانے کا وقت آنے کو ہے۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1665722026787234
“