کراچی کو اگر کوئی منی پاکستان کہتا ہے تو وہ تاریخ سے نابلد ہے اور اگر کراچی کو کوئی منی برصغیر کا خطاب دیتا ہے تو وہ بھی کوئی خاص تیر نہیں مار رہا۔ سوال یہ ہے کہ برصغیر کے جن شہروں سے اُٹھ اُٹھ کر لوگ کراچی آ بسے وہ شہر بسانے والے کون تھے اور کہاں کہاں سے آئے تھے؟
میں اگر آج کراچی میں ہوں تو کل کہاں تھا؟ اور جہاں بھی تھا، کہاں سے آیا تھا؟
میں نے برّصغیر کے دمکتے شہروں کو صرف اپنا کلچر اپنی تہذیب اور اپنا مذہب نہیں دیا، اپنا خون بھی دیا۔ میں صرف عراق سے یا حجاز ہی سے نہیں، بلکہ چاروں اطراف سے آیا اور زمین کے اس خطّے کو جو دہلی اور پٹنہ کے درمیان واقع ہے، دنیا کا نامور ترین حصّہ بنا دیا۔ میں ترکستان سے چلا اور خراسان اور غزنی سے ہوتا ہوا دہلی آیا اور قطب مینار بنایا۔ میں سوداگروں کے ہاتھوں بکتا ہوا پہنچا اور بہار کو تاریخ میں پہلی بار الگ صوبہ بنایا۔ میں نے آگرہ کو دارالحکومت قرار دیا۔
میں نے ہندوستان کو پھلوں اور پھولوں سے لاد دیا۔ ڈھاکہ سے پشاور تک، آگرہ سے برہان پور تک، آگرہ سے جودھپور تک اور لاہور سے ملتان تک شاہراہیں بنوائیں اور زمین کا ایسا بندوبست کیا کہ آج بھی وہی رائج ہے۔
میں چاروں طرف سے آیا اور اُمڈ کر آیا اور ٹوٹ کر برسا اور زمین کے اُس مختصر ٹکڑے کو جو دہلی اور پٹنہ کے درمیان واقع ہے دنیا کا نامور ترین خطّہ بنا دیا۔
میں شہرِ سبز سے آیا اور سمرقند سے آیا اور بخارا سے آیا،
میں ترمذ سے، بلخ سے، مرو سے اور رے سے،
بدخشاں، ہرات اور قندھار سے،
نیشاپور، شیراز اور اصفہان نصف جہان سے،
ہمدان، مشہد اور تبریز سے،
فرغانہ اور خوارزم سے اور ہر ولایت اور ہر اقلےم سے آیا اور ان شہروں اور قصبوں اور قریوں میں آباد ہوتا گیا جو دہلی اور پٹنہ کے درمیان کچھ تو پہلے سے بس رہے تھے اور کچھ کو میں نے بسایا۔
جتنے سپہ سالار، منتظم، دانشور، علما، فقہا، محدّثین، شعرا اور نثر نگار زمین کے اس مختصر ٹکڑے نے جو دہلی اور پٹنہ کے درمیان واقع ہے، پیدا کیے عالم اسلام میں زمین کے کسی اتنے مختصر ٹکڑے نے شاید ہی پیدا کیے ہوں۔ نامور مورخ ضیاءالدین برنی لکھتا ہے کہ علاﺅ الدین خلجی کے دور میں جو علما دہلی میں پائے جاتے تھے ان کی مثال اُس وقت کی اسلامی دنیا یعنی بخارا، سمرقند، مصر، خوارزم، دمشق، تبریز اصفہان، رے اور شیراز میں نہیں ملتی تھی۔ یہاں تک کہ بقول برنی:
”بعض علما امام غزالی اور رازی کی ٹکر کے تھے اور فقہ کے بعض ماہرین کو امام ابو یوسف اور امام محمد شیبانی کا درجہ حاصل تھا۔“
امیر خسرو نے دہلی کو قبہاسلام لکھا۔ محمد تغلق کے دسترخوان پر دو سو فقہا موجود ہوتے تھے۔ سکندر لودھی کی قیام گاہ میں روزانہ رات کو ستر علما تبادلہخیالات کے لیے جمع ہوتے تھے۔ صرف دہلی میں ایک ہزار کالج تھے۔ آگرہ کے کئی تعلیمی اداروں میں دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے سکالر پڑھاتے تھے۔ جونپور سے، ہاں اُسی جونپور سے جس کا آج نام بھی کوئی نہیں جانتا سیّد عبدالاوّل جونپوری نے پہلی بار صحیح بخاری کی شرح فیض الباری لکھی۔ یہیں سے دیوان عبدالرشید اور ملا محمد جونپوری پیدا ہوئے جن کے بارے میں شبلی نعمانی نے لکھا ہے کہ علامہ تفتازانی اور علامہ جرجانی کے بعد اس پائے کے دو علما کبھی اکٹھے نہیں ہوئے۔ مغلوں کے آخری زمانے میں صرف نجیب الدولہ کے ہاں نو سو علما تھے۔ سرہند کے فرزند مجدد الف ثانی نے تو سلطنتوں کی کایا پلٹ دی اور مجدّدی سلسلہ آج بھی شام، ترکی اور افغانستان میں موجود ہے۔ دہلی کے شاہ ولی اللہ خاندان نے علما اور مجاہدین کی جتنی نسلیں اور جتنے گروہ پیدا کیے ان پر آج تک کتابیں لکھی جا رہی ہیں اور لکھی جاتی رہیں گی۔
دہلی اور پٹنہ کے درمیان واقع زمین کے اس مختصر ٹکڑے نے سیّد احمد شہید بریلوی کی تحریک کو جتنا خون دیا اتنا خون بارشوں نے زمین کو نہ دیا ہوگا۔ اکوڑہ کی جنگ میں جو چھتیس مجاہد شہید ہوئے ان میں سے پچیس سے زیادہ کا تعلق لکھنوملیح آباد، عظیم آباد، دہلی، روہیل کھنڈ، پرتاب گڑھ، رام پور، مظفر نگر، اعظم گڑھ اور ملحقہ علاقوں سے تھا۔ یہ درست ہے کہ سیّد احمد شہید کی تحریک میں شہید ہونے والے کچھ لوگ پنجاب کے اُن مغربی ضلعوں سے تعلق رکھنے والے اعوان بھی تھے جو سندھ کے کنارے آباد ہیں اور سندھی بھی تھے اور پٹھان بھی لیکن خال خال۔ پٹنہ کے صرف ایک محلے صادق آباد نے اس تحریک کو کئی شہید دیے۔ مولانا ولایت علی اور عنایت علی‘ جن کا شمار بہار کے رئیسوں میں ہوتا تھا، فقیر اور مہاجر ہو گئے۔ ان کی حویلیوں پر ہَل چلا دیے گئے۔ بہت سوں کو توپوں کے دہانوں پر باندھ کر اُڑا دیا گیا۔ بہت سی قبریں کالے پانی میں بنیں۔
پھر جب شمال میں زوال آیا تو علم اور فیاضی اور تونگری کے ان دریاﺅں نے جنوب کا رخ کیا اور حیدر آباد دکن دو سو سال تک اہل علم اور اہل ہنر کی پناہ گاہ رہا۔ نہ صرف دہلی، لکھنواور لاہور بلکہ وسط ایشیا، افغانستان اور ایران سے آنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔ آج بھی حیدر آباد دکن میں ایرانی گلی موجود ہے، ولیم ڈال رمپل نے ”وائٹ مغلز آف انڈیا“ میں حیدر آباد دکن کا جو نقشہ کھینچا ہے، پڑھ کر حیرت ہوتی ہے!
پھر ان لوگوں نے جو حجاز اور عراق سے آئے تھے، مشہد اور قُم سے آئے تھے، شہر سبز اور فرغانہ سے آئے تھے، بخارا، خیوا اور اصفہان نصف جہان سے آئے تھے، پٹنہ اور دہلی اور لکھنوکو خیرباد کہا، جونپور، مراد آباد، رامپور اور امروہہ کو الوداع کہا اور کراچی کا رخ کیا۔ کراچی منی پاکستان نہیں، کراچی منی برّصغیر نہیں، کراچی منی وسط ایشیا ہے، کراچی منی حجاز ہے، کراچی منی ایران ہے اور کراچی منی خراسان اور افغانستان ہے، کراچی میں آ کر بس جانے والے رسا چغتائی نے غلط نہیں کہا ہے
لڑ رہا ہوں رسا قبیلہ وار
میر و مرزا کے خاندان سے دُور
تاشقند کے چغتائی محلہ میں، میں اس شعر کا ورد کرتا رہا اور سوچتا رہا کہ برصغیر نے کہاں کہاں کی مٹی جذب کی اور کہاں کہاں کا پانی اپنے چشموں میں انڈیلا اور یہ سب کچھ آج کراچی میں ہے۔
لیکن میں جو ہر طرف سے آیا اور اُن شہروں میں آباد ہوا جو دہلی اور پٹنہ کے درمیان واقع ہیں اور پھر حیدر آباد دکن میں جا آباد ہوا، میں، جس نے برّصغیر ہی کو نہیں عالم اسلام کو دماغ دیے، دل دیے اور خون دیا۔ مجھے کیا ملا؟ کچھ کو تو جاگیریں مل گئیں اور کچھ کو گدیاں، کچھ کو تمغے اور کچھ کو خطابات، لیکن مجھے کیا ملا؟ ہجر اور ہجرتیں! کبھی عراق اور حجاز سے ہجرت، کبھی ترکستان سے ہجرت، کبھی پٹنہ دہلی لکھنواور حیدر آباد سے ہجرت اور کبھی ڈھاکہ سے ہجرت!
اور جو تھوڑا سا بچ گیا ہوں تو اب کراچی میں مجھ پر عرصہحیات تنگ کیا جا رہا ہے، میرے بچوں کو مارا جا رہا ہے، میری عورتوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے، میرے بزرگ نوحہ خواں ہیں۔ کراچی کی گلیاں لاشوں سے اَٹ گئی ہیں۔ کراچی کے قبرستان بھر گئے ہیں۔ کراچی کی ہوا میں خون کی خوشبو اس قدر رچ چکی ہے کہ پھولوں نے خوشبو کو بکھیرنا بند کر دیا ہے، سانس نہیں لیا جا سکتا۔ خدا کے لیے اس قتل و غارت کو بند کرو۔ موت کے اس کاروبار کو ختم کرو۔ یاد رکھو، اب اگر ہجرت کا سلسلہ چل نکلا تو صرف کراچی سے ہجرت نہیں ہوگی! یہ سلسلہ دور تک جائے گا اس لیے کہ کراچی صرف برّصغیر کا وارث نہیں، یہاں صرف لاہور، پشاور اور کوئٹہ کے لوگ نہیں، یہاں پورے عالم اسلام کے وارث موجود ہیں۔ کراچی پاکستان ہی کا نہیں کراچی پورے عالم اسلام کا دل ہے۔ یہ تو ہماری نااہلی ہے اور ہماری کرپشن ہے ورنہ کراچی نے تو دبئی ہونا تھا، جدہ بننا تھا۔ اس پر سنگاپور اور ہانگ کانگ نے رشک کرنا تھا۔ افسوس! صد افسوس! ہم نے اس شہر کو، جو ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ تھا، تباہی کی نذر کر دیا! مسلمانوں کا اتنا خون تو تاتاریوں کے وحشیانہ عہد میں بھی نہیں بہا تھا!
ہیہات! ہیہات! جس خوبصورت شہر میں یورپ کے لوگ آباد ہونے کی آرزو کرتے تھے اور عشاق جس کے حسینوں کے لیے کہا کرتے تھے
جس کے لیے اک عمر کنوئیں جھانکتے گزری
وہ ماہِ کراچی مہِ کنعاں کی طرح ہے
اُسے ہم نے اتنا ہیبت ناک کر دیا ہے کہ غولِ بیاباں بھی پناہ مانگ رہا ہے!
http://columns.izharulhaq.net/2012_11_01_archive.html
“