ایک ماں ہی ان وچھوڑے کے دکھوں اور سات سمندر پار پردیس میں جا کر بسنے کی کوششوں میں جان پر کھیلنے والی ان اداس نسلوں کی کتھالکھ سکتی تھی۔
وہ لڑکا میرے سامنے آ کھڑا ہُوا
یہ 2016 ہی تھا ، جب سب مسافروں کے ہمراہ میںairport shuttle busمیں استبول ائیرپورٹ پر
، جہاز تک آئی ؛
سب مسافروں نے صاف ستھرے لباس زیبِ تن کئے تھے، پر بالکل نئے نئے جوان بچوں کا ایک گروہ ہی کہوں گی، جنہوں نے نسبتاً کم صاف لباس پہنے وے تھے۔
ایک ، دو لڑکے ضرورت سے زیادہ اور بہت سمارٹ دکھنے کی کوشش میں تھے، جب
شٹل سے نکل کر جہاز کی سیڑھیوں پر چڑھ رہے تھے، ایک لڑکا بھاگ کے میرے قریب آیا، آنٹی میں آپکا ہینڈ کیری اُٹھا لُوں، مہربانی ، جی پکڑ لیں۰۰۰ سیٹ تک میرے ساتھ آیا ، یہں تک کی اوپر کیبینٹ میں بیگ رکھ کر دیا۔ میں نے بہت شکریہ ادا کیا، دُعا دی!
بات دراصل جو بتانی تھی ،وہ یہ کی پہلے تو
شٹل کے اندر یہ بڑا بن بن کر بول رہاتھا، میں نے پوچھا کہاں سے آرہے ہیں؟
کہنے لگا: انٹی! دو دن ہوئے جیل سے یہ ہم سات لڑکے ہیں چھوٹے ، اور تُرکی کی حکومت ہمیں ۰۰۰ پاکستان ڈی پورٹ کر رہی ہے۔
ظاہر وہاں ٹھہرے سارے مسافر اُنھی کی طرف متوجہ ہوگئے۔
میں غور سے اُس لڑکے کو دیکھ رہی تھی، جس کے چہرے پر شرمندگی کا شائبہ تک نہ تھا! بلکی بڑے تجربہ کار انسان کی طرح اپنے تجربات شیئر کرنے لگا،جیسے کُوئ قابلِ فخر بات ہو!
میں نے سوال کیا تھا کی آپ کیوں تُرکی آئے اور کیا غیر قانونی کام کیا کی جیل ہوئ!
کہنے لگا روزگار کی تلاش میں کسی نہ کسی طرح تُرکی میں گھس آئے، کچھ سال کمایا گھر بھی رقم بھیجی، پھر پکڑے گئے ، جیل ہوئ، اب کچھ ماہ کے بعد واپس بھیج رہے ہیں-
میرے اندر کچھ ٹوٹ سا گیا کی میرے وطن کے رُلے خُلے نوجوان غیر ملک میں اتنے بے آبرو ہونے کو کسی بڑے تجربے کے طور پر لے رہا ہے۔
سب اُس کی روداد دلچسپی سے سُن رہا تھے-
میں نے پوچھا، اب کیاکروگے؟والدین الگ پریشان ہونگے؟ کہنے لگا یہ چلتا رہتا ہے ، پھر موقع ملتے ہی نکل آئیں گے !
اب اسکا میرے پاس جواب نہیں تھا،
اسی نےمیرا ہینڈ کیری پکڑا، اور ساتھ ساتھ مجھے سمجھاتا ہوا سیڑھیاں چڑھتا رہا ، کی آنٹی آپ بھی ہر کو ایسے بیگ نہ پکڑا دیا کریں، ہر ایک کا اعتبار اچھا نہ ہوتا، وگیرا، وگیرا۔
میں سُوچتی ہی رہ گئ کی اسے کیسے سمجھاؤں کی میرا بیگ کھو بھی جائے تو
کیا نقصان؟؟؟؟؟
اپ میرے بچے، میرے وطن کے نوجوان اپنی زندگی گنوانے پر تُلے گئے ہو، اس نقصان کا کوئ ازالہ ہی نہیں!
اور اس دن جب لیبیا کے ساحل پر جب میرے وطن کے بے روزگار ، نوجوان تارکینِ وطن کی کشتی ڈوبی تو جانے کیوں ، وہ استنبول والا لڑکا مجھے کیوں یاد آیا۰۰۰۰۰۰ اور میں اپنے کمرے ٹی وی کے آگے بیٹھی۰۰۰۰۰ بار بار بھیگنے والی آنکھیں ہی بے بسی سے پونچھتی رہی!
کوئ ہے؟؟؟؟؟ جو مسیحا بن کر میرے ان بچوں کو بچا لے!