وہ کوئی ساز ڈھنگ سے بجانا نہیں جانتے تھے۔
لازوال دھنیں ماچس کی ڈبیا انگلی سے بجا کر تخلیق کیں۔
ایم اے فلسفہ میں اول آئے ، گولڈ میڈل لینے گئے ہی نہیں۔
مقابلے کے امتحان میں پورے ہندوستان میں ٹاپ کیا، لیکن بھگت سنگھہ جیسے انقلابیوں سے تعلقات کی وجہ سے نااہل قرار پائے
یہ ناہلی ہندوستان کی فلمی موسیقی کیلئے نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوئی
اس سے فلمی موسیقی کو خواجہ خورشید انور ملے۔ جنہوں نےدل کا دیا جلایا، مجھہ کو آواز دے تو کہاں ہے ، رم جھم رم جھم پڑے پھوار، جس دن سے پیا دل لے گئے ، آگئے گھر آگئے بلم پردیسی، سجن پردیسی ،چاند ہنسے دنیا بسے روئے میرا پیار، آبھی جا آبھی جا، او جانے والے رے ٹھہرو ذرا رک جاﺅ،۔چھن چھن ناچوں گی گن گن گاﺅں گی، سن ونجھلی دی مٹھڑی تان وے، زلفان دی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاں ڈھولنا، او ونجھلی والڑیا جیسی دھنیں تخلیق کیں۔
خواجہ خورشید انور 21 مارچ 1913 کو میانوالی میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق موسیقی کے کسی گھرانے سے نہیں تھا ۔ ان کی علامہ اقبال سے بہت نزدیک کی رشتہ داری تھی۔ ان کے نانا، خان بہادر عطا محمد شیخ کی بیٹی علامہ کی اہلیہ تھیں۔ ان کے والد فیروزالدین لاہور کے ایک کامیاب بیرسٹر تھے۔ ان کے والد کو صرف ایک شوق تھا اور وہ تھا کلاسیکل اور نیم کلاسیکل موسیقی سننا اور جمع کرنا۔ ان کے گھر موسیقی کی بڑی بڑی محفلیں ہوا کرتی تھیں۔ جن میں استاد توکل حسین، استاد عبدالوحید خاں ،استاد عاشق علی خاں،استاد غلام علی خاں،فیروز نظامی،رفیق غزنوی جیسے اساتذہ شرکت کرتے تھے۔ انہی محفلوں سے خورشید انور کو موسیقی کا شوق پیدا ہوا اور انہوں نے استاد توکل حسین سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔۔بیرسٹر فیروز الدین کے گھر میں ہزاروں کی تعداد میں ریکارڈ موجود تھے۔ خورشید انور کو اس موسیقی کے خزانے سے استفادہ کرنے کا بھی بچپن سے ہی موقع مل گیا۔ یہ وہ عوامل تھے جنہوں نے خورشید انور کو ایک لافانی موسیقار بنا دیا۔
خواجہ خورشید نے1935 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفہ میں ماسٹرز کیا۔ اور اول آئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خواجہ صاحب تقسیم انعامات کی تقریب میں قصداً نہیں گئے۔ انگریز وائس چانسلر نے جب گولڈ میڈل کے لیے نام پکارا۔ وہ موجود نہ پائے گئے۔ تو اس نے برجستہ کہا کہ جو طالب علم اپنا میڈل لینا بھول گیا ہے وہ حقیقی طور پر ایک فلسفی ہے۔ مگر خورشید انور کی منزل کوئی اور تھی۔ اسکو سُر اور ساز کا بادشاہ بننا تھا۔ عین اسی وقت لاہور میں ایک محفل موسیقی منعقد ہورہی تھی جس میں ہندوستان بھر کے نامور موسیقار اور گایک شرکت کررہے تھے۔ انھیں موسیقاروں میں اس طالب علم کے موسیقی کے استاد خان صاحب توکل حسین خان بھی شامل تھے۔ وہ طالب علم جلسہ تقسیم اسناد اور گولڈ میڈل تو چھوڑ سکتا تھا مگر اس محفل کو نہیں چھوڑ سکتا تھا۔
اس سے اگلے سال 1936 میںخواجہ خورشید انور نے اعلیٰ ملازمتوں( آئی سی ایس )کے لئے مقابلے کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی لیکن انٹرویو میں ناکام قرار دئیے گئے چونکہ وہ انگریزون کے خلاف تحریک آزادی میں شریک رہے تھے اور بھگت سنگھہ کو دہشتگردی کیلئے کالج لیبارٹری سے تیزاب فراہم کرنے کے الزام میں قید بھی بھگت چکے تھے۔بی اے کا امتحان بھی جیل سے دیا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ خود بھی اپنے مزاج کو سول سروس کے مزاج سے ہم آہنگ نہ پاتے تھے۔ وہ تحریری امتحان میں بھی صرف اپنے گھر والوں کے شدید اصرار کے باعث شریک ہوئے تھے۔
یہ ناکامی ان کی کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
1939 میں خواجہ خورشید انور نے آل انڈیا ریڈیو دہلی پر میوزک پروڈیوسر کی حیثیت سے نوکری کر لی۔ ۔ وہاں ان کی ملاقات اے۔آر۔ کاردار سے ہوئی۔ کاردار اس زمانے کے سکہ بند فلمساز تھے۔ 1941ء میں خواجہ صاحب نے ان کی پنجابی فلم”کڑمائی” کا میوزک بنایا۔ یہ فلم اتنی کامیاب نہ ہو سکی جتنی توقع کاردار اور خورشید انور کر رہے تھے۔ دو سال کے بعد1943ء میں “اشارہ” فلم آئی۔ اس میں بھی موسیقی خواجہ صاحب ہی کی تھی۔ اس کے گانے “ثریا بیگم” ـ” گوہر سلطان” اور وستالہ کماٹھیکر نے گائے تھے۔ ان گانوں نے برصغیر کو ایک سحر میں مبتلا کر دیا۔ ہر گلی کوچے میں ان کی آواز سنائی دیتی تھی۔ یہ اس عظیم موسیقار کی پہلی کامیابی تھی۔ اس کے بعد شہرت کا ایک لامتناہی زینہ تھا جس پر یہ نوجوان چڑھتا چلا گیا۔
1947ء میں سہگل نے خواجہ خورشید انور کی بنائی ہوئی دُھن پر اپنی زندگی کا آخری گانا گایا۔ اس فلم کا نام “پروانے” تھا۔ سہگل کی گائیکی کا اختتام خورشید انور کی دُھن پر ہوا۔ 1949ء میں خواجہ صاحب کو موسیقی کا سب سے بڑا ایوارڈ دیا گیا۔ اس کا نام “کلیئر ایوارڈ” تھا۔موسیقار”روشن” اور “شنکر جے کشن” اس موسیقی کے جادوگر کی دہلیز پر بیٹھنے والوں میں سے تھے۔ “نوشاد” جو خود ایک یکتا موسیقار تھے، خواجہ صاحب کے احترام میں کھڑے رہتے تھے۔
خواجہ خورشید انور1952ء میں پاکستان آ گئے۔ یہاں ان کے پایہ کے موسیقار نہ ہونے کے برابر تھے۔ نورجہاں جیسی عظیم گائیکہ بھی ایک مشکل دور سے دوچار تھی۔1956ء میں خورشید انور نے”انتظار” فلم کی دُھنیں ترتیب کیں۔ اس کے گانے نورجہاں کے لیے ایک نئی فنی زندگی کا زریعہ بنے۔ یہ اپنے وقت کی مقبول ترین فلم تھی۔ اس کی کامیابی خواجہ صاحب کے بے مثال میوزک کے سبب تھی۔ اس فلم کے بعد توخواجہ صاحب فن کے آسمان پر چمکنے لگے۔
مرزا صاحبان، زہرعشق، جھومر، کوئل، ایاز، گھونگھٹ حویلی،چنگاری،سرحد،ہیررانجھا،شیریںفرہاد،مرزاجٹ اور سلام محبت، وہ فلمیں تھیں جنکی کامیابی کا سہرا خواجہ خورشید انور کی جادوئی موسیقی کو جاتاہے۔ انہوں نےمجموعی طور پر18 فلموں کی موسیقی ترتیب دی،15 اردو اور 3 پنجابی۔انہوں نے گھونگھٹ، حیدر علی، اور ہمراز سمیت چند فلموں کی ہدایات بھی دیں۔
فیض احمد فیضؔ اکثر کہا کرتے تھے کہ ان کی شاعری میں خورشید انور کا جذب موجود ہے۔ فیض صاحب، ان سے بہت متاثر تھے۔
خواجہ خورشید انورکا ایک بڑا کارنامہ ’’آہنگِ خسروی‘‘ ہے۔ یہ 30 لانگ پلے ریکارڈز پر مشتمل ایک البم ہےجس میں برصغیر کی کلاسیکی موسیقی کے معروف گھرانوں کے 90 راگ محفوظ کردئیے ۔یہ لانگ پلے ریکارڈ ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم، استاد سلامت علی خان، ذاکر علی خان اور اختر علی خاں، استاد فتح علی خاں (پٹیالہ)، اسد امانت علی خاں اور حامد علی خاں، استاد اسد علی خاں، استاد رمضان خان، استاد امراﺅ بندو خان، استاد غلام حسین شگن، استاد حمید علی خان، استاد فتح علی خان (گوالیار)، ملک زادہ محمد افضل خان اور ملک زادہ محمد حفیظ خان کی آوازوں میں تیار کئے گئے تھے۔ “آہنگ خسروی” اور “راگ مالا” ایسے عظیم کام ہیں جو ان کے بعد بہت کم لوگ کر پائے۔
خواجہ صاحب کا موسیقی بنانے یا ترتیب دینے کا طریقہ بہت مختلف بلکہ منفرد تھا۔ وہ ماچس کی ڈبیا کو ایک خاص انداز میں بجاتے تھے اور وہیں سے وہ اپنی نایاب دُھن کی بنیاد تشکیل دے دیا کرتے تھے۔1980ء میں خواجہ صاحب کو “ستارہ امیتاز” سے نوازا گیا۔ 1982ء میں انھیں بمبئی کی میوزک انڈسٹری کا سب سے بڑا ایوارڈ دیا گیا۔ اس ایوارڈ کا نام تھا”Mortal- Men- Immortal- Melodius Award”
خواجہ صاحب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ریڈیو پاکستان کی سگنیچر ٹیون ان کی بنائی ہوئی ہے۔خواجہ خورشید انور 30 اکتوبر 1989 کو دنیا سے رخصت ہوئے۔
[ عقیل عباس جعفری، رائو منظر حیات سے استفادہ]
https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=393523651037505&id=100011396218109
“