مجھے وہ دن یاد ہیں جب شادی سے پہلے میں اور شکیلہ گھنٹوں باتیں کیا کرتے تھے‘ ایک ہی پلیٹ میں گول گپے کھاتے تھے اور موٹر سائیکل پر خوب سیریں کیا کرتے تھے۔ شکیلہ کہتی تھی کہ وہ موسم کی طرح کبھی نہیں بدلے گی بلکہ زندگی بھر مجھ سے محبت کرتی رہے گی۔ میں اپنی تنخواہ میں سے ہر مہینے اُس کے لیے ایک سوٹ خریدا کرتا تھا۔ اُسے دیگی چرغہ بہت پسند تھا‘ ہم اکثر ''کوارٹر پیس‘‘ خریدتے اور مل کر کھاتے۔ چونکہ اُس وقت میری تنخواہ زیادہ نہیں تھی لہٰذا میں شکیلہ کے لیے سردیوں میں جرسی خریدنے کی بجائے اپنی بساط کے مطابق سستی سی شال خرید لیا کرتا تھا۔ سردیوں میں شکیلہ جب بھی یہ شال اوڑھتی‘ اُسے اور زیادہ سردی لگنے لگتی۔ لیکن اُس نے پھر بھی کبھی شکوہ نہیں کیا‘ وہ میرے تحفے بہت سنبھال سنبھال کر رکھتی تھی۔ ایک دن جب ہم موٹر سائیکل پر گھوم رہے تھے تو میں نے اُس سے پوچھا کہ شکیلہ اگر میں مر جائوں تو؟ یہ سنتے ہی اس نے تڑپ کر اپنا ہاتھ میرے منہ پر رکھ دیا اور کہنے لگی ''پلیز پہلے مجھے گھر چھوڑ آئو‘‘۔ آپ یقین نہیں کریں گے کہ شکیلہ مجھ پر مرتی تھی لیکن اُسے محبت والے ڈائیلاگ نہیں بولنے آتے تھے‘ کئی دفعہ غلطی کر جاتی تھی۔ ایک دفعہ بڑے پیار سے مجھے کہنے لگی ''تم میری زندگی کے آخری مرد ہو‘‘۔ میں نے بڑے پیار سے اسے سمجھایا کہ کہتے ہیں ''تم میری زندگی کے پہلے اور آخری مرد ہو‘‘۔ فوراً سمجھ گئی اور جلدی سے کہنے لگی… ہاں ہاں وہی…!!!
لیکن پتا نہیں کیوں شادی کے بعد وہ اتنا کیوں بدل گئی ہے؟ کہتے ہیں جتنی بھی محبت ہو‘ شادی کے بعد کم ہو جاتی ہے‘ لیکن ہم نے تو ہمیشہ خوش رہنے کی قسمیں کھائی تھیں‘ ہم نے تو آپس میں وعدے کیے تھے کہ ہم شادی کے بعد بھی سیر سپاٹے جاری رکھیں گے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ شادی کے بعد شکیلہ کیوں بدل گئی؟ حیران کن طور پر اُس چلبلی سی لڑکی نے شادی کے بعد برقعہ پہننا شروع کر دیا ہے‘ ہر وقت کہیں نہ کہیں گھومنے کی شوقین بس گھر کی ہی ہو کر رہ گئی ہے۔ مجھے رہ رہ کر وہ وقت یاد آتا ہے جب شکیلہ مجھ سے کہا کرتی تھی کہ کپڑے دھونے والے صابن سے منہ دھویا کرو‘ اُس سے میل اچھی نکلتی ہے۔ میں نے ایک دفعہ ٹرائی بھی کی تھی لیکن شکیلہ کو نہیں بتایا۔ میں تو بس یہی سوچ سوچ کر خوش ہوتا رہا کہ شکیلہ کو میرا کتنا خیال ہے۔ شکیلہ کے خوابوں اور خیالوں میں صرف اور صرف میں ہی چھایا ہوا تھا۔ وہ بتاتی تھی کہ میں اُس کے خوابوں میں اتنا زیادہ آتا ہوں کہ وہ ٹھیک سے سو بھی نہیں پاتی لہٰذا تین دفعہ آیت الکرسی پڑھ کر سوتی ہے‘ تب کہیں جا کر مجھ سے چھٹکارا ملتا ہے۔ کتنی بھیانک ہوتی ہے یہ شادی‘ انسان کے سارے رومانس کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیتی ہے۔ لیکن میری محبت تو اب بھی ویسی ہے‘ بدلائو تو صرف شکیلہ میں آیا ہے۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اتنی جلدی اُسے اپنی قسمیں‘ وعدے کیسے بھول گئے؟
شادی سے پہلے وہ کہا کرتی تھی کہ ہمارا ایک چھوٹا سا گھر ہو گا‘ ہم اسے بہت خوبصورتی سے سجائیںگے۔ لیکن اب تو لگتا ہے وہ کرائے کے گھر پر ہی قناعت کر بیٹھی ہے۔ اُس کی ماں کا رویہ بھی بہت بدل گیا ہے۔ پہلے جب میں ان کے گھر جاتا تھا تو میری تواضع چائے بسکٹوں سے کرتی تھیں‘ بوتل منگواتی تھیں تو بڑے پیار سے مجھے پیش کرتی تھیں لیکن اب تو دروازے میں کھڑی سبزی بھی لے رہی ہو تو میری شکل دیکھتے ہی جھٹ سے دروازہ بند کر لیتی ہے۔ میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ میں یکدم شکیلہ اور اس کے گھر والوں کے لیے اتنا قابل نفرت کیوں ہو گیا ہوں؟ چلو اُس کے گھر والوں کی تو خیر ہے‘
اصل دُکھ تو شکیلہ کا رویہ دیکھ کر ہوتا ہے۔ میں تو اُس سے پہلے ہی کہتا تھا کہ شکیلہ پتا نہیں کیوں مجھے لگتا ہے تم شادی کے بعد بدل جائو گی… اور وہ ہنس کر کہتی تھی، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا میں ساری زندگی ایسی ہی رہوں گی۔ لیکن افسوس ایسا نہیں ہو سکا…!!!
اب اسے دیگی چرغے سے بھی کوئی رغبت نہیں رہی۔ کہتی تھی شادی کے بعد ایم اے اُردو کرے گی‘ وہ بھی درمیان میں ہی رہ گیا۔ کبھی کبھی ایسے لگتا ہے جیسے شکیلہ اپنی یادداشت کھو بیٹھی ہے۔ یہ وہی شکیلہ تھی جو مجھ سے کہا کرتی تھی کہ شادی کے بعد جب تم دفتر جایا کرو گے تو میں روز تمہیں فون کیا کروں گی۔ آج تک ایسا نہیں ہو سکا… میں گھر سے دفتر کے لیے نکلتا ہوں تو دفتر پہنچتے ہی سارا دن بے چینی سے انتظار کرتا ہوں کہ شاید شکیلہ کو شادی سے پہلے کی کوئی بات یاد آ جائے لیکن وہ کوئی فون نہیں کرتی اور میں شام کو تھکا ہارا لوٹ آتا ہوں۔ شکیلہ میں اچانک ہی یہ ساری تبدیلی آئی۔ شادی سے ایک ماہ پہلے تک وہ بالکل ٹھیک تھی‘ اصل کایا کلپ ایک ماہ بعد ہوئی۔ میں دن رات کڑھتا رہتا ہوں کہ آخر شادی کے بعد ایسا کیا ہوا کہ شکیلہ 180 ڈگری کے زاویے سے بدل گئی۔ ایک دو سیانے لوگوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے شک ظاہر کیا کہ ہو سکتا ہے کسی نے شکیلہ پر تعویز کر دیے ہوں۔ لیکن ایسا کون کرے گا؟ گھر میں شکیلہ کی ساس سُسر ہیں نہ نند‘ نہ کوئی دیورانی نہ جیٹھانی‘ اکیلے گھر میں رہتی ہے۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ کسی حاسد نے ہمارے پیار سے جل کر شکیلہ پر کوئی عمل کروا دیا ہو۔ اگرچہ میں ایسی باتوں پر یقین نہیں کرتا لیکن دل کی تسلی کی خاطر دو تین عاملوں سے بات کی تھی‘ انہوں نے کچھ عمل بتائے تھے‘ وہ بھی کرکے دیکھ لیے لیکن شکیلہ نہیں بدلی۔
تھک ہار کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شکیلہ کا یہ روپ نقلی نہیں اصلی ہے‘ نقلی تو وہ روپ تھا جو شادی سے پہلے تھا۔ وہ محض مجھے اُلو بنا رہی تھی۔ میں اُس کا جعلی روپ سمجھ ہی نہ سکا‘ اُس کی ساری مسکراہٹیں‘ سارے قہقہے‘ ساری شوخیاں صرف شادی تک تھیں۔ اگر مجھے پتا ہوتا کہ شادی کے بعد وہ میرے ساتھ یہ سلوک کرے گی تو میں کبھی اُس سے پیار نہ کرتا۔ میں نے تو اُس کی خاطر پینٹ شرٹ کے نیچے پشاوری چپل بھی پہننا چھوڑ دی تھی۔ اگر بتی سے بنا پرفیوم بھی لگانا چھوڑ دیا تھا‘ جرابوں کے اوپر ربڑ بینڈ بھی نہیں لگاتا تھا‘ ناخن بھی ہر ہفتے کاٹنا شروع کر دیے تھے‘ منجن کی بجائے ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنے لگا تھا… اور تو اور بوتل کے سٹرا کو بھی ''پائپ‘‘ کہنا چھوڑ دیا تھا۔ پھر بھی پتا نہیں کیوں شکیلہ نے میری محبت کا کوئی مان نہیں رکھا۔ شادی سے پہلے بلند و بالا دعوے کیے‘ حسین خواب دکھائے اور شادی کے بعد ایسے ہو گئی جیسے ہمارے درمیان کبھی محبت ہوئی ہی نہیں۔
میرا سوال صرف اتنا ہے کہ کیا شکیلہ میں اس تبدیلی کی وجہ شادی ہے؟ کیا شادی انسان کے سارے جذبات ختم کر دیتی ہے‘ کیا شادی کے بعد شادی سے پہلے کیے گئے وعدوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی؟ میں یہ سب باتیں شکیلہ سے پوچھنا چاہتا ہوں‘ جی چاہتا ہے کسی دن زبردستی اسے اپنے سامنے بٹھا کر پوچھوں کہ تم تو کہتی تھیں شادی کے بعد بھی مجھے 'جانو‘ کہہ کر پکارا کرو گی‘ لیکن تم نے تو شادی کے بعد ایک دفعہ بھی مجھے یہ لفظ نہیں کہا‘ بلکہ تم تو مجھ سے بات کرنا بھی گوارہ نہیں کرتیں۔ کاش میں یہ سب شکیلہ سے پوچھ سکتا‘ لیکن ڈرتا ہوں کہیں اُس کے شوہر کو پتا نہ چل جائے… کم بخت شادی کے بعد ہمیشہ سائے کی طرح اس کے ساتھ رہتا ہے۔
میں نے تو اُس کی خاطر پینٹ شرٹ کے نیچے پشاوری چپل بھی پہننا چھوڑ دی تھی۔ اگر بتی سے بنا پرفیوم بھی لگانا چھوڑ دیا تھا‘ جرابوں کے اوپر ربڑ بینڈ بھی نہیں لگاتا تھا‘ ناخن بھی ہر ہفتے کاٹنا شروع کر دیے تھے‘ منجن کی بجائے ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنے لگا تھا… اور تو اور بوتل کے سٹرا کو بھی ''پائپ‘‘ کہنا چھوڑ دیا تھا۔ پھر بھی پتا نہیں کیوں شکیلہ نے میری محبت کا کوئی مان نہیں رکھا۔ شادی سے پہلے بلند و بالا دعوے کیے‘ حسین خواب دکھائے اور شادی کے بعد ایسے ہو گئی جیسے ہمارے درمیان کبھی محبت ہوئی ہی نہیں۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔