ڈاکٹر نے اتنا بھی نہ سوچا کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں!
وزیراعظم ہسپتال کے دورے پر تھے‘ انکے ساتھ وزیر صحت بھی تھے‘ وزیراعظم وارڈ میں ایک مریض کے پلنگ کےساتھ کھڑے اسکی عیادت کر رہے تھے‘ ٹیلی ویژن کی ٹیم بھی موجود تھی‘ وزیراعظم کے دورے کو فلمایا جا رہا تھا‘ اتنے میں سرجن اندر داخل ہوا‘ اس نے دیکھا کہ ہسپتال کے قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے‘ اس نے وزیراعظم سمیت سب کو ڈانٹا کہ پوری آستینوں کے ساتھ اور نکٹائیوں کےساتھ یہ لوگ وارڈ میں کیوں داخل ہوئے ہیں۔ یہ طریقہ جراثیم کے نکتئہ نظر سے نقصان دہ ہے۔ سرجن باقاعدہ دھاڑ رہا تھا‘ وزیراعظم نے ٹیلی ویژن والوں کو باہر جانے کا اشارہ کیا اور سرجن کو آہستگی سے بتایا کہ ہم نے تو نکٹائی اتاری ہوئی ہے‘ اس پر سرجن وزیراعظم کو کچھ کہنے ہی والا تھا کہ وزیراعظم نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ ٹھیک ہے‘ ٹھیک ہے۔ میں آپکی بات مانتا ہوں اور وزیراعظم وارڈ سے نکل گئے۔
اسکے مقابلے میں برطانیہ میں کیا ہوا‘ سنیئے! وزیراعظم برطانیہ نے اپنے قریبی عزیز کو گریڈ اکیس سے بائیس میں ترقی دیکر قومی اسمبلی میں سپیشل سیکرٹری مقرر کردیا ہے‘ یہ صاحب اس سے پہلے قومی اسمبلی میں گریڈ بیس کے افسر تھے‘ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے چیئرمین انکی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے‘ اس پر وزیراعظم نے انہیں گریڈ اکیس میں ترقی دی اور ڈویژن کا سیکرٹری انچارج مقرر کردیا! اس اقربا پروری پر برطانیہ میں کسی نے چوں تک نہیں کی۔
آپ پریشان ہو رہے ہیں تو ازراہِ کرم خاطر جمع رکھیے۔ یہ دونوں خبریں درست نہیں‘ اصل خبریں اس طرح ہیں۔
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون لندن کے ایک ہسپتال میں گئے‘ انکے ڈپٹی پرائم منسٹر اور وزیر صحت بھی ہمراہ تھے‘ وزیراعظم اور انکے دونوں ساتھی مریضوں کے ساتھ تصویریں بنوا رہے تھے کہ متعلقہ سرجن آیا اور دھاڑا کہ وارڈ کے قوانین کی خلاف ورزی کیوں ہو رہی ہے؟ اس نے یہ تک کہا:
I am not having it, now out
”میرے لئے یہ ناقابل برداشت ہے‘ تم لوگ یہاں سے چلے جاﺅ“۔
اور برطانیہ کا وزیراعظم‘ اپنے نائب اور اپنے وزیر صحت کے ساتھ اور ٹیلی ویژن کی پوری ٹیم کے ساتھ باہر نکل جاتا ہے۔
آپ کاکیا خیال ہے کہ یہ واقعہ اگر پاکستان میں پیش آتا تو کیا ہوتا؟ اول تو کوئی ڈاکٹر ایسی قانون پسندی کا سوچ بھی نہیں سکتا اور اگر بفرض محال کوئی بہادر ڈاکٹر ایسا کر گزرتا تو شام سے پہلے‘ اگر گرفتار نہ بھی ہوتا تو ملازمت سے ضرور فارغ ہو جاتا۔
اب دوسری خبر بھی درست کر لیجئے‘ وزیراعظم پاکستان نے اپنے بہنوئی کو ترقی دیکر قومی اسمبلی میں خصوصی سیکرٹری لگا دیا ہے‘ خصوصی اس لئے کہ ایک سیکرٹری پہلے سے وہاں موجود ہے‘ لیکن اس خبر کے ساتھ اخبار نے جو ایک اور خبر دی ہے‘ اس کا جواب نہیں۔
”اس سے قبل وہ قومی اسمبلی میں پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے گریڈ بیس میں جوائنٹ سیکرٹری تھے‘ تاہم چیئرمین پی اے سی چودھری نثار علی خان انکی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے‘ جس پر وزیراعظم نے انہیں گریڈ 21 میں ترقی دیکر وزارت کلچر کا سیکرٹری انچارج مقرر کر دیا تھا اور وہ ان 54 افسران میں بھی شامل تھے‘ جن کو وزیراعظم کی طرف سے ترقی دی گئی تھی اور سپریم کورٹ نے ان ترقیوں کو کالعدم قرار دیا تھا۔
“
آپ کا کیا خیال ہے‘ اگر برطانیہ کا وزیراعظم اس طرح کرتا تو کیا ہوتا؟ اول تو وہ اقرباپروری کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا‘ بفرض محال اگر ایسا ہوتا تو قیامت آجاتی۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن وزیراعظم کا حکم ماننے سے انکار کر دیتا‘ اپوزیشن اسے اتنا بڑا معاملہ بناتی کہ وزیراعظم کو مستعفی ہونا پڑتا‘ ان ”کافر“ ملکوں میں ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ آسٹریلیا میں ایک وزیر کو اس لئے استعفیٰ دینا پڑا کہ اس نے ذاتی سفارش کیلئے سرکاری لیٹر پیڈ استعمال کیا تھا۔ ڈنمارک کی ایک وزیر نے رات کے وقت سائیکل پر گھر جاتے ہوئے چوک کی سرخ بتی کا خیال نہ کیا‘ کیمرے نے یہ ”غیرقانونی“ حرکت محفوظ کرلی‘ دوسرے دن دوپہر تک موصوفہ کو وزارت چھوڑنا پڑی۔
یہ ہے ترقی یافتہ اور غیرترقی یافتہ ملکوں کا اصل فرق۔ دولت اور آسائش میں مشرق وسطیٰ کے مسلمان ممالک مغربی ملکوں سے کسی طور پیچھے نہیں‘ لیکن مساوات‘ قانون کی حکمرانی اور حکمرانوں کا محاسبہ…. یہ ہیں وہ صفات جو مغربی ملکوں کو صحیح معنوں میں ترقی یافتہ بناتی ہیں۔ آپ ذرا موازنہ کیجئے‘ ایک طرف برطانیہ کا وزیراعظم چوں کئے بغیر سرجن کے سامنے سرتسلیم خم کردیتا ہے‘ اس لئے کہ قانون اور ادارے وزیراعظم سے بالاتر ہیں‘ دوسری طرف پاکستان کا وزیراعظم ملک کو اپنی جاگیر سمجھتا ہے۔ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا چیئرمین…. جو ایک منتخب رکن اسمبلی ہے‘ ایک افسر کی کارکردگی سے مطمئن نہیں‘ وزیراعظم اسے وہاں سے صرف ہٹاتے نہیں‘ ہٹاتے وقت ترقی بھی دے دیتے ہیں اور کوئی چوں نہیں کرتا‘ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا سیکرٹری جو 35 سال ملازمت کرنے کے بعد اس اعلیٰ عہدے پر پہنچا ہے‘ ایک غلام کی طرح حکم کی تعمیل کرتا ہے اور اگر وہ اس حکم کی تعمیل سے انکار کر دیتا تو اسے سزا ملتی اور پورے سرکاری سیٹ اپ میں کوئی اسکی مدد کو نہ پہنچتا۔
یہ ہے وہ صورتحال جو اس ملک کو گھن کی طرح کھا رہی ہے‘ ایک طبقہ جو قانون سے ماورا ہے‘ اس ملک کی تباہی کا ذمہ دار ہے اور اس طبقے میں بدقسمتی سے حکومت کے عمائدین اور منتخب ارکان سرفہرست ہیں۔ قانون کو لونڈی سمجھنے کی یہ روایت جب تک ختم نہیں ہوتی‘ کوئی ترکیب کارگر نہیں ہو گی۔ آپ پورے ملک کو کوٹ‘ پتلون پہنا دیں یا اٹھارہ کروڑ کو لمبے کُرتے اور ٹخنوں سے اوپر شلواریں پہنا دیں‘ آپ دھماکے کریں‘ امریکہ کو للکاریں‘ یہود و ہنود کو تباہ کرنے کا اعلان کریں‘ ملک وہیں کا وہیں رہے گا اور جب تک برطانوی وزیراعظم ایک معمولی سرجن کا حکم مانتا رہے گا اور جب تک امریکی صدر ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا رہے گا‘ کوئی ان ملکوں کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ آپ اس ملک میں قانون کی بے بسی دیکھئے کہ وزیر خزانہ ارکان پارلیمنٹ کی منت سماجت کر رہے ہیں کہ وہ ایمانداری سے ٹیکس ادا کریں‘ جبکہ وزیر خزانہ کی ماتحتی میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو جیسا عظیم الجثہ ادارہ موجود ہے اور اس ادارے کو اور وزیر خزانہ کو بھی معلوم ہے کہ ارکان کی اکثریت ٹیکس نہیں ادا کررہی‘ آپ وزیر خزانہ اور انکی وزارت کی بے بسی دیکھئے کہ نجکاری کمیشن وزیراعظم کے سیلاب فنڈ میں ستائیس کروڑ روپے دیتا ہے اور اس میں سے چھبیس کروڑ اشتہار بازی پر خرچ کر دیتا ہے اور وزیر خزانہ کچھ نہیں کرسکتے۔ آپ وزارت خزانہ کی بے بسی دیکھئے کہ اسکے ایک ماتحت ادارے نیشنل بنک میں ویلفیئر فنڈ کے دو ارب روپے خردبرد کرلئے جاتے ہیں اور سپریم کورٹ اس معاملے میں پڑتی ہے‘ گویا فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور وزارت خزانہ کا وجود ہی نہیں ہے۔ اور وزیرخزانہ اتنے بڑے منصب پر بیٹھ کر مراعات یافتہ طبقے کے سامنے بے بس ہیں اور جو کام انہیں کرنا چاہیے تھا‘ وہ سپریم کورٹ کر رہی ہے۔
کاش! اس کافر بچے ڈیوڈ کیمرون ہی سے ہم کچھ سیکھ لیتے!