2005 کے زلزلے کے نام
اس نے کحرڑکی سے باہر کے نیلگوں اسمان کی وسعت اور نیچے بکھرے بادلوں کے دمکتے ٹکڑوں میں اور پھر جب زمیں کی ہریالی اوپر اٹھ کے قریب ایؑ تو زمین پر چمکتی پانی کی ٹیڑھی ترچھی لکیروں اور سیاہ فیتوں جیسی شاہراہوں میں کسی مانوس اپناییؑت کو محسوس کرنے کی پوری کوشش کی مگر ناکام رہا۔۔منظر پھیلتا گیا اور کھلونا گھرون کی آاباد دنیا میں ننھی منی کاریں دوڑتی دکھایؑ دینے لگیں تب بھی یہ اجنبیت کی خفت کم نہ ہویؑ تو اس نے احساس جرم کی اذیت کو دل کے درد کی ٹیس کی طرح اپنے سارے وجود میں پھیلتا محسوس کیا
چور نظروں سے اس نے اپنے ہمسفروں کو دیکھا جن کے چہرے بازیافت خوشیوں کی روشنی سے جگمگاتے محسوس ہوتے تھے کیونکہ اب چند منٹوں میں وہ اپنوں کی دید اور ان کی محبت بھری بانہوں کی گرفت۔پیار کے اشکون کی خوشی سے چراغاں انکھوں اورہونٹوں پر قربت کی ہفت رنگ کرنوں سے منور مسکراہٹوں میں ڈوب جانے والے تھے
چالیس سل پہلے کی طرح وہ پھر ایک اجنبی ہجوم میں سے تنہا گزرا۔۔ 1977 مین جب وہ لندن کے ہیتھرو ایر پورٹ پر اترا تھا تو دیار غیر میں نا پسندیدہ اجنبی ہونے کا پر عداوت احساس اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا تھا لیکن اج چالیس سال بعد دیس کی فضا میں نا اشنایؑ کا سفاک رویہ رحیم داد کو اپنی تذلیل کرتا محسوس ہوتا تھا اور اس کی انکھوں میں اترنے والے خوشی کے انسو دکھ کی زباں بن گےؑ تھے۔۔کہیں کچھ اپنا نہ تھا،اب دیس مین وہ پردیسی تھا
ٹرالی بیگ کوزنجیر سے بندھے کتے کی طرح بے رحمی سے گھسیٹتا وہ نا شناس ہموطنوں کے مجمع سے نکل کر ٹیکسی اسٹینڈ تک گیا اس کے سوٹ اور سفید ترشی ہوی مشت بھر سے زیادہ طویل داڑھی سے مرعوب ہو کے ایک دراییؑور نے اس سے گورا شاہی انگریزی می بات کرنی چاہی۔رحیم داد نے اس کے کندھےپر ہاتھ رکھ کے ہندکو میں بالا کوٹ تک کا کرایہ پوچھا تو اس کی بتیسی نکل ایؑ۔"اپ تو گراییؑں ہو میرے ۔۔ میں ا ایبٹ اباد کا رہنے والا ہوں جی۔اپ دو ہزار روپے دے دینا۔۔" یہ مقامی لوگوں سے مانگی جانے والی رقم سے دو گنا تھی۔مگر ڈالر اور پونڈ یا ریالوں کی سر زمین سے لوٹنے والوں کو ہیاں سب کچھ بہت سستا لگتا تھا
"روپے تو نہیں پتر" وہ ٹیسکی مین بیٹھ گیا "حساب سے پونڈ لے لینا"
باہر بھی ایک نامانوس دنیا تھی جس میں اس کے ۔وقت کی کویؑ بھولی بسری جھلک بھی نہ تھی۔ڈراییور اسے بڑے فخر سے اس علاقے میں ہونے والی ترقی کی نشانیاں دکھاتا رہا ، سنگ جانی پر ایک انگریز افسر کی یادگار اسے اجنبی ہجوم میں کسی اشنا صورت جیسی لگی لیکن اگے سڑک کے دونو طرف کے پہاڑی سلسلے کو دیکھ کر اس کا دل رنج سے بوجھل ہوگیا،،ان کی حالت خود اس کے دانتوں جیسی ہو گیؑ تھی۔۔وہ ٹوٹ پھوٹ کے ادھے بھی نہیں رہے تھے
" یہ۔۔یہ ان پہاڑوں کو کیا ہوا؟" اس کے دل سے جیسے دکھ کی سداۓؑ بازگشت سنایؑ دی
ڈرایؑیور ہسنا" سب عمارتون مین کھپ گےؑ سیمنٹ بن کے،،یہ دماکا سنا آپ نے" دن رات پہاڑوں کو کاٹ رہے ہیں اور پیسہ بنارپے ہین یہ ٹکسال ہے ان کیلۓ کی۔۔روکنے والا کویؑ نہیں۔۔ یری زندگی میں ہی ان کا وجود مٹ جاےؑ گا"
سارا راستہ و زمین کےنا مانوس خطوط میں گم ہو جانے ولی نشانیاں تلاش کرتا گیا اورگذر جانے والا وقت یادون کے نہاں خانون سے نکل کر شکستہ قبرو ں سے باہر آجانے والے بھوتوں کی طرح اسے ڈراتا رہا۔جب ٹیکسی بالا کوٹ میں داخل ہویی تو وہ پوچھتے پوچھتے رہ گیا کہ یہ تم مجھے کہاں لے آے ہو۔۔ پرانے متروک پل کی جگہ جدید طرز کے پل پر ٹریفک رواں دوان تھی۔۔لیکن اوپر جانے والے سید احمد شہید کے مزار کا راستہ نہیں بدلا تھا ۔ٹیکسی سے اتر کے وہ اجنبی بازاروں سے یوں گذرا جیسے وہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہے
اچانک اس نے خود کو اپنے ابایؑ گھر کے بند درقازے پر پایا۔۔اس پر بارش سے کاہی جم رہی تھی اور دریچوں کے پٹ بے رنگ ہوکے سیاہ پڑ چکے تھے وہ ساتھ والے گھر کے دروازے کے سامنے بت بنا سوچتا رہا کہ دستک دے۔۔یا یہیں سے لوٹ جاے۔احساس جرم کے شدید دباو کے ساتھ اس نے پرانے پھاٹک کی کنڈی بجایؑ اور گرد و پیش کی ساری تبدیلیوں سے نظری چراتا رہا
ملیشیا کا کرتہ اور کھدر کا چار خانے والا تہمد سنبھالتا خمیدہ کمر اورجھریون کے جال وانے چہرے کے ستھ رجب علی اپنی دھندلی آنکھوں کی سفید بھنووں پر کانپتی ہتھیلی کا سایہ کیے نمودار ہوا ۔وہ پیدا ہوا تو اس کا کزن تھا۔ساتھ رہا تو دوست اور بچھڑا تو دشمن تھا۔۔کچھ دیر وہ ایک داسرے کے مقابل منجمد کھڑے رہے
پھر رجب علی کی آواز کسی گہرے کنویں سے سنایؑ دی "رحیم داد ؟"
رحیم داد نےسر جھکا لیا۔۔اگلے چالیس سیکنڈ پھیل کر پچھلےچالیس برس کی خاموشی بن گۓ جس کا ہر لمحہ ایک عکس رکھتا تھا
رضب علی نے اس کا ہاتھ تھام لیا جو کسی ہٹھکڑی کی طرح تھا۔۔'اجا۔۔اندراجا رحیم داد"
وہ کال کوٹھری میں داخل ہونے والے کی طرح اس نیم تاریک کمرے میں داخل ہوا جس میں دو پرانی چارپاییاں اسی طرح بچھی ہویؑ تھین،،رجب علی چلایا۔۔" کلثوم۔۔ دیکھ کون ایا ہے ہمارے گھر" اس کی ہذیانی ہنسی میں تلخی تھی۔۔" کلثوم۔۔یہ حرامی مرا نہیں اب تک"
کلثوم ساےؑ کی طرح چلتی اکے اس کے مقابل رک گیؑ
"یہ رحیم دادا ہے۔۔غور سے دیکھ۔۔"
"رحیم داد؟" کلثوم نے زیر لب دہرایا"اچھا؟ رحیم داد ہے تو کیوں ایا ہے اب؟"
رحیم داد نے ایک دم جھک کے رجب علی کے گھٹنوں کو چھوا اور پھر اس سے لہٹ گیا"میں صرف اپنا گنا ہ بخشوانے ایا ہوں رجب علی۔۔اس کے بغیر میں ولایت میں مر بھی نہیں سکتا تھا۔۔خدا کیلؑے۔۔رسول کیلۓ جھے معاف کردے" وہ مضحکہ خیز بھونڈی اواز کے ساتھ روتا رہا۔۔پھر اس میں رجب علی کی آواز بھی شامل ہوگیؑ۔۔چالیس سالوں سے رکاہوا نمکین پانی گذرے وقت کو یوں بہا لے گیا جیسے بند ٹوٹنے سے انے والا سیلابی ریلا پرانی نیؑ ساری قبرون کوہڈیوں سمیت بہا لے جاتا ہے
رات کو قیمہ بھرے کریلے کھاتے ہوےؑ رھیم داد نے کہا۔"تیرے ہاتھ کا ذایقہ تو وہی ہے بھابو۔۔"
"اور تو اسی طرح چپڑ چپڑ کر کے کھاتا ہے اب بھی" وہ مسکرای
" تیرے باپ نے مجے انکار کرکے اور رجب علی کو قبول کرکے اچھا نہیں کیا تھا"
" بالکل ٹھیک کیا تھا اس نے۔۔تو اندر سےبرا کمینہ تھا۔۔
"بس غریب تھا میں۔۔اور کچھ نہین۔۔۔لیکن کمینگی بعد میں کی مین نے رجب علی کے ساتھ۔۔ اتنی اچھی قیمت دے رہا تھا وہ لیکن میں نے مکان اسے نہیں دیا۔۔"
رجب علی نے گھری سانس لی"بس قتل نہیں کرا سکا میں تجھے۔۔اس کا افسوس رہا مجھے "
کلثوم نے برتن سمیتے تو رحیم داد نے اپنا بیگ کھولا اور پلاسٹک کے تھیلون میں لپتی فایلوں کا ایک بنڈل نکالا"یہ میرےساتھ والے گھر کے سارے کاغزات ہیں۔۔یہ میں تیرے نام کرنے ایا ہون۔۔اور کویؑ مقصد نہیں چلیس سال بعد لوٹ کر آنے کا"
"اس کی قیمت معلوم ہے کیا ہوگیؑ ہے؟" رجب علی نے فایلوں کو نکالے بغیر ایک نظر دیکھا
"مجھے اس سے کویؑ غرض نہین،،بس یہ تو لے لے۔۔ قانونی کارروایؑ پوری ہوجاۓ،،پھر میں چلا جاوں گا واپس سکون سے مرنے کیلۓؑ۔۔یہاں کی مٹی تو میرے نصیب میں نہ تھی۔۔دیکھ انکار مت کرنا" رحیم داد نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا"یہ تلافی بہت ضروری ہے"
رجب علی پلکیں جھپکاۓ بغیر اسے دیکھتا رہا۔۔' میرے پاس کچھ پیسے ہیں۔۔"
'پیسوں کی بات مت کر۔۔عدالتی کارروایی میں کتنے دن لگ جاییں گے؟"
"دس پنرہ دن۔۔کل عدالت نو بجے کھلے گی۔۔پیشکار وہی گاما حرامی۔۔ تیرے مامے کا پتر۔۔۔رشوت اپنے باپ سے بھی نہ چھوڑے"
" منہ پہ مار اسکے جو مانگے۔۔کام جلدی کرادے۔۔میں نے واپس بھی جانا ہے،،تیری بھرجاٰی بہت بیمار ہے۔۔ لیکن ابھی مجھے سونا ہے ۔۔بیس گھنٹے کا جاگا ہوا ہوں۔۔ صبح جلدی جگا دینا ۔۔نو بجے ؑعدالت میں ہوں ہم۔۔"اس نے چارپای پر سر تک چادر تان لی،،اپنا لننن کے شاہانہ مینشن والا پر تعیش بیڈ روم یاد آنے سے پہلے وہ سو چکا تھا
" فکر نہ کر،،نو بجنے میں برا ٹایم ہے" رجب علی نے لایؑٹ اف کردی
زلزلہ جس نے چالی برسون کی دوستی دشمنی کو نفرتون اور محبتون کو دو ساتھ ساتھ کھڑے گھروں کے ملبے میں دفن کردیا نوبجے عدالت کے کھلنے بلکہ ان کی انکھ کھلنے سے بھی بہت پہلے آیا