(Last Updated On: )
وہ جو پنہاں تھا اجاگر ہو گیا
عشق تھا، دیوار میں در ہو گیا
جب چلا جھرنوں کی موسیقی ہُوا
وہ کہیں ٹھہرا تو مرمر ہو گیا
روشنی سا مجھ میں وہ گھلتا گیا
گوشہ گوشہ میں منور ہو گیا
اس کی خوابیدہ نظر، جادوگری
جاگنا میرا مقدر ہو گیا
کاسئہِ تشنہ فقیراں لائے تھے
بر نگاہِ لطف، ساغر ہو گیا
اک تنوع قطرہِ باراں میں تھا
اور جب سمٹا سمندر ہو گیا
چاند پر جا کر اسے رہنا پڑا
آہ یہ انسان بے گھر ہو گیا