کوئی صاحب علم چاہئے تو درد و کرب سے سسکتی ہوئی انسانیت کے لئے اپنی خدمات انجام دے سکتا ہے بس اسکے لئے اہم یہ ہے کہ دل سے لکھئے یا بیان کرے تو یقینآ اک تصور پیدا ہوہی جاتا ہے پر گر وہ آنکھوں دیکھئے مصائب کو بیان کرے اور انداز محبانہ بھی ہو اور مشفقانہ بھی دلربائی کا بھی اور سیاہ رات کا بھی جیتی آنکھوں سے دیکھے حسین خواب بھی ہوں اور تصور میں بسائے ارادے بھی ہوں تو لذت تحریر دل کو با جاتی ہے وہ خواہ دنیا کے کسی بھی خطے ارضی کا ہو جہاں میں گرچہ ہر سو آہو بکا کی صدائیں فضاؤں کو آزردہ کئے ہوئے ہیں پر کچھ ایسے بدنصیب خطے ارضی بھی ہیں جہاں مسلسل صدیوں کے بیت جانے کے بعد بھی سکوں جان نہیں ملتا جہاں ڈر اور خوف کی تمام شکنیں چہرے پر بکھری رہتی ہیں کچھ اس انداز سے کہ بنا ان شکنوں کے چہرہ بے حس لگتا ہے انہیں خطوں میں اک خطہ ارضی جسے دنیا وادی کشمیر کے نام سے جانتی ہے سلگ رہا ہے جس کے ہزاروں مسائل ہیں پر عالم جہاں اس کرب کا مداوا تو کیا اس کو قابل التفات بھی نہیں سمجھتا یوں ہی بلکتے سسکتے یہاں ہم نے جب آنکھیں کھولیں تو ہم واسطہ اب تک اسی آنسو بہانے سے ہے جو ہم نے پیدائش میں بہائے تھے یہ ستم اب بھی جا نہیں رہا ہے ہم ہیں ہمارے آنسو ہیں
وہ جو خواب ہی رہا
وادی کشمیر کے سلگتے بلکتے خطہ ارضی سے میرے عزیز عاقب شاہین صاحب (جان کر آپ کو حیرت ہوگئی کہ موصوف کی عمر ابھی صرف ۲۱ سال کی ہے پلوامہ کی ایک بستی راجپورہ لتر میں پیدائش ہوئی) نے اک خواب کے رستے ناسور جو کہ ہر جگر میں سلگتے ہوئے رس رہا ہے کو صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا ہے ان صفحات میں وہ درد و کرب کی داستان موجود ہے جو آدمی کی آنکھیں بگھانے کو کافی ہیں کچھ صفحات کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی میں تھک ہار گیا کہ کیسے وہ درد کی داستان مطالعہ کروں جو افسانوی ہونے کے بجائے حقیقی افسانوں پر مشتمل ہے اس میں موجود کردار گر چہ تخلیق کئے گئے ہیں پر اس کا حقیقت کی دنیا سے واسطہ موجود ہے
مختلف ادوار میں ترتیب دی گئی ناولوں جن میں نسیم حجازی عنایت اللہ التمش صادق سر دھنوی وغیرہ اہل قلم نے اپنے اپنے انداز کی ناولوں کو دنیائے علم و ادب کے حوالے کرکے اک فکر کی ترجمانی کی پر موصوف نے ان تمام چیزوں سے دور رہ کر اصل کرب کو اظہار کرنے کی کوشش کی ہے جہاں افسانوی کردار کی بو نہیں آتی بلکہ حقیقی کرداروں کا تذکرہ ملتا ہے اور ہر لمحہ آنکھیں آنسو بہانے کو مچلتی ہیں
کتاب کوئی بڑی بھی نہیں ہے پر قاری کو مجبور کرتی ہے کہ مطالعہ کی جائے اور بار بار مطالعہ کی جائے پر اس کتاب کا مطالعہ کرنے کو ہمت چاہئے دل کا صبر اور آنکھوں کا قرار چاہئے
جب آپ اس کتاب کو ہاتھوں میں لیں گئے تو یقینآ آپ کو یہ کہانی اپنے آس پاس ہوئے حادثات کا احساس دلائی گئی اور آپ ماضی حال کا ملا جلا تصور لے کر اس کے مطالعہ میں کھو جائیں گئے اور جوں ہی آپ اپنے خواب سے بیدار ہوجائیں گئے تو سوائے دعاؤں کے آپ کے پاس سوچنے کو باقی کچھ نہ رہے گا
کتاب میں اک طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے کہ حقیقت کو افسانوی کردار میں ڈھالا گیا ہے پر اس کی حقیقت ہر اس قاری پر از خود واضح ہوجاتی ہے جو خود اسی خطہ ارضی کا مکین ہو مصنف نے گرچہ کہیں کہیں پر سخت الفاظ کا تبادلہ بھی کردیا ہے جو کہ ایک قاری کے لئے عجیب تصور ہے کہ ایسے الفاظ کا تبادلہ کیا جائے پر مصنف کے سوز دل سے لکھی گئی تحریر نے اپنے حسن کے آنچل میں ان الفاظ کو کچھ یوں چھپا لیا ہے کہ ان الفاظ کی اور توجہ رہنا ہی محال ہے انتہائی بہترین کاوش و قابل قدر کام ہے جس کی زبان اردو ہی ہے پر اس کے صفحات پر الفاظ کی جو حسین مالا بکھیری گئی ہے وہ الفاظ مصنف کی اردو زبان پر گرفت مضبوط ہونے کی بھی عکاسی کرنے کے لئے کافی ہیں
اور یہ جو کتاب ہے وہ خواب ہی رہا کا اصل تصور ہے کہ اک شخص کچھ خوابوں کو دل میں بسائے یہ اپنی منزل کی اور رواں دواں ہونا چاہتا ہے پر اسے آگئے بڑھانے کے بجائے وہ خواب بکھرنے والوں کے ہاتھ آجاتا ہے اور خواب جو بسائے تھے ہزاروں جتن کرنے کے باوجود بھی ادھورے ہی رہ جاتے ہیں
تحریر میں سوز گداز کی کیفیت قاری پر حاوی ہوجاتی ہے امید کرتا ہوں کہ یہ تسلسل سے جاری رہے گا تا آنکہ بکھرے خوابوں کو کوئی تعبیر مل جائے اس کے لئے قوت حمیت اور ذوق علمی و ادبی ہونا لازم ہے جوکہ ہمارے جناب میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے رب الکریم آپ کی یہ کاوش اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے
کتاب کا مختصر تعارف اس نظم کے ذریعے آپ لگا لیں جو انہیں کی ہے
آؤ دیکھو ۔۔۔۔۔!!!
کشمیر میرا کتنا بے بس، بے زباں ہے۔۔۔۔
خوف سے سہمی مِری ہی وادیاں ہیں۔۔۔۔
ساری دُنیا خوش ہے لیکن۔۔۔!!!
غمزدہ بس میرا ہی تو آشیاں ہے۔۔۔۔
خوں کی نہریں بس یہاں بہتی ہیں ،لیکن
ظالمو۔۔۔۔!!! دیکھو ، تمہارے تو وہاں بس۔۔۔۔
شادیاں ہیں۔۔۔۔۔
کچھ نہیں باقی یہاں۔۔۔۔۔سب
تو ہوا برباد شاہیں۔۔۔۔!!!
اب بِنا طیّور کے کھنڈر ہی تو یہ
آشیاں ہے ۔۔۔۔۔!!!
اے خدا۔۔۔۔۔!!! کر رحم ہم پر
باغ اُجڑا ہے ہمارا
رو رہے سب باغباں ہیں۔۔۔
کتنے بے بس ہم ہیں، نہ تو آسرا کوئی ہمارا۔۔۔۔
اب تو بس تُو ہی ہمارا
مہرباں ہے ۔۔۔۔۔!!!
آخر پر ہماری طرف سے دل کی گہرائیوں سے مبارکباد وصول کرکے میرے محترم قبول فرمائین اس قابل قدر پیش قیمت کوشش کے لئے موصوف شعر و شاعری کا ذوق بھی رکھتے ہیں قارئین کی نظر ان کی ایک نظم کرتا ہوں
اہلِ جہاں کہتے ہیں جسے جنت ، وہ کشمیر ہے ہمارا
پنجہِ ظالم میں تڑپ رہا ہے ، ہماری آنکھوں کا تارا
وہ برف پوش راہیں ، اونچے کہسار سارے
شوخ کِھلتی کلیاں ، باغوں کے منظر وہ پیارے
چِڑیوں کا چہچہانا ، وادی کے خُوبرو نظارے
اُداس ہو گئے ہیں ، رو رہے ہیں لوگ سارے
صدیوں سے سسک رہی ہیں وادی کی یہ ہوائیں
سُنسان ہو گئی ہیں وادی کی سب فضائیں
خُوں سے تربتر ہیں ماؤں بہنوں کی ردائیں
کشمیر میں گُونجتی ہیں دِلخراش سی صدائیں
عاقب شاہین شکوہ یُوں نہ کر تو سارے..
اپنوں کے ہاتھوں ہی لُٹ گئے ہیں گھر ہمارے
شاہین نہ بُجھنے دینا اپنی آنکھوں کے تارے
اِک دن دُور ہو جائیں گے دُکھ درد سب ہمارے
اہلِ جہاں کہتے ہیں جسے جنت ، وہ کشمیر ہے ہمارا
پنجہِ ظالم میں تڑپ رہا ہے ، ہماری آنکھوں کا تارا