پہلے دو کہانیاں۔
ییلوسٹون نیشنل پارک امریکہ ساڑھے تین ہزار مربع میل پر پھیلا وسیع علاقہ ہے۔ انسانوں اور مویشیوں کے لئے خطرناک سمجھے جانے والے بھیڑیوں کو یہاں پر ختم کرنے سے یہاں کا ماحولیاتی سسٹم متاثر ہوا۔ 1995 میں یہاں پر سائنسدانوں نے 41 گرے بھیڑیئے چھوڑ دئے۔ ان کے اضافے سے یہ علاقہ بیس سال کے اندر بالکل بدل گیا۔ بھیڑیوں کے غائب ہو جانے کے بعد بارہ سنگھوں کی تعداد دگنی سے زیادہ ہو چکی تھی۔ یہ بارہ سنگھے کم عمر درختوں، جھاڑیوں اور گھاس کو چر جاتے تھے۔ پورے پارک میں اس کی وجہ سے نباتاتی زندگی متاثر ہوئی تھی۔ پودوں کا سائز کم ہو جانے کی وجہ سے خرگوش اور چوہوں کے چھپنے کی جگہ ختم ہو گئی تھے اور وہ اپنے شکاریوں کا آسانی سے نوالہ بن جاتے تھے۔ ان کی تعداد بہت کم رہ گئی تھی۔ ہرن ان بیریز کو بھی کھا جاتے تھے جو ریچھ اپنی چربی بڑھانے کے لئے استعمال کرتے تھے تا کہ سردیوں میں سو سکیں۔ شہد کی مکھیاں اور ہمنگ برڈ متاثر ہوئے کیونکہ ان کے لئے پھول کم تھے۔ چھوٹے پرندے جن کو اونچے درخت اپنا گھونسلہ بنانے کے لئے چاہیۓ تھیں، ان کی تعداد بھی کم ہونے شروع ہو گئی۔ اس جگہ بہتے دریا پر بھی بہت بڑا اثر پڑا۔ جب بھیڑئے موجود تھے تو جانور پانی والی جگہ پر ان کے خطرے کی وجہ سے دیکھ بھال کر جایا کرتے۔ ان کے بغیر یہ یہاں پر ریوڑ کی صورت میں جمع ہو جاتے اور یہاں کے پودوں کو بھی کھا جاتے۔ اس وجہ سے دریا کے قریب کی مٹی دریا میں جانا شروع ہو گئی۔ دریا کا پانی گدلا ہو گیا جس سے دریا کا راستہ بھی بدلنا شروع ہو گیا اور مچھلیاں بھی متاثر ہوئیں۔ بیور بیدِ مجنوں کے درخت سے دریا میں ڈیم بناتا ہے۔ درختوں کی کمی سے وہ کم ہونا شروع ہو گئے۔ ان کے نہ بننے کی وجہ سے مچھلیوں، جل تھلیوں اور اودبلاؤ کو نقصان پہنچا۔
بھیڑیوں کی واپسی سے یہ سب کتنی جلدی بہتر ہوا، یہ حیران کن تھا۔ اس وقت یہاں پر سو بھیڑیے ہیں۔ بارہ سنگھوں کی تعداد سترہ ہزار سے کم ہو کر چار ہزار رہ گئی ہے لیکن بچنے والے زیادہ صحت مند ہیں۔ مرنے والوں کی لاشوں کی وجہ سے عقاب، گیدڑ اور کوے زیادہ ہو گئے۔ ریچھوں کی تعداد بڑھ گئی۔ بھیڑیوں کے خوف کی وجہ سے بارہ سنگھوں نے کئی جگہ آنا چھوڑ دیا جس سے آسپن اور بیدِ مجنوں کے درختوں کا سائز بڑھنا شروع ہو گیا۔ دریا کے کنارے درختوں کا سائز پانچ گنا زیادہ ہو چکا ہے۔ چھوٹے پرندے ان کی وجہ سے واپس آنے لگے۔ دریا کے قریب اکٹھے نہ ہونے اور درختوں کی مضبوط جڑوں کی وجہ سے دریا کا کٹاؤ کم ہو گیا اور پانی صاف ہونے لگا۔ صاف پانی میں بیور ڈیم بنانے لگے جس کی وجہ سے مچھلیاں اور اود بلاؤ بڑھنے لگے۔ ساتھ لگے گراف اس پارک کے حالات پر ہیں۔
دوسری کہانی تنزانیہ کے سرنگیٹی کے علاقے کی جس کے لئے ساتھ لگی تصویر کا سائیکل دیکھ لیں۔
یہاں پر ہر قسم کے جانوروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ جب اس پر تحقیق کر کے اس کی وجہ جانی گئی تو وہ مویشیوں کی ویکسینیشن نکلی۔ مویشیوں میں ایک وائرس رنڈرپسٹ تھا جو سرنگیٹی میں جنگلی بھینسوں تک پھیل جاتا تھا۔ یہاں پر جب مویشیوں کی ویکسینیشن کا پروگرام شروع ہوا تو یہ وائرس ختم ہو گیا۔ اس کی وجہ سے جنگلی بھینسے بڑھ گئے۔ ان کے بڑھنے کی وجہ سے گھاس کا سائز کم ہو گیا۔ اس کی وجہ سے یہاں لگنے والی ہر سال کی آگ کی تعداد اور اس سے متاثرہ علاقے میں کمی آ گئی، جس کی وجہ سے درختوں کا سائز زیادہ ہونے شروع ہو گیا، جس کی وجہ سے زرافے زیادہ ہو گئے اور پھر اس ایکوسسٹم کے دوسرے ہر قسم کے جانور۔
کنزرویشن بائیولوجی میں اس اثر کو ٹرافک کاسکیڈ کہتے ہیں۔ وہ انواع جن کا اثر بہت زیادہ ہو انہیں کی سٹون سپیشیز۔ (آرویل کی زبان میں انہیں دوسروں سے زیادہ برابر کہا جا سکتا ہے)۔ کی سٹون سپیشز کئی طرح کی ہیں۔ ایک وہ شکاری جو باقی انواع کی تعداد میں توازن رکھتے ہیں۔ ایک انجینئر جو ماحول کو باقیوں کے لئے سازگار بناتے ہیں اور تیسرے میوچلسٹ جو باقی انواع کی زندگی کو بڑھنے میں مدد کرتے ہیں۔ ہر ایکوسسٹم کی اپنی کی سٹون سپیشیز ہیں، کہیں پر یہ کی سٹون شہد کی مکھیاں ہیں، کہیں پر سٹار فش، کہیں پر انجیر کے درخت، کہیں پر ہاتھی، کہیں طوطا مچھلی، کہیں ہاتھی اور کہیں کچھ اور۔
جب ہم فطرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ زندگی کی ترتیب، جانداروں کی تعداد اور ایکوسسٹم کے توازن بے ڈھنگے نہیں، فطری اصولوں کے تحت ریگولیٹ ہوتے ہیں۔ کی سٹون سپیشیز کا تصور ان کے کئی اصولوں میں سے ایک ہے۔ حال میں ہونے والی موزمبیق میں کنزرویشن بائیولوجی کی حیران کن کامیابی کی وجہ بھی انہی اصولوں کا استعمال ہے۔
اس سے بڑھ کر یہ جس طرح فطرت کا نظام جانداروں کے سسٹم میں توازن رکھتا ہے، بالکل ویسے ہی اصولوں کے تحت ہمارے جسم میں بھی۔
یہ اصول کیا ہیں، کیسے کام کرتے ہیں اور زندگی ویسے ہی کیوں جیسے نظر آتی ہے، یہ جاننے کے لئے اچھی کتاب
The Serengeti Rules: The Quest to Discover How Life Works and Why It Matters by Sean B. Carroll