کیوبن افسانہ ( ہسپانوی زبان سے )
وہ جنہیں منتبہہ کیا گیا ( Los advertidos )
الیخو کرپینٹیر (Alejo Carpentier )
اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ
۔ ۔ ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ’ پلوویہ ‘ ایک عمدہ خطہ ہے ۔ ۔ ۔
اس روز ہر طرف سے خشکی میں گِھرے سمندر ، یا آپ اسے ایک وسیع جھیل بھی کہہ سکتے ہیں ، پر صبح زندگی سے بھرپور تھی ؛ اس کی وجہ ڈونگے تھے ۔ اس جھیل کو اوپر سے آتے دریا کے بہاﺅ نے بنایا تھا ؛ دریا کا منبع کہا ں تھا یہ کسی کو معلوم نہ تھا ۔ دریا کے دائیں طرف سے تیز رفتار پھرتیلی کشتیاں اپنی دبلی پتلی جسامت پر فخر کرتی چلی آ رہی تھیں ؛ ان کے رُکنے سے پہلے ان کے پتواروں کی چال میں ہم آہنگی دیکھی جا سکتی تھی اور اُن کی لے کو بھی محسوس کیا جا سکتا تھا ۔ دوسری کشتیاں جو پہلے ہی ساکت ہو چکی تھیں ، ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑی تھیں اور ان میں بہت سے مسخرے ان کے اگلے پچھلے حصوں میں لدے لطیفے سناتے اور اپنے کرتب دکھا کر ہر ایک کو محظوظ کرتے ہوئے حیران بھی کر رہے تھے ۔
وہاں اُن قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی تھے جو صدیوں سے ایک دوسرے کے دشمن چلے آ رہے تھے اور اس دشمنی کا کارن یا عورتوں کا ا غوا اور یا پھر گوشت یا مکئی کی چوری تھا ۔ وہ ، لیکن ، اس وقت لڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے ؛ انہوں نے اپنے جھگڑے بھلا رکھے تھے، وہ آپس میں گفتگو تو نہیں کر رہے تھے لیکن بےوقوفوں کی طرح ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے ۔ ان میں ’ ویپیشن ‘ اور ’ شرریشن ‘ قبیلوں کے بھی مرد تھے جنہوں نے عرصہ ہوا ۔ ۔ ۔ دو تین یا شاید چار صدیاں پہلے ۔ ۔ ۔ ایک دوسرے کے شکاری کتوں کو کاٹ کر رکھ دیا تھا ، ہتھیار چرائے تھے اور پھر ایک دوسرے کے ساتھ ایسی وحشیانہ اورخونی جنگیں لڑیں کہ بعض اوقات ایک بندہ بھی نہ بچتا جو جنگ کی کہانیاں سنا سکے ۔ مسخرے ، جن کے چہرے روغن اور درختوں کی رطوبتوں سے رنگے ہوئے تھے ، ایک ڈونگے سے دوسرے پر چھلانگیں مارتے اوردفیں بجاتے پھر رہے تھے ؛ انہوں نے اپنے عضوء تناسلوں پر ہرن کے ماتھے اور سینگ لگا کر انہیں لمبا کر رکھا تھا اور اپنے خصیوں کے ساتھ سیپیوں کی لڑیاں باندھ رکھی تھیں ۔
عمومی امن اور بھائی چارے کا یہ ماحول نئے آنے والوں کے لیے حیران کن تھا ، جن کے ہتھیار ان کی پہنچ میں تھے اور وہ وار کرنے کے لیے تیار بھی تھے ؛ یہ ہتھیار ایسی رسیوں سے بندھے تھے جنہیں آسانی سے کھولا جا سکتا تھا ؛ یہ نظروں سے اوجھل ڈونگوں میں نیچے ، پیندوں میں رکھے گئے تھے۔ اور یہ سب ۔ ۔ ۔ کشتیوں کی کثرت ، کل کے دشمنوں کے درمیان بھائی چارہ اور ہم آہنگی ، مسخروں کا مسخرہ پن ۔ ۔ ۔ اس لیے تھا کیونکہ سارے قبیلوں ( قبیلے جو تیز دھاروں کے پار بسے تھے ، قبیلے جن کے پاس آگ نہیں تھی ، نارمڈِک قبیلے ، رنگ برنگے پہاڑوں پر بسے قبیلے اور وہ قبیلے جو دور پار وہاں بسے تھے جہاں پانیوں کے سنگم تھے ) کو یہ بتایا گیا تھا کہ ’ بوڑھے آدمی‘ کو ایک بڑے اور اہم کام جو اسے سونپا گیا تھا ، کے حوالے سے مدد درکار تھی ۔ وہ ایک دوسرے کے دشمن تھے یا نہیں ، لیکن سارے قبیلے بوڑھے ’ املی واک ‘ کی عزت کرتے تھے کیونکہ وہ اس دنیا میں ایک عرصے سے رہ رہا تھا ، وہ عاقل تھا اور اشیاء کے بارے میں سمجھ بوجھ رکھنے کے علاوہ اس کی پرکھ بھی بہت عمدہ تھی ۔ اس نے پہاڑ کی چوٹی پر تین پتھریلے ستون گاڑ رکھے تھے جن کی اوپرلی سطح ڈھول کی مانند ہموار تھی ، اور جب بھی کبھی گرج چمک بھرا طوفان کھڑا ہوتا تو ہر کوئی انہیں’ املی واک کے ڈھول‘ کہتا جیسے یہ گرج چمک انہی سے پیدا ہو رہی ہو ۔ ‘ املی واک ‘ سچ مچ کا دیوتا نہیں تھا ؛ لیکن وہ ایک ایسا انسان تھا جو جانکاری رکھتا اور ہر شے سے باخبر تھا ؛ وہ کئی ایسی باتیں جانتا تھا جسے عام بشر نہیں سمجھتے تھے ۔ وہ شاید عظیم ’ سرپینٹ ۔ بی گیٹر‘* سے بھی باتیں کر لیتا ، جو پہاڑوں کے نشیب و فرازکے ساتھ ایسے لیٹا تھا جیسے ان کے خدوخال محسوس کر رہا ہو، ویسے ہی جیسے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کے اتار چڑھاﺅ کو محسوس کرتا ہے ۔ اور جس نے ایسے ہیبت ناک دیوتا پیدا کیے تھے جو انسانی مقدر پر قادر تھے ؛ وہ اسے ’ اچھائی ‘ کے لیے ’ٹوکانہ‘ کی ست رنگی چونچ دیتے اور ’ برائی ‘ کے بدلے ’کورل ‘( مونگا ) سانپ ، جس کے چھوٹے سے شفاف سر میں مہا قاتل زہر چھپا ہوتا ۔ املی واک اتنا بوڑھا تھا کہ مذاق میں اکثر یہ کہا جاتا کہ وہ خود سے ہی باتیں کرتا رہتا اور اپنے سوالوں کے احمقانہ جواب بھی خود ہی دے ڈالتا تھا ؛ ایسا بھی کہا جاتا کہ وہ مرتبانوں ، ٹوکریوں اور تیر کمانوں سے یوں باتیں کرتا جیسے وہ بندے بشر ہوں ۔ لیکن تین ڈھولوں والا یہ بوڑھا آدمی جب بھی کبھی لوگوں کو طلب کرتا تو اس کا یہ مطلب ہوتا کہ کچھ نہ کچھ ہونے والا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ اس صبح ، اوپر سے آتے اورسکون سے بہتے دریائی پانیوں اوردریا کے دائیں جانب ، ڈونگوں کی اتنی بھرمار تھی کہ وہ سب ایک دوسرے سے یوں جڑے کھڑے تھے کہ تِل دھرنے کی جگہ بھی نہ بچی تھی ۔
اور جب ، بوڑھا ’ املی واک ‘ ان کے سامنے ظاہر ہوا تو پر طر ف موت کی سی خاموشی چھا گئی ؛ وہ اس چپٹی چٹان پر کھڑا تھا جو پانی میں سے ایسے ابھری ہوئی تھی جیسے ایک بڑے پُل کا نصف حصہ ہو ۔ مسخرے اپنے اپنے ڈونگوں میں واپس چلے گئے ، عاملوں و جادوگروں نے ، جنہیں اب کم کم ہی سنائی دیتا تھا ، اپنے کان اس کی طرف کر لیے اور عورتوں نے اپنے ہاونوں میں دستے چلانا بند کر دئیے ۔ دور پار کھڑی کشتیوں سے یہ اندازہ لگانا ناممکن تھا کہ املی واک مزید بوڑھا ہوا تھا یا نہیں ۔ وہاں سے وہ اشارے کرنے والا ایک کیڑا مکوڑا لگ رہا تھا ؛ وہ اس چٹان کی چوٹی پر ایک بہت ہی چھوٹی ، مگر متحرک شے لگ رہا تھا ۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور بولنا شروع کیا ۔ اس نے کہا کہ بہت بڑی ہلچلیں انسانیت کے لیے خطرہ بن رہی تھیں ؛ اس نے کہا کہ اس برس سانپوں نے درختوں پر سب سے اونچے حصوں پر انڈے دئیے تھے ؛ اس نے کہا کہ ، گو اس کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اس کی وجہ بتا سکے لیکن ایک بڑی اور عمومی تباہی سے بچنے کے لیے یہی بہتر تھا کہ پہاڑیوں ، پہاڑوں کی چوٹیوں اوراس کے سلسلوں میں پناہ لی جائے ۔
” وہاں تو کچھ اُگتا ہی نہیں ہے ۔“ ، ایک ’ واپیشن ‘* نے ایک دوسرے واپیشن سے کہا جو مکاری سے مسکراتے ہوئے ، بوڑھے کی باتیں سن رہا تھا ۔
ادھر ، بائیں جانب ، جہاں وہ ڈونگے جمع تھے جو بالائی علاقوں سے آئے تھے ، ایک شور اٹھا ۔ کوئی چلایا ؛ ” کیا ہم نے یہی سننے کے لیے دو دن اور دو راتیں کشتی چلائی اور یہاں آئے ؟ “
” اصل میں کیا ہونے والا ہے ؟ “، دائیں طرف کے لوگ چیخے ۔
” دیوار کی جانب ہمیشہ وہی جاتے ہیں ، جو کمزور ہوتے ہیں ۔“ ، بائیں طرف جو تھے ، وہ چلائے ۔
” اصل بات کی طرف آﺅ ! اصل بات بتاﺅ ! “ ، دائیں طرف والوں نے کہا ۔
بوڑھے نے ایک بار پھر ہاتھ اٹھایا ۔ مسخروں پر پھر سے خاموشی طاری ہو گئی ۔ بوڑھے نے پھر دہرایا کہ اسے یہ حق نہیں دیا گیا تھا کہ اس نے جانکاری کے عمل میں جو کچھ جانا تھا ، وہ اس عمل کے مقصد کو آشکار کرے ۔ اور یہ کہ اُس گھڑی ، اِس بات کی ضرورت تھی کہ آدمی اپنے ہتھیاروں اور اوزاروں کے ساتھ ، جتنی جلدی ممکن ہو ، بہت سارے درخت کاٹ ڈالیں ۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اس نے انہیں ، اس کام کے بدلے مکئی دینی تھی ؛ اس کے پاس اس کی ایک بڑی کاشت موجود تھی اور اس کے گودام ’ کساوا ‘ کے آٹے سے بھرے ہوئے تھے ۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اس نے ، سب کو ، جو وہاں موجود تھے ، ان کے بیوی بچوں ، عاملوں و جادوگروں اور مسخروں ، کو وہ سب مہیا کرنا تھا جو انہیں درکار تھا اور بعد ازاں اور بھی بہت کچھ ساتھ لے جانے کے لیے دینا تھا ۔ اورپھر اس نے ایک عجیب سی موٹی اور کھردری آواز میں یہ بھی کہا کہ ، اس برس انہوں نے بھوک کے ہاتھوں نہیں مرنا تھا اور نہ ہی انہیں بارشوں کے موسم میں کینچوے کھانے پڑنے تھے ۔ جو اسے جانتے تھے وہ اس کی عجیب لہجے میں کی گئی اس بات پر حیران تھے ۔ اس کے کہنے کے مطابق ایک بات اہم تھی ؛ ان لوگوں کو درختوں کی کٹائی ، صفائی سے کرنی تھی ، ان کی جڑوں میں آگ لگا کر انہیں گرانا تھا ، ان کی چھوٹی بڑی شاخوں کو جلانا اور ٹنڈوں و گانٹھوں سے پاک تنے ؛ جو ایسے صاف اورہموار ہوں جیسے اوپر پہاڑ پر رکھے ڈھولوں کی اوپرلی سطح تھی ، لا کر املی واک کو دینا تھا ۔ ایسا کہتے ہوئے اس نے اوپر کی طرف اشارہ بھی کیا اور یہ بھی کہا کہ وہ ان تنوں کو اس وقت تک لڑھکائیں اور پانی پر سے گزاریں جب تک وہ خالی جگہ پر نہ پہنچ جائیں ؛ وہ انہیں وہیں ڈھیر کریں ۔ ۔ ۔ اس نے ایک وسیع قدرتی میدان کی طرف اشارہ بھی کیا ۔ ۔ ۔ اور مزید کہا کہ وہیں ، گیٹوں کی مدد سے ہر قبیلے کے لائے تنوں کو گنا بھی جانا تھا ۔ بوڑھے نے بولنا بند کیا ۔ لوگوں کی تائیدی نعرے بھی تھم گئے اور کام کا آغاز ہوا ۔
۔ II
” بوڑھا پاگل ہے ۔“ ، ‘ واپیشن ‘ قبیلے کے لوگوں نے کہا ، ایسا ہی ’ شری شانوں‘ نے کہا اور یہی کچھ ’ گواہی بوس‘ اور ’ پیاروس ‘ بھی بولے ۔ اور پھر سارے قبیلوں کے وہ لوگ بھی یہی بولے جو درخت کاٹ کاٹ کر ، ان کے تنے املی واک کو لا کر دے رہے تھے اور وہ ان سے ایک بہت بڑا ’ ڈونگا ‘ بنا رہا تھا ۔ ۔ ۔ یہ کم از کم دیکھنے میں تو ایک ڈونگا ہی لگ رہا تھا ۔ ۔ ۔ ایک ایسا ڈونگا جس کا خیال کسی انسانی دماغ میں ابھر نہیں سکتا تھا ۔ یہ ایک مضحکہ خیزڈونگا تھا جو ممکنہ طور پر تیر نہیں سکتا تھا اور اس کی اونچائی سطح آب سے پہاڑ کی اس ڈھلوان تک جا رہی تھی جس سے اوپر تین ستون نما ڈھول رکھے تھے ، اور تو اور وہ اسے ناقابل فہم انداز میں اندر سے آگے پیچھے کھلنے والے دروازوں کے ذریعے منقسم بھی کر رہا تھا ۔ اس تین منزلہ ڈونگے کے اوپر کچھ ایسا بنایا جا رہا تھا جو ایک مکان سے مشابہہ تھا اور جس کی چھت ’ موریچی ۔ پام ‘ کے پتوں کی ایک دوسرے پر چڑھی چار تہوں سے بنی ہوئی تھی ۔ اس کے چاروں طرف ایک ایک کھڑکی تھی اور ان سب کے علاوہ اس کا پیندا اتنا گہرا تھا کہ یہ ، اس خطے کے دریاﺅں میں ، جن میں جابجا ریت کے ٹیلے اور ادھ ڈوبی چٹانیں تھیں ، تیر ہی نہیں سکتا تھا ۔ یوں یہ بات پریشان کن اور سمجھ میں نہ آنے والی تھی کہ اس کی شکل ڈونگے جیسی کیوں رکھی گئی تھی جس میں پیندا اور سہارا دینے کے لیے وسطی ستون اور وہ سب کچھ بھی جو بحری سفر کے ضروری ہوتا ہے ، بھی تھا ۔ لیکن اسے تو اس سفر کے لیے استعمال ہی نہ کیا جا سکتا تھا ۔ یہ نہ تو ایک مندر ہو سکتا تھا کیونکہ دیوتاﺅں کی عبادت تو پہاڑوں کی چوٹیوں کے درمیان موجود کھوکھلی غاروں میں ہوتی تھی ؛ ان غاروں میں جنہیں ان کے آباﺅاجداد نے جانوروں ، شکار کے مناظر اور بڑی چھاتیوں والی عورتوں کی تصویریں بنا کر سجا رکھا تھا ۔
بوڑھا یقیناً پاگل تھا لیکن اس کا پاگل پنا منافع بخش تھا ۔ وہاں کساوا اور مکئی تھی اور ابھی بہت سی مکئی کو مرتبانوں میں خمیری عمل سے گزار کر اس کی ’ چیچا ‘ * بنائی جانی تھی ۔ وہ اس ’ دیو ہکل ڈونگے‘ کے سایے تلے جشن منا سکتے تھے جو ہر آنے والے دن پہلے سے زیادہ بڑا ہو رہا تھا ۔ بوڑھے نے اب ان سے وہ سفید لیس دار مادہ مانگنا شروع کر دیا تھا جو ایک ایسے درخت کی شاخوں سے نکلتا تھا جس کے پتے چپچپے تھے ۔ وہ ان سوراخوں اور دراڑوں کو بھرنا چاہتا تھا جو آپس میں صحیح طورنہ بیٹھے تنوں کے درمیان موجود تھے ۔ قبیلوں کے لوگ رات کے وقت الاﺅ کی روشنی میں رقص کرتے ؛ ان کے عامل و جادوگر بڑے پرندوں اور بھوتوں کے مکوٹھے پہنتے ، مسخرے بارہ سنگھوں ، مکڑیوں اور مینڈکوں کی نقالی کرتے ؛ ان کے درمیان مقابلہ بازی ہوتی اورمکالمہ ہوتا یا پھر قبیلوں کی سطح پرایسے جوڑ پڑتے جن میں کسی کا بھی خون نہ بہتا ۔ نئے قبیلے سامنے آتے اورنئے کمالات دکھانے کی پیش کش کرتے ۔ یہ جشنی کیفیت اس وقت تک جاری رہی جب ایک روز’ املی واک ‘ نے گھر کی چھت پر ایک پھولوں بھری شاخ گاڑی اور دیو ہیکل ڈونگے کے عرشے پر کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ کام ختم ہو گیا تھا ۔ ہر بندے کو کساوے کا آٹا اور مکئی دی گئی ، چھوٹا موٹا گلہ تو رہا لیکن تمام قبیلے اپنے اپنے علاقوں کو لوٹ گئے ۔ اورپیچھے بے تکا سا ڈونگا ، بھرے چاند کی روشنی میں کھڑا تھا ، ایک ایسا ڈونگا جیسا پہلے کسی نے نہ دیکھا تھا ۔ یہ ایک ایسی زمینی عمارت تھی ، جو بنی تو ایک بحری جہاز جیسی ہوئی تھی اور اس کے اوپر ایک گھر بھی بنا ہوا تھا اور جس نے کبھی تیر نہیں سکنا تھا ؛ بوڑھے املی واک کو اس گھر کی چھت ، جو ‘ موریچی ۔ پام ‘ کے پتوں کی چار تہوں سے بنی ہوئی تھی ، پر کھڑا دیکھا جا سکتا تھا ؛ وہ گہری سوچ میں تھا اور ساتھ ہی ساتھ عجیب و غریب اشارے بھی کر رہا تھا ۔’ تمام چیزوں کے خالق کی عظیم آواز‘ اس سے مخاطب تھی ۔ اس نے مستقبل کی حدوں کو توڑ دیا تھا اور اب وہ خفیہ دنیا سے ہدایات وصول کر رہا تھا ؛
” تمہیں دنیا کو پھر سے آباد کرنا ہو گا جس کے لیے تمہاری بیوی کو چاہیے کہ وہ پام کے بیج اپنے کندھوں سے پیٹھ کی طرف پھینکے ۔“
وقتاً فوقتاً عظیم ’ سرپینٹ ۔ بی گیٹر‘ کی آواز سنائی دیتی رہی ؛ آواز جو قاتل مٹھاس کی وجہ سے خوفناک تھی اور اس کے کہے الفاظ خون جما دینے والے تھے ۔
” میں ہی کیوں !“ ، بوڑھے املی واک نے سوچا ، ” جسے یہ عظیم راز بتایا گیا ہے راز جسے بقیہ ساری نوع انسانی سے پوشیدہ رکھا گیا ؟ مجھے ہی کیوں چُنا گیا کہ میں یہ بھیانک منتر پڑھوں اور اس کار ِعظیم کو سرانجام دوں ؟ “
ایک متجسس مسخرہ ، جو جانے والی آخری کشتیوں میں موجود تھا ، پیچھے رُکا رہا کہ دیکھ سکے کہ دیوہیکل ڈونگے والی اس عجیب جگہ ، پر آگے کیا ہونے والا تھا ۔ اور جب چاند ارد گرد کے پہاڑوں کی اوٹ میں چھپ گیا تو غیر معمولی اور ناقابل فہم منتر سنائی دئیے ؛ یہ ایک ایسی آواز میں تھے جو املی واک کی آواز سے کہیں زیادہ طاقتور تھی ۔ اور پھر سبزے ، درختوں ، زمین اور ان جگہوں پر گری شاخوں ، جہاں پر درخت کاٹے گئے تھے ، سے کچھ بنا اور اس نے حرکت کرنا شروع کر دی ۔ وہاں ایک ایسی آواز تھی جس میں چھلانگیں لگانے ، اڑنے ، رینگنے، نگلنے کے علاوہ دیو ہیکل ڈونگے کی طرف دھکیلا جانا بھی شامل تھا ۔ سحر ہونے سے پہلے آسمان بگلوں سے سفید ہو گیا ۔ ایسے لگتا تھا جیسے اس پر ان کی لمبی چونچوں کا ایک وسیع و عریض غول تن گیا ہو ، یہ بگلے شور و غوغا کرنے کے ساتھ ساتھ چیخ رہے تھے یوں یہ ایک گرج پیدا کر رہے تھے جس میں ان کے پروں اور پنجوں کی حرکت کی کھڑکھڑاہٹ بھی شامل تھی ؛ یہ ایک ایسا غول تھا جس میں ان کی چونچیں سینگوں کی مانند لگ رہی تھیں اور ایسے تنی ہوئی تھیں جیسے اترا رہی ہوں ، اور یہ غول خوفزدہ کر دینے والی تیز رفتاری سے راستہ بناتے ہوئے اس ڈونگے کی جانب بڑھ رہے تھے اور اس میں بنی چھتری تلے منہ چلاتے ہوئے فقط ہوا ہی کھاتے ہوئے بیٹھ رہے تھے ۔ نیچے زمین پر ، پانی اور خشکی دونوں سے ، ہر طرح کے رینگنے والے جانور ، بڑی چھپکلیاں ، ہولے ہولے چلنے والے ، ہر طرح کے گرگٹ اور چھوٹے سانپ جو اپنی دموں سے جھنکار پیدا کر رہے تھے ، انناس کی شکل بنائے یا کسی امبر یا مونگے کے ساتھ لپٹے اس ڈونگے کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ یہ مخلوقات دوپہر گزر جانے کے کافی دیر بعد تک وہاں آتی رہیں ۔ ۔ ۔ اور وہ جانور ، جیسے لال ہرن یا دوسرے ، جیسے کچھوے، جنہیں ، اس انڈے دینے والے موسم میں ، لمبے راستے طے کرنے میں دشواری کا سامنا تھا ، آخرمیں پہنچنے والوں میں شامل تھے ۔ اورجب اس نے دیکھا کہ بالآخر جب آخری کچھوا بھی ڈونگے میں داخل ہو گیا تو بوڑھے املی واک نے ڈونگے کا بڑا کھٹکے دار دروازہ بند کیا اور ڈونگے میں سب سے اوپر بنے مکان کے سب سے اونچے حصے میں گیا ، جہاں اس کے خاندان کی عورتیں موجود تھیں ۔ ۔ ۔ کہنے کا مطلب ہے کہ اس کا قبیلہ موجود تھا ، جس کے بندے تیرہ برس کی عمر میں ہی بیاہے جاتے ۔ ۔ ۔ یہ عورتیں اپنے اپنے ہاونوں کے ساتھ کام میں مصروف تھیں ۔ اور پھراس دن آسمان کالا ہو گیا ۔ یہ اتنا کالا تھا جیسے سیاہ علاقوں کی مٹی آسمان پر چڑھ گئی ہو اوروہ پھیل کرافق تا ا فق چھا گئی ہو ۔
تب ’ ہر شے کے خالق کی عظیم آواز‘ کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ؛
” اپنے کان ڈھانپ لو ۔“
اور تب ایک گرج سنائی دی ، املی واک نے اپنے کان بس سرسری طور پر ہی ڈھکے ؛ یہ گرج اتنی خوفناک اور طویل تھی کہ اس دیو ہیکل ڈونگے میں موجود سارے جانوروں کے کان بند ہو گئے اور پھر بارش شروع ہو گئی ۔ لیکن یہ بارش ویسی نہ تھی جیسی کہ بندوں کی جانکاری میں تھی ۔ یہ خداﺅں کے غصے کے اظہار والی بارش تھی ۔ یہ پانی کی ایک ایسی لامحدود دیوار تھی جو اوپر سے نیچے اترے جا رہی تھی ؛ یہ پانی کی ایک ایسی چھت تھی جو تواتر سے ہر شے کو نگلے جا رہی تھی ۔ اور جب اس بارش میں سانس لینا بھی دشوار ہو گیا تو بوڑھا مکان کے اندر چلا گیا ( اور مسخرہ بالائی علاقوں کی طرف دوڑنے لگا ) ۔ بارش کا پانی اندر بھی رِس رہا تھا ، عورتیں رو رہی تھیں اور بچے چیخیں مار رہے تھے ۔ اور یہ بتانا ممکن نہ رہا تھا کہ دن تھا کہ رات ؛ بس ہر طرف رات ہی کا راج تھا ۔ یہ درست تھا کہ املی واک کے پاس کچھ بتیاں تھیں جنہیں وہ ایک دو دن یا تین چار راتوں کو جلا کر گزارا کرتا رہا لیکن جب یہ بتیاں ختم ہو گئیں تو وہ اپنے حساب کتاب کے حوالے سے تذبذب میں پڑ گیا اور اس نے رات کو دن اور دن کو رات سمجھنا شروع کر دیا ۔ اور پھر وہ وقت آیا جسے بوڑھا کبھی نہ بھول پایا ؛ ڈونگے کا مہرہ ایک طرف کو جھکنے لگا ۔ کوئی طاقت تھی جو ڈونگے کے ڈھانچے کو ہوا میں بلند کر نے کے علاوہ اسے اوپر اٹھا کر دھکیل رہی تھی ؛ گو ڈونگے کا ڈھانچہ جسے ‘ ان ‘ کے احکامات پر بنایا گیا تھا ، جو سب پر قادر تھے ۔ تناﺅ، خوف اور تذبذب کے لمحات گزرے تو املی واک نے ’ چیچا ‘ کا ایک پورا مرتبان پی ڈالا ، اسے لگا جیسے اس پر ایک دم توڑتی موج جیسی سستی چھا گئی ہو ۔ دیو ہیکل ڈونگے نے خشکی سے اپنا آخری ناطہ بھی توڑ لیا تھا اور وہ پہاڑوں کے درمیان تیز دھاروں کی دنیا میں آگے بڑھنے لگا تھا ۔ پانی کے تیز دھاروں نے، جو اسے مزید آگے لیے جا رہے تھے ، بندوں اور جانوروں کی چھاتیاں یکساں طور پر خوف سے بھر دیں ۔ دیوہیکل ڈونگا اب پانی پر تیر رہا تھا ۔
۔ III
پہلے تو املی واک ، اس کے بچے ، ان کے بچے ، ان بچوں کے بچے اوران سے بھی آگے کی اولادوں نے ٹانگیں پھیلائے ساتھ ساتھ جڑے ، چیختے چلاتے ہوئے، عرشے پر ڈونگے کی مہار سنبھالنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے ۔ پہاڑوں میں گِھرا اور بجلی کی کڑک سے لرزتا دیوہیکل ڈونگا ایک تیز دھارے کے تھپیڑے کھاتا دوسرے دھارے میں آگے بڑھتا رہا اور بسااوقات کناروں سے ٹکرا کر مڑ بھی جاتا ۔ وہ ساحلی چٹانوں میں پَھسنے سے اس لیے محفوظ رہا کہ پانی کا تیز اور بپھرا بہاﺅ اسے آگے سے آگے ہی لیے جا رہا تھا ۔
بوڑھے نے جب دیو ہیکل ڈونگے کے بالائی کناروں کے اوپر سے جھانکا تو اس نے دیکھا کہ ڈونگا بے قابو انداز میں ، چکراتا ہوا ، بِنا کسی سمت کے ( کہ تارے تو دکھائی دے ہی نہیں رہے تھے ) مائع کیچڑ کے سمندر میں آگے بڑھ رہا تھا ؛ سمندر جو پہاڑوں اور آتش فشاں پہاڑوں کا قد چھوٹا کر رہا تھا ۔ تب اس نے ایک آتش فشاں کے تنگ دہانے کو قریب سے دیکھا جس نے ایک بار شعلے اگلے تھے لیکن اب اس کے لاوے سے تر کنارے کسی طور متاثر کن نہ رہے تھے ۔ پہاڑ چھوٹے سے چھوٹے ہو رہے تھے اور ان کی ڈھلوانیں پانی میں گم ہو چکی تھیں ۔ یہ دیو ہیکل ڈونگا اب اپنے غیر متعین راستے پر بڑھتا کم گہرے لیکن خطرناک پانیوں کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ بعض اوقات وہ مکمل طور پر گھوم جاتا اور پھرسیدھا ہو کر آبشاروں کی طرف بڑھنے لگتا جن کے نیچے پانی نسبتاً پرسکون تھا ۔ یہ ، چنانچہ ، انجانی تنگ آبناﺅں سے ہوتا آگے بڑھتا ہی گیا ۔ اور جب املی واک کے غلط سلط حساب کے مطابق ، اس خوفناک بارش کو برستے ہوئے بائیس سے زیادہ روز ہو گئے تو آسمان سے گرتا پانی اچانک تھم گیا ۔ تب تک ایک وسیع و عریض جھیل بن چکی تھی ، ایک ایسا وسیع اور ساکن سمندر جس کے گرد ان پہاڑوں کی چوٹیاں نظر آ رہی تھیں جو ابھی بھی پانی میں پوری طرح ڈوب نہیں پائیں تھیں اور جن کے ڈھلوانی ساحلوں پر مٹی بھرا کیچڑ ہی کیچڑ تھا اور اب یہ ساحل بارش سے پہلے والی عمومی سطح سے ہزارہا بالشت کی اونچائی پر تھے ۔ دیوہیکل ڈونگا بھی یہیں ساکن پانی پر کھڑا ہو گیا ۔ ایسا لگتا تھا جیسے’ سب چیزوں کے خالق کی عظیم آواز ‘ نے اس جدل پر روک لگا دی ہو ۔ عورتیں اپنی پتھریلی چکیوں کی طرف لوٹ گئیں ۔ نچلے عرشوں پر سارے جانور سو رہے تھے ؛ کشف و الہام والے دن سے ہی انہیں مکئی اور کساوے کی خوراک کھانے کو دی جا رہی تھی ؛ ان کو بھی جو گوشت خور تھے ۔ تھکے ہارے املی واک نے ‘ چیچا ‘ کا ایک بڑا ڈول گلے سے نیچے اتارا اور خود کو اپنے جھولن کھٹولے پر گرایا اور سو گیا ۔
وہ تین دن تک سوتا رہا اور اس کے بعد تب جاگا جب دیو ہیکل ڈونگے کو کسی شے سے ٹکرانے کے بعد زوردار جھٹکا لگا ۔ لیکن یہ کوئی چٹان نہ تھی ، نہ ہی کوئی پتھر اور نہ ہی فوصل* زدہ وہ قدیمی درخت ، جو کبھی جنگلات کی کٹائی کے دوران وہاں پڑے رہ گئے ہوں ۔ اس جھٹکے نے بہت سی اشیاء جیسے مرتبان ، برتن اور ہتھیار و اوزار وغیرہ کو الٹا پلٹا کر رکھ دیا تھا ۔ لیکن یہ جھٹکا کچھ ایسا تھا جیسے پانی میں بہتی ایک لکڑی دوسری اپنے جیسی ہی لکڑی سے ہی ٹکرائی ہو ، یا جیسے پانی میں تیرتے درخت کا ایک تنا دوسرے تیرتے تنے سے ٹکرایا ہو اور ایک دوسرے کی چھال الگ کرتے ہوئے ، دونوں ، میاں بیوی کی طرح ساتھ جڑے ، تیرنے لگے ہوں ۔
املی واک اپنے ڈونگے کے سب سے بالائی حصے میں گیا ۔ اس کا ڈونگا ایک عجیب سی شے کے ساتھ جڑا ہوا تھا ۔ اسے کوئی نقصان نہ پہنچا تھا ، لیکن یہ ایک بڑی کشتی سے ٹکرایا تھا ؛ اس کشتی کا ڈھانچہ اور اطراف کی پٹیاں ننگی تھیں اور لگتا تھا کہ اسے بانسوں اور سمندری گھاسوں کی بُنت سے بنایا گیا تھا ۔ اس کشتی کا ایک اور پہلو خاصا پُرتجسس تھا ؛ اس میں ایک بادبانی مستول تھا ، جو اس وقت کی ہوا میں بھی گھوم رہا تھا ۔ ۔ ۔ تیز ہوا تب چلنا بند ہو چکی تھی ۔ ۔ ۔ مستول کے چاروں طرف کے بادبان ہوا کو یوں سمیٹ رہے تھے جیسے یہ کسی جھونپڑی کی چمنی ہو ۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ یہ جہاز اندھیرے میں تھا اور اس پر زندگی کے کوئی آثار بھی نہ تھے ، بوڑھے املی واک نے اپنی تجربہ کار آنکھوں ، جو یہ بھی دیکھ لیتی تھیں کہ مرتبان میں کیا تھا ۔ ۔ ۔ مرتبان چیچا سے بھرا تھا یا نہیں ۔ ۔ ۔ سے اسے ناپنا شروع کیا ۔ یہ تقریباً تین سو کیوبِٹ* لمبا ، پچاس کے قریب چوڑا اور لگ بھگ تیس کیوبٹ اونچا تھا ۔
” یہ تو میرے ڈونگے جتنا ہی ہے ۔“ ، اس نے خود سے کہا ، ” حالانکہ میں نے منظور کردہ الوہی پیمائشوں میں سے سب سے بڑی والی پیمائشیں استعمال کی تھیں ۔ اور چونکہ دیوتا آسمانوں ہی میں سفر کرتے ہیں ، اس لیے انہیں آبی سفر کے بارے میں علم کچھ کم ہی ہوتا ہے ۔“
اس عجیب جہاز کا کھٹکے داردروازہ کھلا اور ایک چھوٹے قد کا بوڑھا باہر نکلا ؛ اس نے لال ٹوپی پہن رکھی تھی اور وہ شدید غصے میں لگتا تھا ۔
” کیا ! کیا ہم دونوں کو ایک سا ہی خیال آیا تھا ؟ “، وہ ایک عجیب سی زبان میں چلایا ؛ اس کی آواز میں ہردو الفاظ کے درمیان ایک طرح کا اتار چڑھاﺅ تھا ۔ املی واک اس کی بات سمجھ گیا کیونکہ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب عاقل تمام انسانی زبانیں اور لہجے سمجھ لیتے تھے ۔
املی واک نے اس عجیب سے جہاز پر رسے پھینکنے کاحکم دیا ؛ وہ ان کے ذریعے اس کے عرشے پر گیا اور دوسرے بوڑھے سے گلے ملا ؛ دوسرا بوڑھا زرد رنگت کا تھا ، جس نے بتایا کہ وہ’ سلطنت ِ سِن ‘ سے آیا اور اپنے ساتھ کچھ جانور بھی لایا تھا جو اس کی’ عظیم کشتی‘ کے اندرونی حصے میں تھے ۔ اس نے کھٹکے دار دروازہ کھولا اور املی واک کو لکڑی کے بنے بہت سے کمرے دکھائے جن میں انجانے جانوروں کی ایک دنیا آباد تھی ، ظاہر ہے یہ املی واک کے لیے حیاتیات کی ایسی انواع تھیں جس کا اسے کبھی گمان بھی نہ ہوا تھا ۔ وہ ایک بدشکل کالے ریچھ کو دیکھ کر خوفزدہ بھی ہوا جو ہاتھوں اور پیروں پر چلتا ہوا اس کی جانب بڑھا تھا ؛ نچلے حصے میں ایسے ہرن تھے جو خاصے بڑے سائز کے تھے اور ان کی کمروں پر کوہان تھے اور کچھ بلی جیسے بڑے جانور بھی تھے جنہیں باندھ کر رکھا گیا تھا اور وہ ایک لمحے کے لیے بھی نچلے نہیں بیٹھ رہے تھے ، وہ انہیں ’ آﺅنس ‘* کہتے تھے ۔
” تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ “ ،’سلطنت ِ سِن‘ سے آئے بوڑھے نے املی واک سے پوچھا ۔
” اور تم ؟ “ ، املی واک نے اس پر الٹا سوال داغ دیا ۔
” میں نوع ِانسانی اور جانوروں کی انواع کو بچا رہا ہوں ۔“ ،’ سلطنت ِسِن‘ سے آیا بوڑھا بولا ۔
” میں بھی نوع ِانسانی اور جانوروں کی انواع کو بچا رہا ہوں ۔“
تبھی ’سلطنت ِ سِن ‘ کے بوڑھے کی عورتیں ان کے لیے چاولوں سے بنی شراب لے کر آئیں اور پھر اِن دونوں نے اس شام ایسے معاملات ، جن کی توضیح مشکل تھی ، پر مزید بات نہ کی ۔ اور جب اگلا دن طلوع ہو رہا تھا تو ’سِن‘ سے آیا بوڑھا اور املی واک دونوں نشے میں دھت تھے ؛ عین اسی وقت ایک زوردار دھماکے نے دونوں کشتیوں کو ہلا کر رکھ دیا ۔ ایک لمبوتری کشتی ، اِن ساتھ ساتھ کھڑی اور رسوں کی وجہ سے جڑی ان دونوں کشتیوں سے آ ٹکرائی ؛ یہ بھی تین سو کیوبٹ لمبی ، لگ بھگ پچاس کیوبٹ چوڑی اور تیس یا شاید پچاس کیوبٹ اونچی تھی ، اس پر بھی سب سے اوپر کھڑکیوں والا ایک گھر بنا تھا ۔ اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتے اور اس کشتی میں سے کسی کو بلاتے اور اس سے بری طرح کشتی چلانے کے بارے میں جواب طلب کرتے ، ایک بوڑھا آدمی سامنے آیا ؛ یہ واقعی میں بہت بوڑھا تھا اور اس کی داڑھی بھی لمبی تھی ۔ اس نے اونچی آواز میں وہ کچھ پڑھنا شروع کر دیا جو شاید کسی جانور کی کھال پر لکھا تھا ۔ وہ اپنی بساط کے مطابق اونچی ترین آواز میں پڑھ رہا تھا تاکہ ہر کوئی اسے سن سکے ۔
اس نے کہا ؛
” یہوواہ نے مجھے بتایا ؛ تم گوفر* کی لکڑی سے ایک ’ آرک ‘ بناﺅ گے ۔ تم اس کشتی میں کمرے بناﺅ گے اور اسے اندر باہر سے رال کے ساتھ پوتو گے ۔ تم اس میں پہلی ، دوسری اور تیسری منزل بناﺅ گے ۔“
” ہم نے بھی تین منزلیں ہی بنائی ہیں ۔“ ، املی واک نے کہا ۔
لیکن لمبی داڑھی والا بوڑھا سنی اَن سنی کرکے بولتا رہا ؛
” اور یاد رکھو کہ میں ، صرف میں ہی ، زمین پر پانی کا ایک طوفان لاﺅں گا جس میں آسمانوں تلے ہر جاندار اور جس میں بھی زندگی سانس لیتی ہے ؛ اور زمین پر بھی ہر شے فنا ہو جائے گی ۔ لیکن تم سے میں یہ عہد باندھوں گا کہ تم ، اپنے بیٹوں ، اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں کی بیویوں ، سب کے ہمراہ کشتی میں داخل ہو گے ۔“
” کیا میں نے بھی بالکل اسی طرح نہیں کیا تھا ؟ “ ، بوڑھے املی واک نے پوچھا ۔
لیکن لمبی داڑھی والا بوڑھا اپنے ہی الہام کے بارے میں بولتا رہا ؛
” اور دنیا میں جو بھی انواع ِحیات ہیں ، تم ان میں سے ایک ایک جوڑا کشتی میں لاﺅ گے تاکہ وہ بھی تمہارے ساتھ زندہ رہ سکیں ؛ یہ ایک نر ہو گا اور ایک مادہ ۔ اور ہر قسم کے پرندوں کے جوڑے ۔ ۔ ۔ زمین پر رینگنے والے جانوروں کی سب قسموں کے جوڑے تمہارے پاس آئیں گے تاکہ تم انہیں زندہ رکھ سکو ۔“
” کیا یہ وہی کچھ نہیں جو میں نے کیا ؟ “، بوڑھے املی واک نے پھر سے کہا ، اس کا ، اس بار کا کہا یہ ظاہر کر رہا تھا کہ جیسے اسے یہ اجنبی اپنے الہام پر کچھ زیادہ ہی گھمنڈی لگ رہا ہو جبکہ یہ ویسا ہی الہام تھا جو ان پر بھی اترا تھا ۔ لیکن جب وہ سب ایک کشتی سے دوسری اور پھر تیسری پر پھرے تو انہیں ، آہستہ آہستہ ، ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی ہونے لگی اور جڑت کا احساس بھی ہونے لگا ۔ سِن سے آیا بندہ ، املی واک اور نیا آنے والا ، نوح ، سب ہی مہا شرابی تھے ۔ نوح کی وائن ، املی واک کی چیچا اور سِن سے آئے بندے کی چاولوں سے بنی شراب ، سب نے مل کر ان تینوں کا مزاج دھیما کر دیا ۔ ایک دوسرے کے قبیلوں ، ان کی عورتوں اور ان کے کھانوں کے بارے میں سوال پوچھے گئے گو شروع شروع میں ، وہ یہ سوال کرنے میں جھجک رہے تھے ۔
اب بارش کبھی کبھار ہوتی اور جب ایک دن آسمان صاف ہوا تو نوح ، جس کی آرک زیادہ مضبوط بنی ہوئی تھی ، نے مشورہ دیا کہ انہیں کچھ تجربے کرنے چاہییں تاکہ یہ جانا جا سکے کہ دنیا کا سارا سبزہ کہیں ختم تو نہیں ہو گیا ۔ اس نے ساکت ، کیچڑ بھرے پانیوں ، پر ایک فاختہ اڑائی ۔ ایک لمبے انتظار کے بعد وہ اپنی چونچ میں زیتون کے درخت کی ایک ٹہنی دبائے لوٹی ۔ اس کے بعد بوڑھے املی واک نے ایک چوہے کو پانی میں پھینکا ۔ ایک لمبے انتظار کے بعد چوہا مکئی کی ایک بالی اپنے پنجوں میں دبائے لوٹا ۔ تب سلطنت ِ سِن سے آئے بوڑھے نے ایک طوطا چھوڑا ۔ وہ جب لوٹا تو اس کے پروں پر چاول کا ایک دانہ موجود تھا ۔ زندگی اپنے معمول کی جانب واپس لوٹ رہی تھی ۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ ’ ان ‘ کی طرف سے کچھ ہدایات موصول ہوں ؛ وہ جو اونچے پہاڑوں پر، اپنے خفیہ مندروں اور غاروں سے اِن بوڑھوں کی حرکتوں کو دیکھ رہے تھے ۔ پانی مسلسل اترے جا رہا تھا ۔
۔ IV
دن گزرتے گئے لیکن ’ تمام اشیاء کے خالق کی عظیم آواز‘ خاموش رہی ؛ اسی طرح ’ یہوا ‘ کی آواز بھی نہ آئی ؛ ‘ یہوواہ ‘ جو ، نوح سے لمبی گفتگو کرتا رہا تھا اور لگتا تھا کہ اس نے نوح کو املی واک کے مقابلے میں زیادہ صحیح ہدایات دی تھیں ؛ اسی طرح ’ وہ جس نے سب کچھ تخلیق کیا تھا ‘ اور جس سے ’ سِن‘ کے بوڑھے نے سنا تھا وہ بھی خلاء میں کہیں بُلبلہ بنا تیر رہا تھا ۔ ان کشتیوں کے یہ تینوں سربراہ ، جنہوں نے اپنی کشتیاں ایک دوسرے کے ساتھ باندھ رکھی تھیں ، پریشان تھے اور انہیں معلوم نہ تھا کہ وہ کیا کریں ۔ پانی اتر رہا تھا اور پہاڑ ابھر رہے تھے اور پہاڑیوں کے سلسلے بھی منظر نامے کے افق پر نظر آنے لگے تھے جن پر دھند بھی نہ تھی ۔ اور پھر ایک شام جب یہ تینوں بوڑھے اپنی بے چینی اور پریشانیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے مئے نوشی میں مصروف تھے کہ خبر آئی کہ ایک چوتھی کشتی پاس آ رہی تھی ۔ یہ تقریباً سفید تھی اور بہت ہی عمدہ طریقے سے بنائی گئی تھی ، اس کے بالائی کنارے روغنی اورچمکیلے تھے اور اس کے بادبان ایسے تھے کہ ان میں سے کسی نے بھی پہلے کبھی نہ دیکھے تھے ۔ یہ مہارت کے ساتھ ان کشتیوں کے پاس آ کر لگی ا ور اس کا کپتان سامنے آیا، وہ اونی لبادے میں ملبوس تھا ؛
” میں ’ ڈیوسیلین ‘ ہوں ۔“ ، اس نے کہا ، ” میں اس خطے سے آیا ہوں جہاں کا ایک پہاڑ ’ اولِمپس ‘ کہلاتا ہے ۔ مجھے آسمانوں اور روشنی کے خدا نے حکم دیا ہے کہ جب یہ بھیانک سیلاب ختم ہو جائے تو میں دنیا کو پھر سے آباد کروں ۔“
” اور تم نے اس چھوٹی کشتی میں جانور کہاں رکھے ہوئے ہیں ؟ “، املی واک نے پوچھا ۔
” ہدایات میں جانوروں کاکوئی ذکر نہ تھا ۔“ ، نئے آنے والے نے کہا؛
” جب یہ سب ختم ہو جائے گا تو ہم پتھر اکٹھے کریں گے ، پتھر جو دھرتی کی ہڈیاں ہیں اور میری بیوی ’ پائرہا ‘ انہیں اپنے کندھے پر اٹھا کر الٹی طرف پھینکتی جائے گی اور ہر پتھر سے ایک آدمی جنم لے گا ۔ “
” مجھے بھی پام کے بیجوں سے یہی کچھ کرنا ہے ۔“ ، املی واک نے کہا ۔
اسی لمحے ، جب دھند آہستہ آہستہ چھٹ رہی تھی اور نزدیکی ساحل نظر آنے لگے تھے ، وہاں اچانک ایک اور کشتی یوں نمودار ہوئی جیسے ان پر حملہ آور ہو رہی ہو ؛ یہ ایک بڑی کشتی تھی اور نوح کی ’ آرک ‘ سے مشابہ تھی ۔ اس کے کھِویوں نے مہارت سے کشتی کو موڑا اور اسے بھی ساتھ لا کھڑا کیا ۔
” میں ’ اور۔ نیپیش ٹم‘ ہوں ۔“، نئے کپتان نے ’ ڈیوسیلین ‘ کی کشتی پر چھلانگ لگاتے ہوئے کہا ؛
” پانیوں کے دیوتا میں نے مجھے بتایا تھا کہ کیا ہونے والا تھا ۔ میں نے ، چنانچہ ، یہ ’ آرک ‘ بنائی ، اپنا خاندان اور جانوروں کی تمام انواع اس میں چڑھائیں اور سفر پر نکل پڑا ۔ میرا خیال ہے کہ بدترین وقت گزر چکا ہے ۔ میں نے پہلے ایک فاختہ کو ہوا میں چھوڑا ، اسے کچھ نہ ملا اور وہ خالی ہاتھ لوٹی ۔ اس سے مجھے لگا کہ زندگی ابھی موجود تھی ۔ ایسا ہی کچھ ابابیل کے ساتھ ہوا ۔ لیکن جب میں نے کوے کو چھوڑا تو وہ نہ لوٹا جس کا مطلب تھا کہ اسے کھانے کو کچھ مل گیا تھا ۔ مجھے یقین ہے کہ میرے خطے کے ایک علاقے جسے ہم ’ دریا کا ڈیلٹا ‘ کہتے ہیں ، میں ابھی بھی لوگ آباد ہیں ۔ پانی ابھی بھی اتر رہا ہے اور وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے اپنے خطوں کو لوٹ جائیں ۔ یہاں وہاں بہت سی مٹی پھیلی ہوئی ہے اور اس نے ہمارے کھیتوں میں بھی تہہ جمائی ہو گی ۔ ہمیں یقینی طور پر اچھی فصلیں ملیں گی ۔ “
” ہم جلد ہی کھٹکے دار دروازے کھول دیں گے تاکہ جانور اِن مٹی بھری چراگاہوں میں جا سکیں ۔“ ، سِن سے آئے بوڑھے نے کہا ، ” تب ان جانوروں میں بقاء کی جنگ چھڑ جائے گی اور یہ ایک دوسرے کو ہڑپ کرنا شروع کر دیں گے ۔ مجھے یہ شرف تو حاصل نہ ہو سکا کہ میں ’ ڈریگونوں‘ کی نسل کو بچا سکوں اور مجھے اس کا افسوس بھی ہے کہ اب ان کی نسل معدوم ہو جائے گی ۔ مجھے ، ان شمالی مرغزاروں ، جہاں مڑے ہوئے دانتوں والے ہاتھی ہوتے ہیں اور جہاں بڑی چھپکلیاں اتنے بڑے انڈے دیتی ہیں جیسے تِلوں سے بھرے بورے ، میں ایک نر ’ ڈریگون ‘ ملا تھا لیکن میں مادہ حاصل نہ کر پایا ۔ “
” ہر شے کا انحصار اس بات پر ہے کہ انسانوں نے اس امتحان سے کوئی فائدہ بھی حاصل کیا یا نہیں ۔“ ، نوح نے کہا ۔
” ان میں سے بہت سوں نے پہاڑوں کی چوٹیوں پر پناہ لے کر خود کو بچا لیا ہو گا ۔ “ ، ’ ڈیوسیلین ‘ نے کہا ۔
سارے بوڑھوں نے مل کر کھانا کھایا اور اس دوران خاموش رہے ۔ سب کوشدید ذہنی دباﺅ کا احساس ہو رہا تھا ۔ ۔ ۔ جو اُن کے دلوں میں ہی بند تھا اور وہ اس کا اقرار نہیں کر رہے تھے ۔ ۔ ۔ وہ اپنے آنسوﺅں پر مشکل سے ہی قابو پا رہے تھے ۔ فخر ، کہ وہ ’ منتخب کرد ہ ‘ تھے اور انہیں ہی ‘ تنبیہ ‘ کی گئی تھی ، اب عاجزی میں بدل گیا تھا ؛ انہیں دیوتاﺅں اور خداﺅں نے چُنا تو تھا لیکن یہ خود ان گنت تھے اور اپنے اپنے لوگوں کے ساتھ ایک جیسی ہی اصطلاحوں میں بات کرتے اور ایک جیسے ہی الفاظ برتتے تھے ۔
” یہیں کہیں اور بھی کشتیاں موجود ہوں گی ۔“ ، ’ اور۔ نیپیش ٹم ‘ نے تلخی سے کہا ، ” افق کے پار ۔ ۔ ۔ اس سے بھی کہیں دور ۔ ۔ ۔ دوسرے لوگوں کو بھی تو یہ تنبیہ ملی ہو گی اور وہ بھی تو اپنے کفارے کا سامان لیے سفر پر نکلے ہوں گے ۔ ان خطوں سے بھی تو کچھ نکلے ہوں گے جو آگ کو پوجتے ہیں ، بادلوں کی اطاعت کرتے ہیں ؛ ’ ہائپربورین‘* سلطنتوں کے لوگ بھی تو نکلے ہوں گے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انتہائی جفاکش ہیں ۔ “
تبھی ، املی واک کے کانوں میں ، اس کی’ عظیم آواز‘ گونجی جو ’ ہر شے کا خالق تھا ‘ ؛
” ان کشتیوں سے دور ہٹو اور خود کو پانیوں کے بہاﺅ کے ساتھ بہہ جانے دو ۔“
املی واک کے علاوہ کسی اور نے یہ دہلا دینے والا حکم نہ سنا ۔لیکن ان سب کے ساتھ ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ وہ ایک دوسرے کو الوداع کہے بِنا ، عجلت سے اپنی اپنی کشتیوں میں لوٹ گئے اور ہر ایک نے پانی کا ایک ایک دھاراچُن لیا ؛ یہ وسیع جھیل اب ایسے نظر آ رہی تھی جیسے بہت سے دریا ایک دوسرے میں مدغم ہوں ۔ اور پھر کچھ ہی دیر میں بوڑھا املی واک ، وہاں اپنے لوگوں اور جانوروں کے ساتھ اکیلا رہ گیا ۔
” دیوتا بہت سے ہیں ۔“، اس نے سوچا ، ” اور انسانی نسلوں کی طرح ، جہاں بہت سے دیوتا اور خدا ہوں ، وہاں امن و شانتی کا بول بالا نہیں ہو سکتا ، اس کے برعکس کائنات میں غلط فہمیوں اور افراتفری کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا ۔ “
اس کی نظروں میں دیوتاﺅں اور خداﺅں کی وقعت گھٹ رہی تھی ۔ لیکن ایک کام ابھی باقی تھا ۔ اس نے تیزی سے دیوہیکل ڈونگے کو کنارے لگایا ، اپنی بیویوں میں سے ایک کو ساتھ لیا اور اسے کہا کہ وہ بیجوں کے اس تھیلے سے جو وہ ساتھ لیے ہوئے تھی ، میں سے پام کے بیج اپنے کندھے سے الٹی طرف پھینکے ۔ اور جب اس نے ایسا کیا ۔ ۔ ۔ تو ایک زبردست نظارہ دیکھنے میں آیا ۔ ۔ ۔ بیج کیڑوں کے برابر انسانوں میں بدل گئے جو چند سیکنڈوں میں بڑھتے بڑھتے اتنے بڑے ہوئے جتنے ماں کے پیٹ میں بچے ہوتے ہیں اور پھر وہ ان بچوں سے اور بڑے ہوئے اور لڑکوں میں بدل گئے ، پھر نوعمر ہوئے اور بعد ازاں بلوغت پا لی ۔ یہی کچھ ان بیجوں کے ساتھ ہوا جن میں مادہ جرثومے تھے اوراس صبح کے ڈھلتے ہی اس کنارے پر لاتعداد انسانوں کی آبادیاں کھڑی ہو گئیں ۔ لیکن پھر یہ ہوا کہ ایک عورت کے اغوا ہو جانے کی افواہ ایسی پھیلی کہ سارے لوگ دو گروہوں میں بٹ گئے اور ان میں جنگ چھڑ گئی ۔ جب املی واک نے یہ دیکھا کہ بندے جنہیں حال ہی میں بچایا گیا تھا اور جنہیں حال ہی میں پیدا کیا گیا تھا ، ایک دوسرے کو قتل کر رہے تھے تو اس نے جلدی سے پیچھے ہٹتے ہوئے دیوہیکل ڈونگے میں پناہ لی ۔ اور ساحل پر احیاء کے بعد یہ بات واضح تھی کہ وہاں دو طرح کے ہی لوگ تھے ؛ ایک پہاڑیے اور دوسرے نیچے وادی میں رہنے والے اور دونوں آپس میں نبرد آزما تھے ۔ ایک بندے کی آنکھ اس کے چہرے پر لٹک رہی تھی ، جبکہ دوسرے کی انتڑیاں جسم سے باہر نکلی پڑی تھیں اور ایک ایسا تھا جس کا سر تیز دھار والے پتھر کے وار سے کھلا ہوا تھا ۔
” میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ سب غارت گیا ۔ “ ، بوڑھے املی واک نے دیوہیکل ڈونگے کو دوبارہ پانیوں میں لے جاتے ہوئے کہا ۔ اس رات اس نے ’چیچا ‘ کی ایک بڑی مقدار پی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان جہاں جہاں آباد ہوا اور اب بھی آباد ہے ، وہاں وہاں کی تہذیبوں اورثقافتوں میں جہاں اور کئی قدرتی آفات جیسے قحط ، خشک سالی کا ذکر عام طور پر ملتا ہے ، وہیں ’ سیلاب ‘ بھی ایک ایسا ہی ذکر ہے جو مختلف تہذیبوں اور تمدنوں کی ایک اہم اساس ہے ۔
’ عظیم سیلاب ‘ کی دیومالائی کہانی دنیا کے تقریباً ہر کلچر ، چاہے وہ الوہی ہیں یا غیر الوہی ، سب میں موجود ہے ۔ مصنف نے اسی حقیقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی یہ کہانی ” Los advertidos “ لکھی ۔
ہم جن کی تمدنی اساس ابراہیمی مذاہب ہیں ، اس ’ عظیم سیلاب ‘ کو ’نوح‘ سے منسوب کرتے ہیں ، لیکن ایسے تمدن جو ابراہیمی مذاہب سے ہٹ کر کسی اور ہی سلسلہ مذاہب ، عقیدوں اور پرستشوں کے حامل ہیں ، وہاں شاید یہ ’عظیم سیلاب ‘ نوح سے نہیں جڑا ہوا ۔ یہ افسانہ لاطینی امریکہ کے ایزٹیک (Aztec ) تمدن اور اس کی عظیم سیلاب سے جڑی ’ متھ‘ سے تعلق رکھتی ہے ، جس میں یہ سیلاب دریائے امیزون میں آیا تھا اورجس میں ہیرو ’ نوح ‘ نہیں بلکہ ’ املی واک ‘ ہے ۔
کرپینٹیر کے بیانیے کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ’ سیلاب ‘ کی مختلف اساطیروں کے ہیرو ، بلند ہوئے پانیوں پر ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور یوں وہ اساطیروں میں پائے جانے والے واقعات میں مماثلت کو بیان کرتا ہے اور ساتھ ہی ان کے احساس برتری کو بھی دکھاتا ہے ؛ ہر کوئی اپنی اپنی جگہ یہی سمجھتا ہے کہ صرف اسی کو انسانوں اور جانداروں کی بقاء کے لیے چنا گیا تھا اور اسی کے تجربے کو ’ یونیورسل‘ سمجھا جائے جبکہ وہ یونیورسل نہیں بلکہ اپنے اپنے خطے تک ہی محدود ہے ۔ کارپینٹیر اپنی کہانی میں یہ ظاہر کرتا نظر آتا ہے کہ کسی ایک تمدن کو ہی یونیورسل نہیں سمجھنا چاہیے اور دوسرے تمدنوں کو بھی برابری کی سطح پر رکھ کر دیکھنے کی ضرورت ہے ۔’ عظیم سیلاب ‘ کی اساطیر کو نئے طریقے سے لکھنے کے پیچھے بھی کارپینٹیر کا یہی نکتہ نظر کار فرما ہے ۔
کرپینٹیر کی ساری تحریروں میں یہ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ وہ لاطینی امریکہ کے تشخص کے حوالے سے اس بات کا طلبگار ہے کہ اس خطے کی تہذیب و تمدن کو بھی دنیا میں وہی شناخت ملنی چاہیے جو دیگر کو حاصل ہے ۔
الیخو کرپینٹیر ( پورا نام : Alejo Carpentier y Valmont ) سوئزرلینڈ میں ، 26 دسمبر 1904 ءمیں پیدا ہوا۔ جس کے بعد اس کا خاندان کیوبا جا بسا اس نے وہاں پرائمری ، سیکنڈری تعلیم حاصل کرنے کے بعد کچھ عرصہ یونیورسٹی آف ہوانا میں بھی تعلیم حاصل کی ۔ اس کے بعد وہ صحافی بنا اور ریڈیو سے منسلک ہو گیا ۔ وہ ماہر موسیقی بھی تھا ؛ اس نے موسیقی اور تہذیبوں کی تاریخ کے حوالے سے تدریس بھی کی ۔ اس نے دنیا بھر کی سیاحت کی ؛ یورپ ، امریکہ ، اینڈین(Andean ) ممالک کے علاوہ دیگر کئی اورکی سیر نے اسے اپنی ادبی تحاریر کے لیے مواد مہیا کیا ۔ اس نے ایفرو ۔ کیوبن موسیقی کی تاریخ بھی لکھی ۔ اس نے کئی ناول لکھے جن میں ’ اس دنیا کی بادشاہت ‘ ( 1949 ء ) ، ‘ تعاقب ‘ ( 1956ء ) ، ’ گرجا گھر میں دھماکہ‘ (1962 ء ) بھی شامل ہیں ؛ اس کے افسانے البتہ کم ہی ہیں ۔ وہ 75 برس کی عمر میں 24 اپریل 1980 ء کو کینسر کے ہاتھوں، پیرس ، فرانس میں فوت ہوا ۔
درج بالا کہانی ” Los advertidos “ اس کے افسانوں کے مجموعے ’ وقت کی جنگ ‘ ( Guerra del tiempo ) ، شائع شدہ 1956 ء سے لی گئی ہے ۔ یہ کہانی انگریزی میں” The Chosen “ کے نام سے ترجمہ ہوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ ( اپنی کتاب ” جھوٹ کی سرزمین اور دیگر افسانے ” سے ۔ ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...