بچپن کی خوشگوار یادیں آج بھی ذہن میں تازہ ہیں ۔عید کے دن دادا جان کے ساتھ گھر کے تمام چھوٹے بچوں کا بیل گاڑی پر عید گاہ جانا ۔عید کی نماز ختم ہونے کا بے چینی سے انتظار کرنا ۔۔گھر واپسی پر ہر بزرگ سے عیدی کے تقاضے ۔۔آنا دو آنے ملیں تو سمجھو قارون کا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو ۔۔بڑی تگ ودو کے بعد بھی عیدی ایک روپیہ نہیں ہو پاتی ۔۔۔ہائے ہائے ! ان پیسوں کی برکت شام تک بے تحاشہ خرچ کرنے کے بعد بھی نصف سے زائد بچ رہتی ۔۔۔چاند رات کو کپڑے سل کر آتے ۔۔وہ بھی بغیر بٹن کے اور کمر بند کے ۔۔۔۔کمبخت درزیوں کو ایک مہینہ قبل دیے گئے کپڑے بھی چاند رات سے پہلے کبھی مل نہیں سکے ۔۔کیوں ؟۔۔یہ سوال اب بھی برقرار ہے ۔۔۔بٹن ٹانکے کے لیے ایک کی خوشامد ۔۔عاجزی کے جواب میں ۔۔ہر طرف سے کوئی عذر ۔۔۔دل عید کے دن میں لگا رہتا ۔۔بغیر بٹن کے شرٹ پر دوست کیا کہیں گے ۔۔اسی شرمندگی سے بچنے کے لیے چراغ کی مدھم روشنی میں بٹن کو ٹانکنا تو کیا ۔۔بس لٹکا لیتے ۔۔گھر میں عید کے دن رشتے داروں ،دوست واحباب کا ہجوم ۔۔گلے مل کر گلے بھولیں۔۔مبارکبایوں کا شور ۔۔۔ہر شخص شاداں وفرحاں۔۔بس دل یہی گنگناتا ،
ہر روز روز عید ہو ۔۔
بڑے ہوئے ۔۔ملازمت کے لیے ممبئی آئے ۔۔۔لیکن عید کی کچھ رونقیں گاؤں چھوڑ آئے ۔۔خاص طور سے عید گاہ۔۔پر اب بھی عید کی رونقیں تھیں ۔۔۔سوسائٹی کے کمپلیکس میں تمام احباب پہلی دوسری جماعت کے بعد آخری جماعت سے لوٹنے والوں کے منتظر ۔۔ایک اژدھام سوسائٹی کے ایک ایک گھر میں جاتا ۔۔بھلے دو چمچ شیر خورمہ نوش فرماتا ۔۔ملنساری ۔۔خوش اخلاقی ۔۔اجنبیت کو احساس بھی ہونے نہیں دیتی ۔۔گویا اپنے رشتے داروں کے درمیان ہیں ۔۔ظہر بعد رشتے داروں کا ہجوم ۔۔۔اور ہماری رشتے داروں کے یہاں یلغار ۔رات گئے تک یہ سلسلہ چلتا ۔
اور یہ عید ۔۔۔۔گزشتہ تین سالوں سے جو بھی عید ملنے آتا ۔۔ایک فون اس کے ساتھ رہتا ۔۔۔ہم سے ہوں ہاں میں گفتگو اور نظریں فون پر گڑھی ہوئی ۔۔گلے ملنا مفقود ۔۔ہاتھ ملانے پر اکتفا !! اس سال تو حد ہی ہوگئی ۔۔۔عید کی نماز سے فارغ ہو گھر پر آیا تو صرف اپنے بچوں سے ملاقات ہوئی ۔۔وہ بھی دوستوں سے ملنے چلے گئے ۔۔۔انتظار میں کہ کوئی تو آئے ؟۔۔رشتے داروں کے فون آتے ہیں ۔۔،،عید مبارک ۔۔ میسج دیکھا ؟؟۔۔۔رکشہ بس ملنی مشکل ہے اس لئے فون پر مبارکباد دے رہا ہوں !!۔۔بھائی صاحب !! میری بھیجی ہوئی گفٹ کیسی لگی ؟؟۔۔پڑوسیوں نے شیر خورمہ بھجوا دیا مگر ملنا پسند نہیں کیا ۔۔ ہم نے سوچا چلو ہم ہی قریبی رشتے داروں سے مل آئیں ۔۔۔تین گھروں پر لگا ہوا تالا ہمارا منہ چڑا رہا تھا ۔۔۔بعد میں معلوم ہوا وہ اور دوسرے رشتے داروں نے مل کر اجتماعی ضیافت کا انتظام کر رکھا تھا ۔۔۔
تو احباب !۔۔یہ تو تھی گزشتہ سال کی عید ۔۔۔مگر امسال ! رمضان گھر میں تراویح کے ساتھ ،مسجد سے دور گزرا ،۔۔گلی محلوں میں نہ وہ گہماگہمی رہی نہ وہ ہماہمی۔۔۔افطاری کے لیے لگے بازار ندارد ،صدقات کے لیے فقراء کا فقدان ،سفراء کی مساجد میں ہر نماز بعد لگے کاؤنٹر ناپید نہ چندے کی پیٹیوں کی کھڑکھڑاہٹ نہ رسید بکوں کی چرمراہٹ،طاق راتوں میں مسجدوں میں آباد رونقیں ،چمکتے دمکتے چہرے ،پرنور شب بیداریاں مفقود ۔۔پر جوش عید کی خریداری منسوخ ۔۔سب کچھ قصہ پارینہ لگے ہے کیونکہ یہ عنایتیں جس کی عطا کردہ تھیں اسے ہم نے بھلا دیا ۔۔رفتہ رفتہ ،دھیرے دھیرے ۔۔تو عید بھی ایسی ہی گزری ۔۔ویسی نہیں جسے ہم کبھی خوش بختی کی علامت کے طور پر کہتے ۔۔۔ہر روز ،روز عید ہو ۔
گھر میں افراد خانہ کے ساتھ نماز پڑھی ،جو کچھ گھر میں میسر تھا ناؤنوش کیا ۔موبائل پر مبارکباد کے پیغام ترسیل اور ریسیو کیے ۔۔ویڈیو کالنگ بھی نہیں کی کہ بے جان رشتوں کو دیکھنے سے بہتر سننا ہے ۔۔ہر عید میں یہ دوری بڑھتی جارہی ہے ۔۔۔خلوص کی ،ایثار و قربانی کی ،بے لوث مہرومحبت کی ،رشتوں کے حلاوت کی ،بھائی چارہ و یگانگت کی ۔۔۔یہ خلیج کب پر ہوگی ؟۔۔نہیں کہہ سکتے ۔۔مگر ہمیں تبھی عید کی سچی خوشی ملے گی !۔۔اور ہم تبھی کہہ سکیں گے ،
ہر شب ،شب برات ہو اور ہر روز ،روز عید !
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...