ساہتیہ اکادمی میں ارون پرکاش ، ہندی رسالہ سمکالین بھارتیہ ساہتیہ کے مدیر تھے . میں جب کمرے میں داخل ہوا ، وہ اپنی کرسی پر بیٹھے ہوئے بیڑی کا دھواں چھوڑ رہے تھے . ایک خاص مسکراہٹ ان کے چہرے پر نمودار ہوئی . قہقہہ لگایا . آؤ ذوقی .اس کمرے میں بیڑی پینے والا پہلا ایڈیٹر ہوں .
وہ بیگو سرائے ،بہار کے رہنے والے تھے . دلی اے ہوئے برسوں گزر چکے تھے . اس وقت دوردرشن ہی اکیلا چینل تھا . قسطوار سیریل پرکھ کے لئے ارون نے چار سو سے زیادہ ایپیسوڈ لکھے تھے . مگر میں نے ارون کو خوش بہت کم دیکھا .
لباس اور چہرے سے وہ اکثر مجھے دوستوفسکی کا احمق نظر آتا . ٹھیٹھ بھاری لہجہ مگر جب وہ بولنے کو آتا ، تو فلسفوں کا ایک کولاز آندھی کی شکل اختیار کر لیتا . وہ سسٹم کے خلاف تو تھا ہی ، ادب مافیا سے بھی ناراض تھا .یہاں سارے کے سارے اسے ایک حمام میں ننگے نظر آتے تھے . ادب فروخت کرنے والے رئیس جن کی زندگی دس پندرہ برسوں میں تبدیل ہو گیی تھی .اس نے سب کو تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا تھا ، اس لئے اس کے اندر زبردست غصّے کا لاوا تھا ، جس کے ابال کو میں کئی ملاقاتوں میں دیکھ چکا تھا . دلی آنے کے بعد جب میں کرائے کے مکان میں تھا ، ارون کا اکثر آنا جانا لگا رہتا تھا . وہی لباس ..وہی سب کچھ مگر جب وہ منہ کھولتا تو ارسطو ، سقراط ، مارخیز ، یشپال سےلے کر ہزاروں کہانیوں کے دروازے کھل جاتے .بے تکان بولتا تھا . بابری مسجد شہادت سے قبل میں نے اس کے چہرے پر وہ غصّہ دیکھا تھا ، جو کبھی کسی اور چہرے پر نظر نہیں آیا .ارون ٢٠١٢ میں دنیا چھوڑ گیا مگر وہ پیشن گویی کر چکا تھا کہ ہم ایک بیحد خوفناک دنیا میں قدم رکھنے والے ہیں . اور آنے والی دنیا موت کے دھماکوں کی دنیا سے زیادہ بدتر ہوگی . جب شروع شروع اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے پوچھا —
تم دلی کیوں اہے ؟
روزگار کے لئے
— میں بھی بہار میں روزگار کیوں نہیں ؟ ہجرت کیوں ہوتی ہے ؟
مجھے اچانک اس کی کہانی یاد آ گیی . بھیا ایکسپریس . اس کی شہرہ آفاق کہانی .اس کہانی میں ایک بھر مزدور تھا اور ہجرت کا درد . اور یہ کہانی کملیشور نے گنگا میں شایع کی تھی . اس کہانی کے بعد بھی ارون نے بہت سی کہانیاں لکھیں .لیکن بھیا ایکسپریس سے ارون کی شناخت قائم ہوئی .ارون داستان گو ہے . حقیقت کی زمین سے وابستہ ہے . اسکے مزاج میں بے باکی ہے . بے خوف ہے . ارون کے جانے کے بعد مجھے یہ دنیا بدلی بدلی ہوئی لگ رہی ہے . کورونا نے حملہ کیا اور مزدور ہجرت کرنے لگے تو مجھے ارون کی کہانی بھیا ایکسپریس کی یاد آیی
ارون پرکاش کی کہانیاں حقیقت کے جبر سے پیدا ہوتی ہیں اور اس جبر کی فضاء میں استعارے لائے نہیں جاتے ،استعارے خود سے اپنے سنگھار کا بندوبست کر لیتے ہیں .وہ ایک ذہین خالق ہے ، اور اسے پتہ ہے کہ کہانی کب فن کے اندر ڈبکی مار کر فکر کے موتی برآمد کرتی ہے .۔ اس نے زیادہ نہیں لکھا مگر جو بھی لکھا ، وہ ہندی افسانے کو آیئنہ دکھانے کے لئے کافی ہے .۔
بھیا ایکسپریس میں ہزاروں مزدوروں کی ذہنی و جسمانی اذیت کا عکس ملتا ہے .مزدوروں نے بہار اس وقت چھوڑا جب پنجاب دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا۔
ارون پرکاش کی یہ کہانی پنجاب کی دہشت گردی کے دور کی چند بہترین کہانیوں میں سے ایک ہے . ۔ قاری کہانی پڑھتے ہوئے خود کو اسی ماحول میں پاتا ہے ،پنجاب سلگ رہا تھا . چاروں طرف شعلے بھڑک رہے تھے .ایک مزدور اپنے بھایی کی تلاش میں بہار سے دلی پھر امرت سر آتا ہے اور دہشت گردی سے الگ کی ایک دنیا جو ہزاروں ہجرتوں پر قائم ہے ، ہمیں ان ہجرتوں کا درد سنایی دیتا ہے . مٹی کی مسافت میں ہم آشفتہ سروں نے . وہ قرض چکاہے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے. یہ کہانی آپ کو پورا پنجاب دکھاتی ہے۔
بہاری مزدور ہے . جیب سے ٹکٹ لے کر اسٹیشن پرآیا تو اسے کچھ فرصت ملی۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا .ایک بد رنگ سا پوسٹ کارڈ نکالا اور اس کا پتہ پڑھنا شروع کیا – وشونادیو ، اندر سنگھ کا فارم ، گاؤں رانیکے ، بھایا اٹاری ، ضلع امرتسر (پنجاب)۔ پڑھ کر ، اس نے سامنے بیٹھے ہوے بزرگ سردار کی طرف بڑھایا تاکہ وہ رانیکے جانے کا راستہ بتا سکے۔
سردار جی نے ندامت سےکہا – مجھے ہندی پڑھنا نہیں آتا۔ ساری زندگی اردو کی تعلیم حاصل کی۔ میں صرف ہندی سمجھتا ہوں۔ یہ کیا ہے؟
میں رانیکے اٹاری گاؤں جانا چاہتا ہوں۔ میں ایک انجان شخص ہوں۔ میں بہار سے آیا ہوں۔
بہاری مزدور آخر منزل مقصود پر پھچ جاتا ہے .لیکن کویی بھی اس کو اس کے بھایی کے بارے میں نہیں بتاتا . جب وہ پریشان ہوتا ہے تو اندر سنگھ کی بیوی چیخ کر کہتی ہے ..
"یہ وشنادیو کا سامان ہے! … وہ دنیا میں نہیں ہے!" منجیت کور رونے لگی۔ ہچکیوں کے بیچ اس نے کہا ، "اس نے مجھے بتایا کہ ووہ امبرسار سے کنبے کے لئے کپڑے لینے جا رہا ہے .اس نے کہا کہ مجھے دیس جانا ہے۔ جب وہ امبارسار سے واپس آتا تھا تو یہاں سے رقم لے جاتا تھا… راستے میں بس خراب ہوئی۔ دہشت گرد آ گئے . یہی خبر ملی .چھرا گھونپا گیا اسے …مار ڈالا گیا .
اس وقت ملک لہو لہان تھا . معصوم بے گناہ بھی شر پسندوں کی زد میں اے تھے . دردمندی ، ہجرت ، تلاش ، روزگار ، فاقہ ، مزدوری ، اور ہندوستان کا خوبصورت کولاژ ہے 'بھیا ایکسپریس' .۔ اس وقت شمالی بہار کے دیہات کے زرعی مزدور زیادہ پیسہ کمانے کی امید میں ٹرینوں میں بیٹھ کر پنجاب جاتے تھے۔یہ کہانی بے در، بے گھر ہونے کا استعارہ ہے یہاں پریم چند سے آگے کے مزدور ہیں . جنکی زندگی سو برسوں میں بھی تبدیل نہیں ہوئی .
ارون کی ایک مشھور کہانی جل پرانٹر سے یہ اقتباس دیکھئے ..
مندر سے بہت دور آنے کے بعد بھی اداسی برقرار تھی ۔ رامبالک نے پیڈل چلاتے ہوئے کہا ، "سنتوش ، غمگین کیوں ہو ، پرانے لوگ تیزی سے نہیں بدلتے ہیں۔ گنگا عقیدت مندوں کی ماں ہے۔ ہم سب سال بھر سیلاب کے کوڑوں کی زد میں آتے رہتے ہیں۔اور وہ کہتے ہیں ، گنگا تو ماں ہے ، گنگا کے پیٹ میں ریت بھر رہی ہے۔ تھوڑا سا پانی بھی برداشت نہیں . پانی سے خون بہتا ہے۔ مگر گنگا ماں ہے ، جو سب کو سیراب کرتی ہے۔ ہم نے گنگا کے لئے کیا کیا ؟ نہ ہی ہم نے ایک ڈیم بنایا ، نہ ہی پیٹ کی ریت کو صاف کیا۔ صرف گنگا مائی گنگا مائی کے نعرے لگانے سے موت کے بعد ہی سورگ ملے گا ؟ جب تک آپ زندہ رہیں گے ، گنگا آپ کی زندگی کو جہنم بنا دے گی۔ پنڈجی کا پختہ یقین ہے ، آپ حرکت نہیں کرسکیں گے۔ فطرت ، سائنس اس طرح کے اندھے عقائد کو ہلا سکتی ہے۔ گنگا کے بارے میں زبردست ڈرامہ ہورہا ہے۔ یہاں ہم کٹاؤ سے گھرا ہوئے ہیں . سب کچھ کاٹا جارہا ہے۔ پتہ نہیں کتنے عرصے تک کٹاؤ جاری رہے گا … ''
ایسی بہت سی کہانیوں کے خالق ہیں ارون پرکاش . یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ بہار میں سیلاب کے دوران لوگوں کی زندگیاں کس قدر خوفناک ہوجاتی ہیں۔ منصوبے ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر بنائے جاتے ہیں اور منصوبے ہر سال سیلاب کے پانیوں میں بہہ جاتے ہیں .۔ صورتحال اب بھی وہی ہے۔ کہانی 'جل پرانتر کے ذریعہ ارون نے سیلاب اور توہم پرستی کا جو نقشہ کھینچا ہے ، اسے بھولنا آسان نہیں . وہ ایسا مصور ہے جسے پرفیکشن پسند ہے . جو کہیں کویی جھول چھوڑنا نہیں چاہتا .
چھوٹے شہروں میں ، لڑکیوں کو نہ تو اپنے مستقبل کی تشکیل کرنے کی اجازت ہے اور نہ ہی آزادی ۔ اسی معاشرے میں جب نرمدا اپنی ایک الگ پہچان بنانے کی کوشش کرتی ہے تو اسے نہ صرف معاشرہ بلکہ اہل خانہ سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے . 'ات مس تپنا کتھا' ارون کی کہانی ہے جہاں معاشرتی ماحول کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ بیس برس قبل تک عورتوں کو وہ آزادی بھی حاصل نہیں تھی ، جو اب ہے . ارون پرکاش زمینی مٹی سے کہانی اٹھاتا ہے اور نیے نیے رنگ دے کر کہانی کو زندہ کر دیتا ہے .منجھدار کنارے ، سوپن گھر ، عجیب راگ ارون کی مشہور کہانیوں میں شامل ہیں .
سقراط پر مقدمہ چلا تو تاریخ کی سب سے بڑی عدالت لگائی گئی۔ پورا شہرسقراط کو دیکھنے کے لئے جمع ہوا ۔ سقراط کا جرم ثابت ہوچکا تھا ۔ فیصلے کےتحت سقراط کے سامنے دو شرط رکھی گیی . یا تو شہر چھوڑ دو یا پھر اپنے ہاتھوں سے زہر کا پیالہ پی لو۔سقراط نے سچ کے نام پر زہر کا پیالہ پی لیا . ایسے دیوانے کتنے ہوتے ہیں . ارون پرکاش نے کہانی لکھنے کی شروعات کرتے ہوئے زہر کے پیالہ کو ہونٹوں سے لگا لیا تھا .وہ اسی صف کا مسافر تھا ، جہاں پریم چند ، سدرشن اور فرنشور ناتھ رینو کھڑے ہیں . ایک دنیا کے تبدیل ہو جانے کے باوجود وہ کھردری مٹی کا سپاہی تھا . اسے دلی جیسے شہر میں رہ کر بھی خود کو بدلنا منظور نہیں تھا . وہ اتنی خاموشی سے لمبی سیر کو نکل گیا کہ کہیں کویی ہلچل نہیں ہوئی . ادب کے بازار میں بھی نہیں .
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...