بلی کے رونے کی وحشت ناک آواز نے اسے جگا دیا تھا ۔
ایسے لگ رہا جیسے کسی چیز نے بلی کو دبوچ رکھا ہو۔
خوف کی ایک لہر اس کے سارے بدن میں سرایت کر گئی۔
ھاسٹل خالی تھا ۔آج زیادہ تر لڑکیاں اپنے گھروں کو جاچکی تھی ۔
اس نے سونے کی کوشش کی۔
یکلخت ہی کمرے کی لائٹ مدھم ہونے لگی اور بلی کی آواز قریب آنے لگی ۔
وہ دہشت سے اٹھ بیٹھی ۔
ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی اس کے کمرے کے باہر موجود ھے۔بلی کی درد اور خوف سے بھری آواز اس کے دروازے کے پاس آچکی۔
وہ خوف سے دروازے کو دیکھ رہی تھی ۔
دروازے کے نیچے سے اچانک ہی خون بہتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔
اس نے چیخ ماری ۔
کون ھے باہر۔
جواب میں دوسری طرف خاموش چھا گئی ۔
اس کا دل خوف سے اتنی شدت سے دھڑک رہا تھا کہ لگتا تھا کسی بھی لمحے رک جائے گا۔
پر یہ خاموشی کچھ دیر کے لئے تھی ۔
اب بلی پھر رونے لگی تھی اب کے آواز باہر کی جانب کھلتی کھڑکی سے آرہی تھی ۔
اس نے آج کھڑکی بند نہیں کی۔
یہ خیال اسے لرزا گیا تھا۔
کھڑکی پر لگا پردہ اب ہلکے سے کانپ رہا تھا ۔
اور پھر اس نے ایک وحشت ناک منظر دیکھا ۔
ایک ہاتھ پردے کے پیچھے سے نمودار ہوا پر وہ ہاتھ نہیں ہڈیاں تھیں بس۔
گوشت سے خالی پنجہ
اسے دیکھ کر اس نے چیخ ماری اور دروازے کی طرف بھاگی دروازے کو کھول کر اس نے چند قدم ہی لئے تھے کہ وہ پھسلی اور منہ کے بل گری۔
راہداری کا فرش خون سے بھرا ہوا تھا جیسے کہی انسانوں کو اس جگہ قتل کر دیا گیا ہو۔
وہ مسلسل چیخ رہی تھی پر لگتا تھا جیسے ہاسٹل میں وہ اکیلی زندہ تھی ۔
وہ خون سے لت پت ہو چکی تھی اور بلی کی مکروہ آواز اب راہدری کی موڑ پر سے اس کی طرف آرہی تھی ۔
اس نے کھڑے ہونے کی کوشش اور پھر اس کی نظر نے راہدری کی چھت پر لٹکتے انسانی سروں کو دیکھا۔
جن سے خون ٹپک رہا تھا۔
جیسے ابھی کسی نے انہیں دھڑ سے کاٹا ہو۔
تم بھی یہی موت مرو گی۔
اچانک ایک سر کے ہونٹ ہلے تھے ۔
اور خراخراتی سی آواز اسے سنائی دی
َخوف سے اس کی سانس رکنے لگی تھی ۔
پر وہ ہمت جمع کر کے اٹھی اور سیڑھیوں کی طرف بھاگی۔
بلی کی رونے کی آواز اس کے تعاقب میں تھی ۔
سیڑھیاں اترتے ہوئے اس نے محسوس کیا جیسے کوئی اس کے پیچھے کھڑا ھے ۔
خوف سے وہ ساکت ہو گئی ۔
پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ہمت اسے نہیں ہو رہی تھی۔
اب اس کے پیٹھ پر تیز سانسیں ابھر رہی تھیں ۔جان بچانے کا راستہ کوئی نہیں تھا۔سیڑھیوں کے ساتھ دیوار پر لگی پرانی تلوار اس نے جھپٹ کر پکڑی اور پھر پلٹی۔
ایک کریہہ صورت شکل اس کے سامنے تھی۔
نوکیلے دانت اور ماتھے پر ایک آنکھ ۔
خون سے بھرا ہوا منہ ۔
جسم بالوں سے بھرا ہوا اور ہاتھوں کی جگہ اس کے منہ جیسے دو منہ اور ایک ہاتھ ۔
وہ سر سے پاؤں تک کانپ گئی ۔
میرے قریب مت آنا۔
اس نے تلوار سیدھی کی پر وہ بلا اس کی جانب جھپٹی تھی ۔
اس نے زور سے تلوار سیدھی کی جو اس مخلوق کے پیٹ میں گھس گئی اور انتڑیاں باہر آگئیں۔
پر اگلا لمحہ اور بھاری تھا۔ اس کی انتڑیاں اس کے پیٹ سے نکل کر ایک ایک جگہ جمع ہوکر ایک اور مکروہ روپ لے رہی تھیں ۔
وہ نیچے کی طرف بھاگی تھی ۔
نیچے ھال مکمل خالی تھا ۔
کوئی ھے مدد کرے میری۔
وہ زور سے چلائی تھی پر جواب میں ایک قہقہ سنائی دیا تھا ۔
سب مارے جا چکے ہیں اور اب تمہارا خون پینا ھے۔
وہی اواز اسے دوبارہ سنائی تھی ۔
اب ھال کی دیواروں پر عجیب سی شکلیں پیدا ہونے لگیں تھیں ۔
وہ باہر کی سمت بھاگی تھی ۔
پر راستے میں ہی وہ رکی تھی ۔
بیرونی دروازے پر ایک ہاتھی جتنی جسیم مکڑی تھی جس کی سرخ آنکھیں اسی کو دیکھ رہی تھیں۔
وہ ساکت ہوگئی تھی ۔
اس مکڑی کے منہ میں ایک انسان تھا جسے وہ چبا رہی تھی ۔
میرے خدا۔
وہ لرز گئی تھی باہر کا راستہ بند تھا۔
وہ گھبرا کے پلٹی اچانک اور میز سے ٹکرا گئی اس آواز سے مکڑی نے اسے دیکھا اور پھر اس انسان کو چھوڑ کر تیزی سے اس کی طرف آنے لگی ۔
اوہ نہیں وہ لائبریری کی طرف بھاگی مکڑی اس کے قریب تھی ۔
لائبریری میں داخل ہوکر اس نے دروازہ بند کیا اور جلدی سے لاک لگا کر وہیں بیٹھ گئی۔
خوف سے اس کا برا حال ہو رہا تھا۔
اس چھوٹی سی لائبریری میں باہر کی جانب ایک کھڑکی تھی اس نے وہاں سے فرار ہونے کا سوچا اور تیزی سے پھر کھڑکی کی طرف بڑھی ۔
اور کھڑکی کھول کر دوسری جانب باہر اتری۔
اب اسے ہاسٹل کا بڑا گیٹ دکھائی دے رہا تھا۔
چودھویں کا چاند روشن تھا۔
اس نے گیٹ کی طرف دوڑ لگا دی تھی ۔
اسے گیٹ کے اس پار ایک آدمی سڑک پر سے گزرتا دکھائی دے رہا تھا ۔اسے دیکھ کر تو جیسے اس کے جسم میں جان پڑ گئی ۔
اے سنو میری مدد کرو تم وہ چیختی ہوئی اس کی طرف بھاگی .اس نے بھی شاید اس کی آواز سن لی تھی اور وہ رک کر اس کو دیکھنے لگا تھا ۔
اچانک آسمانی پر ایک بڑی چمگادڑ نمودار ہوئی تھی جو اس انسان کے سر پر تھی۔۔لڑکی نے چیخ کر اسے بتانے کی کوشش کی تھی ۔
پر جب تک وہ انسان سمجھتا چمگادڑ نے اسے دبوچ لیا اور ہوا میں لیکر گم ہوگئی ۔
سڑک پر وہ تنہا رہ گئی تھی ۔
اسے لگ رہا تھا پورے شہر پر اس وقت بلاؤں کا قبضہ ھے ۔
وہی چمگادڑ دوبارہ آسمان پر نمودار ہوئی تھی ۔
لڑکی نے دور لگے درختوں کی طرف دوڑ لگا دی۔
چمگادڑ نے غوطہ لگایا اس کی طرف پر تب تک وہ درختوں کے اس چھوٹے سے جھنڈ میں پہنچ چکی تھی ۔
یہ شہر کا قبرستان تھا۔
اور وہ اس وقت ایک قبر کے پاس گری تیز سانسیں لے رہی تھی ۔
اس کی ہمت جواب دے چکی تھی ۔
اچانک اس نے محسوس کیا جیسے قبر ہل رہی ہو۔
اس نے سر اٹھا کر دیکھا اور پھر دہشت سے چیخی۔
قبروں میں سے مردے نکل رہے تھے ۔
وہ بھاگتے ہوئے قبرستان کے درمیان میں آچکی تھی ۔اور اب اس کے چاروں طرف سے مردے نکل کر اس کی طرف آرہے تھے ۔
بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں تھا ۔
اس نے بھاگنے کی کوشش کی پر لاحاصل تھا۔
وہ بہت زیادہ تھے ۔
ان سے ٹکڑا کر وہ نیچے گر چکی تھی ۔
پھر وہ مردے اسے کھانے کے لئے اس پل پڑے تھے ۔
وہ چیخ رہی تھی مجھے چھوڑو ۔مجھے مت کھاؤ۔
اچانک کسی نے اسے کھینچا تھا۔
کیا ہوا فزا؟
عینی اس پر جھکی تھی اور اس کا بدن پیسنے سے شرابور تھا ۔
وہ خواب دیکھ رہی تھی۔
عینی اس سے پوچھ رہی تھی کیا ہوا پر اس کی نظر سائڈ پر رکھی ہوئی خوفناک کہانیوں کی اس کتاب پر جمی ہوئی تھی جسے پڑھتے ہوئے وہ سوئی تھی ۔!!