تبصرہ.
نام کتاب: وہ ایک کہانی
مصنف: ڈاکٹر غضنفر اقبال
ناشر: کرناٹک اردو اکادمی، بنگلورو
سن اشاعت: ٢٠١٩
صفحات: ٣٢٠ قیمت: تین سو روپے
مبصر: شاہد حبیب، ریسرچ اسکالر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی،لکھنؤ کیمپس، پن ٢٢٦٠٢٠۔
ڈاکٹر غضنفر اقبال ایک علمی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ ان کے والد گرامی پروفیسر حمید سہروردی اردو کے معروف افسانہ نگار ہیں، لیکن ڈاکٹر غضنفر اقبال کا تعارف اس سے آگے کا ہے۔وہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے اردو فکشن کے مختلف گوشوں پر برابر لکھ رہے ہیں اور تقریبا ہر معتبر رسالے میں چھپ چکے ہیں۔وہ ایک درجن کتابوں کے مصنف اور مؤلف ہیں۔جن میں ’اردو افسانہ: ١٩٨٠ کے بعد‘(٢٠٠٦)، ’حمید سہروردی کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ‘ (٢٠١٦)، ’عصمت جاوید‘ پر مونوگراف(٢٠١٦) اور ’ڈاکٹر وہاب عندلیب: شخصیت اور ادبی سفر‘(٢٠١٨)اہم ہیں۔ان کے انشائیوں کے مجموعے ’معانی مضمون‘ پر ان کو٢٠١٢ میں ساہتیہ اکادمی کی طرف سے ’یوا پرسکار‘ بھی مل چکا ہے۔ ان کی شناخت ایک فکشن ناقد کے طور پر مستحکم ہو چکی ہے اور اس میں مزید پختگی عطا کر رہی ہے ان کی تازہ کتاب ’وہ ایک کہانی‘۔ یہ کتاب دراصل ان کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو وہ مختلف رسائل کے لیے گاہے بہ گاہے لکھتے رہے ہیں۔ شکرگزار ہوں کرناٹک اردو اکادمی کے صدرنشین محترم منور مبین صاحب کا کہ انہوں نے ان مضامین کو رسائل کی دبیز فائلوں میں پڑے رہنے اور وہاں ان کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے ڈاکٹر صاحب کو انہیں یکجا کرنے کی طرف توجہ دلائی اور اس بیش قیمت سرمایے کی اشاعت کی ذمہ داری اٹھائی۔کہانی اور فکشن کے ارد گرد لکھے ان مضامین میں موضوعاتی ربط تلاش کرڈاکٹر غضنفر اقبال نے انہیں یکجا کرکے فکشن کے قاری کے لئے بڑی آسانی کا سامان کیا ہے۔
’وہ ایک کہانی‘ کے مضامین کو پانچ ذیلی عناوین (لکیردرلکیر، سلسلہ در سلسلہ،پیچ در پیچ، دائرہ در دائرہ اور پردہ در پردہ)میں اس خوبصورتی کے ساتھ سمیٹ دیا گیا ہے کہ وہ مستقل کتاب کے لیے لکھے گئے ابواب کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔
پہلے حصے ’لکیر در لکیر‘ میں بارہ مضامین ہیں جو اصولی یا تھیوریٹکل نوعیت کے ہیں۔جن میں ’علی گڈھ تحریک اور افسانوی ادب‘، ’جدید افسانے کی کہانی‘، ’اردو فکشن: اخلاقی اقدار کی روشنی میں‘ اور ’ناول تنقید: ایک ناتمام مطالعہ‘جیسے مضامین قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول بھی کراتے ہیں اور فکشن کی علمی آگہی بھی عطا کرتے ہیں۔
دوسرے حصے ’سلسلہ در سلسلہ‘میں پانچ مضامین شامل ہیں جس میں سب سے زیادہ توجہ کھینچتا ہے ’مجتبی حسین کے خاکوں میں افسانہ طرازی‘ نامی مضمون۔ مجتبی حسین کی شناخت ہمارے یہاں ایک معروف طنزومزاح نگار اور خاکہ نویس کی ہے لیکن ان کے ان ہی خاکوں میں افسانوی رنگ تلاش کر ڈاکٹر صاحب نے یقینا ایک انفرادی روش اپنائی ہے۔ظاہر ہے گھسے پٹے موضوعات پر خامہ فرسائی کے بجائے نئی راہیں تلاش کرنا ایک مستحسن قدم مانا جاتا ہے، کیونکہ اسی راستے سے ادب کے دامن کو وسیع کیا جا سکتا ہے اور مقبول بھی۔ ڈاکٹر صاحب نے مجتبی حسین کے خاکوں میں افسانوی رنگ تلاش کر اسی احساس کی تکمیل کی ہے،اس لئے سمجھتا ہوں کہ وہ لائق صدمبارکباد ہیں۔
تیسرے حصے ’پیچ در پیچ‘ میں چند مشہور افسانہ نگاروں کی مجموعی افسانوی خدمات یا کسی مخصوص زاویے پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ان افسانہ نگاروں میں منٹو،فاروق راہب،یوسف عارفی،ساجد رشید،رحمن عباس، بیگ احساس،نورالحسنین،عارف خورشید،عشرت بیتاب، داؤد محسن،ارشد نیاز اور احمد عارف جیسے مشہور تخلیق کار شامل ہیں۔
چوتھے حصے’دائرہ در دائرہ‘ میں ایسی دس کتابوں پر سیر حاصل تبصرے شامل ہیں جو افسانوی جہان کے ارد گرد لکھے گئے ہیں۔جن میں مشرف عالم ذوقی کا افسانوی مجموعہ ’صدی کو الوداع کہتے ہوئے‘،نذیر فتح پوری کی ’پشاور کی ١٧ کہانیاں‘،ڈاکٹر سہیل بیابانی کی ’قرۃالعین حیدر کی افسانہ نگاری‘ اور ایم نسیم اعظمی کی ’اردو کے فکشن نگار‘ جیسی علمی کتابوں پر تبصرے واقعی قابل مطالعہ ہیں۔
پانچویں اور آخری حصے’پردہ در پردہ‘ میں آٹھ مشہور افسانوں کا تجزیہ شامل ہے۔ سب سے پہلا تجزیہ پریم چند کا مشہور افسانہ ’دنیا کا سب سے انمول رتن‘ پر لکھا گیا ہے اور آخری تجزیہ اشتیاق سعید کے منفرد افسانے ’تشنہ آرزو‘ پر تحریر کیا گیا ہے۔یہ تجزیے ایسے ہیں کہ جن کو پڑھ کر آج کل کے بہت سے ناقدین کو بھی افسانے کی باریکیوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
پوری کتاب فکشن کے قارئین کے لیے بے حد مفید ہے۔امید ہے ڈاکٹر صاحب کی دیگر کتابوں کی طرح ہی اس کا بھی فکشن کی دنیا میں خاطرخواہ استقبال کیا جائے گا۔
shahidhabib10@gmail.com