پیلی اینٹوں والی سڑک کے ساتھ چلتے رہو
چلتے رہو ، چلتے رہو ، چلتے رہو ، چلتے رہو ،
پیلی اینٹوں والی سڑک کے ساتھ چلتے رہو …
ہم بہت قریب پہنچ چکے تھے! تقریباً ویلنگٹن (Wellington) ، شہر زمرد(Emerald City)! میں، ڈیڈ، مم اور روہا (Roha) گذشتہ دو دنوں سے ہماری اس کار میں سفر کر رہے ہیں جو ڈیڈ نے پچھلے ہفتہ ہی مسٹر ویلیس(Mr Wallace) سے خریدی تھی۔ کار پر کہیں بھی کوئی پچک جانے کے نشان نہیں تھے اور نا ہی زوروں سے چیخنے والا ہارن۔وایٹوہی(Waituhi) سے نکلتے ہوے ڈیڈ نے کہا تھا کہ وہ خود ہی کار چلائینگے ، لیکن واریرٹاس( Whareratas) پر کار بند ہو گئی اور تب ڈیڈ کو اپنی سوچ بدلنی پڑی۔
جب ڈیڈ کار کی مرمت کر رہے تھے ، مم کہنے لگیں کہ انھوں نے پہلے ہی کہا تھا کہ وہ اس کار میں ویلنگٹن نہیں پہنچ سکتے۔
"ہم وہاں ضرور پہنچیں گے۔"
" لیکن میں وہاں زندہ پہنچنا چاہتی ہوں ! " مم نے جواب دیا۔
ڈیڈ نے کہا ، "تم اپنے بیکار سامان میں سے کچھ پھینک دو ۔"
ہماری کار واقعی بہت زیادہ غیر ضروری سامان سے لدی ہوئی تھی۔کار بوٹ مم کے سامان سے بھری تھی ،اور کار کی چھت پر رکھے سامان کو کینواس سے ڈھک کر باندھ دیا گیا تھا اور مزید سامان ہمارے ساتھ پھنسا کر رکھا گیا۔
لیکن ، اے کار کیا تجھے اس وقت رکنا چاہیے تھا ؟ جبکہ صرف ایک پہاڑی سے گذر کر ہم وہاں پہنچ گئے ہوتے۔یقیناً آہستہ آہستہ اوپر چڑھتے ۔ چاہے ہمارے پیچھے کاروں کی لانبی قطاریں ہی کیوں نہ لگ جاتیں ، اور کتنے ہی ہارن کیوں نہ دینے لگتے ۔ اس سڑک پرہمارا بھی اتنا ہی حق ہے ، جتنا کہ ان کا۔
سڑک ، سڑک ، پیلی اینٹوں والی سڑک ، جو کار کی ہیڈ لائیٹس کی روشنی میں پیلی دکھائی دے رہی تھی۔اس کتاب کی طرح جو مجھے میری ٹیچر ، مس رائیٹ(Miss Wright ) نے وایٹوہی چھوڑنے سے پہلے دی تھی۔یہ کتاب تنکوں سے بنے آدمی(straw man ) ، قلعی گر (tin man ) ، بز دل شیر اور شہر زمرد (Emerald City) کے بارے میں ہے …… ہم تو بہت قریب پہنچ چکے ہیں!
میں اپنی سیٹ پر اچھلنے لگا۔ جھلملاتے ہرے مینار اندھیرے میں درخشاں سامنے دکھائی دے رہے ہیں اور میں مزید انتظار نہیں کرسکتا۔
"ماٹی یو( Matiu) ، خاموش بیٹھے رہو ! " مم غصہ سے غرائی۔"کیا ہوگیا ہے تمھیں، اےای ؟"
" معذرت ، مم۔"
بیچاری مم۔ وہ کافی تھکی ہوئی تھیں اور وایٹوہی اور اپنا خاندان کو چھوڑتے ہوئے بہت ناراض بھی۔تمام لوگوں سے وداع ہوتے ہوئے، دور تک جھنڈوں کی طرح ہلاتے ہوئے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے ، روتی رہیں جس کی وجہ سے ان کی آنکھیں ابھی تک سرخ ہیں۔ویسے وہ عام طور پر روتی نہیں ہیں روہا (Roha) کی طرح جو اکثر ہون (Hone) کے لیے روتی رہتی۔ وہ دونوں اکثر گھومنے جایا کرتے تھے اور ایک بار میں نے انھیں ایک دوسرے سے بے حد قریب ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ای ی ی!
میں نے بہن کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے کہا ، "روہا ، بالکل فکر نہ کریں۔ جب ہم ویلنگٹن پہنچتے ہیں ، وہاں تمھیں بہت سارے لڑکے مل جائینگے جن کے ساتھ تم قریبی تعلقات قائم کرسکتی ہو، اے ی۔"
" تم مسکرا کیوں رہے ہو ، چالاک لڑکے ؟ "روہا نے چٹکی بجاتے ہوے کہا۔
" اگر میں ہنسنا چاہوں تو مجھے اس کی پوری اجازت ہے ، ہے نا؟" میں نے اچانک ہی مجروح دل کے ساتھ پوچھا۔
" ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے ، ناراض ہونے کی ضرورت نہیں۔"
میں نے چڑانے والا چہرا بنا کر اس کی طرف دیکھا۔اسے اچھا سبق ملےگا جب اسے پتہ چلے گا کہ پاکیھا*(Britisher) لڑکے کبھی اس سے محبت نہیں کرسکتے ! وایٹوہی کے برعکس ، ویلنگٹن میں بہت زیادہ پاکیھا لوگ ہیں۔میں تو یہ سوچ کر گھبرانے لگا۔
" ڈیڈ ، کیا ویلنگٹن میں پاکیھا ہمیں پسند کرینگے ؟ ڈیڈ؟"
ڈیڈ نے کوئی جواب نہیں دیا ، کیونکہ وہ بڑی توجہ اور دھیان سے کار چلارہے ہیں۔وہ سامنے کی طرف جھکے سڑک پر بھی نظریں جمائے ہوئےہیں۔اسی دوران بارش بھی شروع ہوگئی۔
میں بڑی شدت سے محسوس کر تا رہا کہ کاش میں کچھ بڑا ہوتا اور کار چلانا سیکھ لیتا تو ڈیڈ کچھ آرام کرلیتے۔
میں نے انھیں چھوا اور انھوں نے اپنی بانہہ میرے گلے میں ڈال دی۔ان کا چہرہ کافی تھکا ہوا دکھائی دے رہاہے ، بالکل اسی طرح جیسے کل کار کا پٹرول ختم ہونے پر ہمیں گیراج تک پیدل جانا پڑا تھا۔ہم سڑک کے ساتھ ساتھ میلوں پیدل چلتے رہے ، اور کئی کاریں ، بغیر رکے ، تیز رفتاری سے گذرتی جارہی تھیں ۔کچھ تو ہماری طرف دیکھ کر چیختے ہوئے گذر جاتے۔ اور کچھ ہماری طرف دھول اڑاتی چلی جاتیں۔اور جب بھی وہ قریب سے گذرتے ، آگے جاتے ہوئے پیچھے مڑ کر ہمیں گھورتے رہتے۔ میں بڑا حیران ہو رہا تھا۔
" وہ رک کیوں نہیں رہے ، ڈیڈ ؟"
ڈیڈ نے صرف اپنے کندھے اچکائے۔
"ہم اس وقت ایک مختلف وطن میں ہیں ، بیٹے۔"
مجھے ان چہروں سے نفرت سی ہونے لگی تھی۔ میں تو ان کی طرف پتھر پھینکنا چاہتا تھا۔ لیکن پھر اس امید پر کہ شاید ویلنگٹن پہنچنے پر حالات مختلف ہوں گے، ہوں گے نا ؟ اور ہم ضرور خوش ہوں گے ، ہم ہوں گے نا؟
"ہم ضرور خوش ہوں گے۔آپ بس انتظار کریں ، ڈیڈ ۔ ہم بہت پیسہ بنائیں گے اور دوسروں کی طرح امیر ہو جائیں گے کیونکہ ویلنگٹن میں بہت پیسہ ہے۔اور تمھیں وہاں جانا چاہیے جہاں پیسہ ہے ، اےی ڈیڈ۔ وایٹو ہی میں رہ کر ساری زندگی غریب رہنے کے کوئی معنی نہیں ، اے ی۔"
میں سیٹ پر پیچھے کی طرف جھک گیااور کمبل کے اندر گھس گیا۔سردی بڑھتی جارہی تھی اور کار کے کسی سوراخ سے ہوا اندر داخل ہورہی تھی۔پھر اس نے محسوس کیا کہ اس کی جیب میں لولیز(lollies) کا پیکٹ پڑا ہے۔
"مم ، آپ کو چاہیے؟ڈیڈ ، روہا آپ کو چاہیے ؟"
میں نے پیکٹ روہا کی طرف بڑھا دیا اور اس نے دو لے لیں ، لالچی جو ہے۔میں نے ایک اپنے منہ میں ڈال لیا ،اور باقی بچی ہوئی گن لیں ، سات ہیں۔
" بیٹے ، اب تک خریدی گئیں لولیز میں یہ سب سے زیادہ اچھی ہیں۔کل جب ہم اس دوکان پر رکے تھے ، میں نے اس شخص کو تیس سنٹس (30 cents) دیے تھے لیکن اس نے بچے ہوے پیسے واپس بھی نہیں کیے۔ اور جب میں نے پوچھا تو کہنے لگا کہ تیس سنٹس لولیز کی قیمت ہے۔لیکن مجھے پتہ ہے کہ وہ جھوٹ کہہ رہا تھا۔چور تھا وہ ، میرے پیسے چرالیے اس نے۔جب کوئی اسے ٹھگ لے گا ،تب اس کو سمجھ میں آئے گا۔مزید یہ کہ ان لولیز سے بدبو آرہی ہے ، اسی دوکاندار کی طرح۔"
میں سامنے ، اندھیرے میں پیچ کھاتی ہوئی سڑک کو دیکھتا رہا۔تھوڑے تھوڑے وقفہ سے کوئی کار فراٹے سے گذر جاتی۔اور یہ تیز رفتار سے گذرنے والی کاریں ہمیں ناپسندیدگی کی نظروں سے دیکھتی ہوئی گذر جاتیں۔کیونکہ ہم ان کے مقابلہ میں بہت آہستہ چلا رہے تھے۔
اچانک ، سامنے سے تیز چمکتی ہوئی آنکھوں کی طرح لائیٹ دکھائی دی۔ اور وہ چمکتی آنکھیں بڑی ہوتی چلی گئیں ، ………
ڈیڈ ! میں چیخ اٹھا۔
ایک بہت بڑا ٹرک اپنی دہکتی ہوئی ہیڈ لائیٹس کے ساتھ سیدھے ہماری طرف آنے لگا۔ مجھے لگ رہاتھا جیسے کوئی شکاری پرندے کے لانبے ناخن والا پنجہ مجھے دبوچنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہو۔
"ستیہ ناس !" ، ڈیڈ بڑبڑاے۔
انھوں نے اسٹیرنگ کو ادھر اُدھر موڑا ، اور کار پتھریلی سڑک پر آگئی۔اور ٹرک کار کے بازو سے گرجتا ہوا اور چیختا ہوا ، ہوا کی طرح گذر گیا۔
میں نے مم کی طرف دیکھا۔ ان کا چہرہ لرز رہا تھا۔
مجھے دونوں ہاتھ اسٹیرنگ وھیل پر رکھنا چاہیے تھا ، ڈیڈ کہہ رہے ۔
ڈیڈ نے اپنا ہاتھ میرے شانوں سے ہٹایا ، اور مجھے اچانک محسوس ہوا جیسے میں تنہا ہوگیا ہوں۔میں وائیٹوہی ، اور اپنے خاندان کے بارے میں سوچتے ہوئے اداس ہوگیا۔ہمارا سارا خاندان اور ہماری گائے ، ایمیری(Emere) وہیں ہیں۔الوداع(Haere ra) ایمیری۔ اور الوداع ای ہیمی( eHemi) تم ہمیشہ ہی میرے بہترین دوست رہوگے۔
میں آہستہ سے گنگنانے لگا۔
پیلی اینٹوں والی سڑک کے ساتھ چلتے رہو ،
ساتھ چلتے رہو، ساتھ چلتے رہو، ساتھ چلتے رہو ، ساتھ چلتے رہو ……
مس رائیٹ(Miss Wright) نے یہ گیت اسکول میں سکھایا تھا۔بڑا صاف ستھرا گیت۔سارے بچے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے ، لانبی سی قطار بناے کھیل کے میدان میں دیوانوں کی طرح ناچنے لگتے تھے اور ……
کچھ چیخنے کی آوازیں اور کینوس کے پھڑپھڑانے کی آوازیں آنے لگیں۔
"کیا ہے یہ ، ڈیڈ ؟"
ڈیڈ نے کار بازو روک دی اور باہر نکل آئے۔مم نے کھڑکی کا شیشہ نیچے کیا :
"کیا ہوا؟"
" رسی شاید ٹوٹ چکی ہے" ، وہ چیخ کر بولے۔
" تم باہر نکل کر اپنے ڈیڈ کی مدد کرو" ، مم نے مجھ سے کہا۔
میں کار سے کود کر باہر بارش میں آگیا۔یقیناً موسم گیلا اور سرد ہوگیا تھا۔ڈیڈ ہوا کے ساتھ بہت محنت سے کینوس کو دوبارہ سامان پر ڈھانکنے کی کوشش کررہے ہیں۔
" یہ سارا ردی سامان !" ڈیڈ بڑبڑائے۔ کینوس پوری طرح سے نکل چکا تھا۔ ڈیڈ نے اوپر سے ایک ڈبہ نیچے پھینک دیا۔میری کتابیں ساری باہر نکل پڑیں اور اوراق ہوا میں پرندوں کی طرح اڑنے لگے۔
" ڈیڈ ۔ نہیں ڈیڈ……"
میں پریشانی میں سڑک پر ادھر ادھر دوڑنے لگا ، کیونکہ وہ میری اسکول کی کتابیں ہیں ، اور ان میں میری پسندیدہ کتابیں بھی ہیں۔ میری بہترین کتابیں۔
" ماٹیو ! سڑک سے ادھر آجاؤ!" مم چیخیں۔
میری بہترین کتابیں۔ہوا میں اور بارش میں۔میری بہترین کتابیں۔
"ماٹیو ۔"
اور یہ دیکھیں۔ سڑک پر پڑی ہیں۔ میں انھیں لینے کے لیے بھاگتا ہوں ، اور اسی وقت کسی کار کے اچانک رکنے کی چیخیں سنائی دیں۔لیکن میں کتابیں اپنے ہاتھوں میں محفوظ کرچکا ہوں ۔اب مجھے کوئی چھپنے کی جگہ نہ بھی ملے تو کوئی فکر کی بات نہیں۔ مم نے بڑی زور سے مجھے مارا۔
" کیا کر رہےہو تم وہاں ، بیوقوف لڑکے۔"
لیکن مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ مجھے کوئی پرواہ نہیں ……
اور دوسری کار کا ڈرائیور غصہ میں ڈیڈ کو جانے کیاکیا کہنے لگا :
سخت ناگواری سے ، "کیا سمجھتے ہو تم کیا کر رہے ہو، اے؟بچہ کو اس طرح سڑک پر دوڑارہے ہو، کیا تمھیں سمجھ نہیں ہے ؟ دیکھو میری بات کا برا نا ماننا۔ تمھیں سڑک پر آنا ہی نہیں چاہیے۔ تمہاری کار تو خطرناک حد تک سامان سے لدی ہے۔اور کیوں نہیں تم سڑک کے کنارے سے اور زیادہ دور اپنی کار کو پارک کرتے ، اے؟ لیکن یہ سب کہنے کا کیا فائدہ۔ تم ماؤریز سارے ایک جیسے ہی ہو۔ احمق اور گھٹیا۔( horis, derogatory word used for Maori)۔"
وہ واپس اپنی کار میں بیٹھا اور چنگھاڑتا ہوا نکل گیا۔ڈیڈ غصہ میں تمتماتے چہرے کے ساتھ میرے قریب آئے۔
"آگے بڑھیے ڈیڈ ۔ ماریے مجھے ۔ میں اسی لائق ہوں۔"
لیکن انھوں نے ایسا کچھ کیا نہیں۔ بجائے اس کے ، انھوں نے مجھے گلے لگایا اور پوچھا :
"آپ ٹھیک ہو ، بیٹا؟"
" ہاں ڈیڈ۔ معذرت چاہتا ہوں ، ڈیڈ۔ وہ شخص……"
" وہ حرامی ۔ چھوڑو اس کو۔"
میں نے مضبوطی سے اپنی کتاب پکڑ رکھی تھی۔ اسے میں ساتھ ہی لیکر کار میں بیٹھ گیا۔ مم پھر مجھ سے غصہ ہونے لگیں۔
"تونی ، تو نی۔ عورت"، ڈیڈ نے کہا۔ "وہ سب ختم ہوچکا ہے اب۔ بھول جائیں سب۔"
"یہ سب کچھ نہیں ہوا ہوتا اگر تم نے سیم(Sam) کے کہنے کے مطابق سامان کو ٹھیک سے باندھا ہوتا" ، مم نے جواب دیا۔
سیم دراصل میرے انکل ہیں جن کے گھر ہم ہیسٹنگ(Hastings) میں کل رات رکے تھے۔سیم انکل تو جانتے بھی نہیں تھے کہ ہم ویلنگٹن(Wellington) جارہے تھے۔
" آگے تیز ہوا والا علاقہ ہے"، انھوں نے کہا۔ "سب چیزیں اچھی طرح سے باندھ لینا ورنہ ہوا تمھیں اڑا لے جائے!"
"تمھیں پتہ نہیں وہاں کتنی ٹھنڈک ہے؟ سال بھر چمکتی دھوپ کے ساتھ بھی بارش چلتی رہتی ہے۔"
" ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔ " میں نے جواب دیا تھا۔ "ہم تو وہاں بہت سارا پیسہ کمانے کے لیے جارہے ہیں۔اب یہاں رہنے کے لیے کچھ نہیں بچا ۔ ایسے ہی کہا تھا نا آپ نے ، ڈیڈ۔"
ڈیڈ نے اجنبیت کے ساتھ میری طرف دیکھا۔
" ہمارے شہر میں کام کی کافی قلت ہو گئی ہے۔" ڈیڈ نے انکل سے کہا۔"مختصر مدتی کام تو بہت ہیں لیکن میں اور ہینے(Hine) تھک چکے ہیں۔ بھیڑوں کے بال تراشنا ، پھل توڑنا ، وغیرہ اب نہیں ہوگا۔ویلنگٹن میں بہت سارے کارخانے ہیں ، بہت کام مل جائیگا۔"
" کس نے کہہ دیا تم سے یہ سب !" انکل نے غصہ سے پوچھا۔
" جم" ( Jim)، ڈیڈ نے جواب دیا۔
انکل جم ڈیڈ کے بھائی ہیں۔ وہ پیٹان(Petone) میں رہتے ہیں اور اب ہم انھی کے گھر رہنے جارہے ہیں جب تک ہم اپنا گھر نہیں ڈھونڈھ لیتے۔
انکل سیم نے اپنے کندھے اچکاۓ۔
" ٹھیک ہے ، جم بہتر جانتا ہوگا" ، انھوں نے کہا۔
—— میں چاہتا ہوں کہ ہمیں ایک اچھی زندگی کے لیے ایک اچھی شروعات کرنی ہوگی ، ڈیڈ نے انھیں وضاحت دی۔میری بیوی ، میرے بچوں اور خود میرے لیے ہمارے پاس کبھی کچھ نہیں رہا۔لیکن میرے بچے ؟ وہ ہر آسائش کے ساتھ بڑے ہونگے۔میں کڑی محنت کرونگا ، تاکہ وہ اپنی ساری خواہشات پوری کرسکیں۔
لیکن میں دیکھ رہا تھا کہ انکل سیم ڈیڈ کی باتوں کو سمجھ نہیں پارہے تھے۔انھوں نے صرف سر ہلایا اور ہماری کامیابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔اور صبح ہمارے نکلنے سے پہلے پھر ایکبار ڈیڈ سے کہا کہ سامان پر کینوس اچھی طرح سے باندھ لیں۔
" ورنہ ہوا اندر گھس جائے گی اور اس سے پہلے کہ تم جان سکو ، ویلنگٹن میں اڑتے نظر آؤگے!"
ڈیڈ رسیوں کے ساتھ جد و جہد کرتے ہوے کینوس کو باندھنے کی کوشش کرتے رہے۔پھر مم سے کہا :
" کیوں نا ہم کچھ ردی سامان پھینک دیں ، اےای ؟"
مم نے جواب دیا:
" یہ جسے تم ردی کہہ رہے ہو ، کبھی ہمارا سامان تھا۔ میں کسی صورت ایک چیز بھی نہیں پھینکنے دونگی ، چاہے جتنی بھی ہوائیں چلیں۔"
یقیناً کار کے باہر تو بس ہوائیں ہی تھیں۔رات کے آسمان پر بادل پنکھوں والے بندروں کی طرح بھاگ رہے ہیں۔ ( اڑتے بندر ، امریکن مصنف ایل ۔ فرینک بام L. Frank Baum کے بچوں کے لیے لکھے ناول The Wonderful Wizard of Oz کے افسانوی کردار ہیں جو بد اعمالی اور خوف کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ) ہوا ہمارے سامان کے اندر کبھی ماتم کررہی ہے ، کبھی چہچہا رہی ہے اور کبھی مرغی کی طرح کڑکڑا رہی ہے ، اور ان خوف زدہ آوازوں اور مناظر سے بچنے کے لیے میں نے آنکھیں بند کرلیں اور کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔
اور پھر اچانک ساری آوازیں بند ہوگئیں ، بلکہ کار ہی رک گئی۔
" اس مقام پر" ، ڈیڈ نے کہا۔
میں نے آنکھیں کھولیں۔ دور ویلنگٹن کی لائیٹوں کی قطاریں دکھائی دے رہی تھیں جو ہماری کار کے شیشوں پر بارش کے پانی کی وجہ سے درخشاں میناروں کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔بہت خوبصورت نظارہ ، بالکل ویسے ہی جیسا میں نے تصور کیا تھا ، جیسا میرا قیاس تھا۔شہر زمرد(Emerald City) ۔
"کتنا صاف و شفاف ہے نا ، مونی( Muni)؟"
وہ چپ چاپ آگے کہیں گھورتی رہی۔
"روہا ؟" میں نے پوچھا۔
میری بہن کے چہرے پر عجیب سی تمتماہٹ ابھر آئی۔
"ڈیڈ ؟"
وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائے۔
" تم اور تمھارے خواب ، بیٹے۔"
انھوں نے کار چلانا شروع کی۔ اور کار پہاڑی سے ڈھلان کی طرف روانہ ہوگئی۔ میں نے ڈیڈ ، مم اور روہا کی طرف دیکھا جو کافی حیرت زدہ دکھائی دے رہے تھے۔اور ایسا کیسے کہ صرف میں ہی خوش ہوں!
کیا وہ دیکھ نہیں سکتے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں ہماری زندگی اور ہمارے خواب شروع ہونے جارہے ہیں؟
اور خواب جو سچ ثابت ہونگے ، ہونگے نا؟ ہونگے نا؟
میں کار سے باہر دیکھنے لگا۔میں نشانیاں دیکھنے لگا: اسٹیپ گریڈ(Steep Grade) ۔ساری پیلی اینٹوں والی سڑک پر اسی طرح کی نشانیاں ہیں۔ اسٹیپ گریڈ ، چینج ڈاؤن(Change Down)، ون وے(One Way) ، لیمیٹیڈ اسپیڈ زون( Limited Speed Zone) ، روڈ نیروز(Road Narrows) ،اسٹاپ(Stop) ، وائینڈنگ روڈ(Winding Road) ، گو(Go) ، کنسیلڈ ایگزٹ(Concealed Exit)۔ٹریفک لائیٹس اہڈ(Traffic Lights Ahead) ، گریزی وھین ویٹ(Greasy When Wet) ، نو ایگزٹ(No Exit) ، نو پاسینگ(No Passing) ، نو اسٹاپنگ(No Stopping) ۔ساری نشانیاں بتا رہی ہیں کہ ہمیں کہاں جانا ہے ،اور ……… مجھے کچھ ڈر سا لگنے لگا۔ "اگر کبھی ہم واپس جانا چاہیں تو کیا ہم اپنا راستہ ڈھونڈھ پائیں گے؟"
میں گنگنانے لگا۔ اس لیے نہیں کہ میں خوش ہوں ، بلکہ اس لیے کہ میں خود کو یقین دلوانا چاہتا ہوں کہ مستقبل میں ہماری ہر کوشش صحیح ہوگی۔
ضرور ہوگی ، ہوگی نا؟
پیلی اینٹوں والی سڑک کے ساتھ چلتے رہو،
چلتے رہو ،چلتے رہو، چلتے رہو ، چلتے رہو
چلتے رہو ………
==============
حواشی:
old-fashioned British English*
نوٹ:
('پیلی اینٹوں والی سڑک ‘ ۱۹۰۰میں ایل فرینک بام کے بچوں کے لیے لکھے ناولThe Wonderful Wizard of Oz ۔ کا ایک افسانوی جز ہے۔ پیلی اینٹوں سے بنی سڑک ناول کے کرداروں کو ان کے خوابوں کی دنیا ‘ شہر زمرد ، تک پہنچا سکتی ہے.(
Original Title: Yellow Brick Road
Written by: Witi Ihimaera (born 7 February 1944) is a New Zealand author. He was the first published Māori novelist.
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
تحریر : ویٹی ای ہیمیرا (نیوزی لینڈ)
ترجمہ : ڈاکٹر صہبا جمال شاذلی( نیوزی لینڈ)