جب بھی نئی حکومت اقتدار میں آتی ہے توایک ہی جملہ نئی حکومت کے وزرا اور لیڈر کہتے ہیں، ہمیں مسائل ورثے میں ملے ہیں، ان کو حل کرنے میں وقت لگے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر نئی حکومت میں اکثر چہرے وہی ہوتے ہیں جو پچھلی کسی حکومت میں پانچ دس سال پہلے یہی موقف بیان کررہے ہوتے ہیں۔ جمہوریت کے نئے ’’انتظام‘‘ میں جو 2002ء سے جنرل مشرف نے اپنی آمریت کی چھتری تلے بحال کیا، اس انتخابی سیاست کے نتیجے میں نمودار ہونے والے بیشتر چہرے وہی ہیں جو آج سے سولہ سال قبل 2002ء میں منتخب ہوکر حکومتوں میں آئے تھے۔ البتہ دیگر نئے چہرے وہ ہیں جو ان سیاسی خاندانوں میں انتخابی عمر پر کوالیفائیڈ ہوگئے، یعنی نئے ’’چشم وچراغ‘‘۔ جیسے اعلیٰ خاندانوں کے ’’چشم وچراغ‘‘ انتخابی سیاست کے سبب ’’نئے چہرے‘‘ بن کر سامنے آئے، اسی طرح لاکھوں نئے چہرے ووٹروں اور عوام کی شکل میں بھی جوان ہوئے، استحصال کیے جانے کے لیے نئے ایندھن کے طور پر۔ حکمرانی، حکومت کیے جانے اور استحصال کیے جانے کا ایک Cycle ہے۔ اور اسی میں ’’تبدیلی‘‘ کے دعوے دار بھی ابھرے۔ حکمرانی کے اس Cycle میں، سول بیوروکریسی بھی وہی، طرزِحکمرانی بھی وہی، بس الفاظ اوپر تلے بیان ہوں تو سادہ لوگ یہ یقین کرلیتے ہیں، اب تو کچھ ہوکر ہی رہے گا۔ حیرت اس شہری مڈل کلاس پر ہوتی ہے، جو کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں۔ وہ بھی اس دھوکے میں ایندھن میں ہراول دستہ بن جاتے ہیں۔ خصوصاً 2013ء کے بعد اس مڈل کلاس کے نوجوانوں نے ’’تبدیلی‘‘ کے لفظ کو فلسفہ ٔتبدیلی سمجھ کر یقین کرلیا ہے۔ عمران خان کو ایک ایسا مسیحا مان لیا ہے، جو معجزہ کرے گا اور سماج، نظام اور پاکستان بدل جائے گا۔ کتنے نادان ہیں یہ نوجوان، ان میں بڑے پڑھے لکھے، تعلیم یافتہ حتیٰ کہ اہل الرائے نوجوان دیکھ رہا ہوں، جو یہ سادہ سی حقیقت ہی نہیں جانتے کہ موجودہ حکومتی ڈھانچے، قائم ریاستی نظام، سول وملٹری بیوروکریسی تو سٹیٹس کو کے ستون ہیں۔ بھلا ان ’’ستونوں‘‘ کے ہوتے ہوئے بھی نظام بدل سکتا ہے؟
پچھلی دو تین صدیوں میں مجھے کوئی مسیحا دکھا دیں جس کسی نے اپنے ملک وقوم کی قسمت بدلی ہو، یورپ کے سرمایہ داری نظام سے لے کر سوشلسٹ نظام رکھنے والے ممالک میں، جہاں بھی تبدیلی آئی، تب ہی آئی جب موجود معاشی، سیاسی، حکومتی، حکمرانی، اقتصادی اور ریاستی ڈھانچے کو بدلا گیا۔ اس کے لیے اہم بنیادیں تیار کی گئیں۔ -1 فکر کی بنیاد، اپنی سیاسی جماعت سے لے کر عام لوگوں تک نئی فکر کی آبیاری۔ -2 متبادل طرزِحکومت و حکمرانی۔ -3 نیا معاشی نظام۔ فقط تقریر کرلینے سے ، اعلان کردینے سے حتیٰ کہ ’’نیک نیتی‘‘کے جذبے سے بھی کہیں بھی تبدیلی برپا نہیں ہوتی۔ روس کا 1917ء کا انقلاب ہو، یورپ میں سوشل ڈیموکریسی کا نظام اور موجودہ ترکی کا نظام جو 1923ء میں ایک باقاعدہ سیاسی جدوجہد، فکر وسیاسی فلسفے سے بدلا گیا، ہر جگہ درج بالا اقدامات اٹھائے گئے۔ کہیں بھی مسیحا نہیں آئے۔ معصوم لوگ، سٹیٹس کو کے تحت ہونے والے 25جولائی 2018ء کے انتخابات اور اُن کے نتائج کے بعد معجزوں کے منتظر ہیں۔ ایک ایک دن گنتے چلے جائو، پھر مہینے اور جب آخری سال آئے گا تو یہی وزرا، حکام، لیڈر کہیں گے، ہمیں کام ہی نہیں کرنے دیا گیا۔ اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ ’’ہمیں ورثے میں مسائل ملے ہیں‘‘، اس کا جواب میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ لیڈرشپ تو ہوتی ہی وہ ہے جو مسائل کو حل کردے، جو نہ کرسکے وہ لیڈرز نہیں، اشرافیہ ہوتی ہے۔ نالائق اور خودغرض اشرافیہ۔
میں خاتونِ اوّل بشریٰ بی بی کے انٹرویو پر بہت کچھ لکھ سکتا ہوں اور میرا حق بھی ہے۔ اگر انہوں نے ایک انٹرویو دیا ہے اور مصلیٰ پر ہی رہنے کی زندگی کے ساتھ خلق خدا کی خدمت کا انہیں شعور حاصل ہوا ہے اور اسی کے تحت انہوں نے ایک نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیا تو میرے جیسے خلق خدا کی خاطر مسلسل جدوجہد کرنے والے کا حق ہے کہ اُن سے سوال کروں، تنقید کروں اور رائے دوں۔ یہاں صرف دو باتیں عرض کردوں۔ ’’بی بی آپ کو یہ شعور ہی نہیں کہ سیاست دان کسے کہتے ہیں اور لیڈر کسے۔ آپ نے عالم اسلام میں دو رہبروں کو لیڈر قرار دینے کا اعلان فرمایا ہے۔ عمران خان اور ترکی کے طیب اردوآن۔ اگر میں یہ عرض کروں کہ آپ کو اس عظیم لیڈر اردوآن کا ادراک ہی نہیں کہ وہ کیا ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ آپ کو یہ معلوم ہی نہیں کہ عالم اسلام کے یہ عظیم لیڈر جناب اردوآن ، آپ کے شوہر نامدار جن کو آپ نے عالم اسلام کا دوسرا عظیم لیڈر قرار دیا ہے، وہ اُن سے کس قدر نالاں ہیں۔ اگر آپ جاننا چاہیں تو مجھ ناچیز سے پوچھیں کہ جناب طیب اردوآن، جناب عمران خان سے کس قدر نالاں اور کیوں نالاں ہیں۔ آپ کے غیب کا علم ، اس راقم کے ’’موجود کے علم‘‘ کے سامنے شاید ہیچ ہوجائے۔ ‘‘
میں سیاست کو تعمیری عمل سمجھتا ہوں۔ یہ سیاست ہی ہے جس کے بَل پر قائداعظم محمد علی جناحؒ نے سیاسی عمل سے دنیا کی سب سے بڑی مسلمان ریاست آزاد کروائی۔ وہ کسی دَم، ٹونے ٹوٹکے، تعویذ گنڈے دھاگے سے معرضِ وجود میں نہیں آئی۔ نہ ہی جنات یا کسی موکل نے اس مملکت کو آزاد کروایا۔ یہ لاکھوں لوگوں کی جدوجہد، قربانیوں اور اُن کے رہبروں کی جہد مسلسل تھی۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کسی غائب کی طاقت نہیں، ’’موجود طاقت‘‘ یعنی سیاسی جدوجہد، عوام کی اجتماعی جدوجہد اور اپنی سیاست سے اس ناممکن کام کو ممکن کردکھلایا۔ میرے وطن کے سادہ لوح عوام بے چارے جو بیانات اور اعلانات پر ہی یقین کرلیتے ہیں،یہ سادہ لوگ ان کے اقتدار کا ایندھن ہیں۔ تیزرفتاری سے بڑھتی آبادی رکھنے والی اس ریاست میں استحصال کے لیے نئی نسلیں ،نئی فصلوں کی طرح ہر پانچ سال بعد اٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔
سب سے پہلے پاکستان، جمہوریت بہترین انتقام، ایشین ٹائیگر اور تبدیلی کے اعلانات کے مارے لوگ۔ ان چار نعروں میں جو اکتوبر 1999ء کے بعد کے ہیں، اس دوران دو نسلیں جوان ہوکر استحصال کیے جانے کے لیے تیار ہوئی ہیں۔ کبھی امریکہ ہمارا سب سے بڑا حامی وناصر تھا، کبھی چین اور کبھی کشکول توڑنے کے دعوے۔ ورثے میں وسائل ملنے کے اعلانات کرنے والے ان لیڈروں کو ذرا غور سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ درحقیقت جہاں ورثے میں مسائل ملتے ہیں، وہیں ورثے میں یہ لیڈر بھی ملتے ہیں۔
“