دیکھئے آپ سمجھ نہیں سکتے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔آپ کام کرتے ہیں کام جیسا بھی ہو آپ کو اس کا مناسب معاوضا مل جاتا ہے آپ ایجوکیشن حا صل کرتے ہیں اس لئے کہ آپ سوسائٹی میں عزت پائیں آ پ اپنی اعلی تعلیم کے باعث عزت پاتے ہیں۔ آ پ سچ بولتے ہیں اس لئے کہ سچائی اورسچے لوگوں کی قدر کی جاتی ہے۔ آپ ایمانداری سے کاروبار کرتے ہیں کیوں کہ آپ جانتے ہیں اس کے بنا آپ ترقی نہیں کر سکتے۔ آپ سڑ ک چلتے ہوئے کسی قانون کو توڑنے کی جرائت نہیں کرسکتے۔لیکن میرا مسئلہ اس سے یک لخت الٹ ہے یہاں گنگا الٹی بہتی ہے۔ مجھے اوپر درج بالا باتوں کو الٹے رخ سے بیان کرنے میں شرم آرہی ہے اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ یہاں عزت کے لئے تعلیم کی ضرورت نہیں کاروبار کے لئے ایمانداری نہیں چاہے۔یہاں جھوٹے کے لئے لوگ جھکتے ہیں اور اپنی کیپ اتارتے ہیں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ کوئی بھی اس صورت حال سے باہر نکلنے کی منصوبہ بندی نہیں کر رہا۔ نامعلوم وجوہات کی بِنا پر لوگوں نے یہی بہتر سمجھا کہ وہ ایسے ہی بہتر جی رہے ہیں اکیلے یا اپنے خاندانوں کے ہمراہ اور شاید یہ ان کے لئے منافع بخش بھی ہے بات سیدھی سی ہے وہ بے ایمانی‘ جھوٹ‘ ناانصافی پر خوب خوش ہیں عدالتیں بھی ان کی خوشی میں خوش ہیں وہ انہیں نرا ش نہیں کرتیں۔ اتنا لمبا عرصہ ہو گیا شاید ستر سال نہیں میرے خیال میں یہ اس سے بھی بہت پہلے کی بات ہے اس وقت کی جب نبی کے خانوادے کو انہوں نے سچ کی قربان گاہ پر بلی چڑھایا اور معصوموں کو شہید کیا۔ اس وقت سے ہر کوئی اب عادی ہو چکا ہے کام اور کاروبار میں دوسروں کو چکر دینا اب فیشن ہے‘، شاپنگ مالز میں اب یہ کافی ماڈرن طریقے سے کیا جاتا ہے، کافی پینے ہوئے ہم غیر موجوددوستوں کی بد خویاں کرتے ہیں اور یہ کہ یہ صرف ہم ہی نہیں کرتے جانتے ہیں ہ ہ یہاں بیٹھے ہوں تو وہ بھی یہی کریں گے تو پھر ہم ہی کیوں نہیں۔، سڑک پر غیر متوقع اور اَن چاہی مڈبھیڑ ہو جانے پر ہم دوستوں کو گلے لگاتے ہیں لیکن ہمیں انہیں دیکھ کر ہمیشہ خلش سی رہتی ہے کہ وہ ترقی کیوں کر رہے ہیں اور ہم کیوں نہیں اور کیسے ہم ان کے قد کو چند سنٹی میٹر ہی سہی کم کریں۔ہم دن رات اسی کشٹ میں لگے رہتے ہیں۔
ٓآ پ سوچ رہے ہونگے حکومت کیا کر رہی ہے۔حکومت‘ حکومت کر رہی اسے اس سے فرصت نہیں‘ چناؤ کے وقت چونکہ ہم نے جن لوگوں کو منتخب کیا وہ ہم ہی میں سے تھے اس لئے چناؤ کے فورا بعدانہوں نے ہم سے مطابقت پیدا کر لی یا پھر پہلے ہی سے وہ ایسے تھے یا پھر جب انہوں نے دیکھا کہ کچھ بھی نہیں بدلنے والا تو ان کے پاس اور کوئی چارہ نہ رہا وہ بس حکومت کرنے لگے انہیں اب اس سے کوئی مطلب نہیں کہ کوئی قانون کی پابندی کرتا ہے یا نہیں بس وقت آنے پر انہیں عدالتوں سے جو ریلیف چاہے وہ انہیں مل رہا ہے اب عدالت‘ پولیس اور مسلح افواج کو اور بہت سے کام ہیں وہ لوگوں کے گھروں کے دروازوں پر دستک دینے سے رہے کہ ایماندار ہو جاؤ‘ سچ بولنے لوگو‘ حق کے لئے آواز اٹھاؤ۔۔ ایسی فضول آوازیں ویسے بھی سماج کا ماحول خراب کرتی ہیں۔پھر اب پولیس‘ عدالت کی کسی کو ضرورت ہی نہیں رہی وہ جن کیلئے بنائی گئیں تھیں وہ تو اب خود انہیں چلا رہے ہیں۔شریف لوگ اب وہاں نہیں جاتے وہ سڑکوں پر اپنے معاملات نپتانے لگے ہیں۔
پھر ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے اس لئے کسی کو یاد بھی نہیں کہ کبھی زندگی میں انہوں نے سچ بولا بھی تھا یا نہیں لگا تار حرام کھانے کے باعث ہلال کا ذائقہ وہ بھول چکے ہیں ہزار ہا سالہ خباثت کی دریافت یا اس سے بھی لمبے عرصہ کی کار گزاری کے بعد عام طور پر یہ آسان نہیں ہوتا کہ آپ کو یہ یاد رہے کہ آپ کس کو ماننے والے ہیں اور ہادی کے کیا احکامات تھے آپ کا ایمان ہے کہ گھر بار چلانے کے لیے سچ کی نہیں پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ حرام ہلال کیا ہے ایسا بھی نہیں ہے کہ آپ اس کے لیے کوشش بھی نہیں کر رہے۔ یقیناً اس بات کا تعلق بہت سی کتابوں کے متن سے ہے جنہیں اب کسی کو پڑھنے کی ضروت پیش نہیں آتی اس طرح کی کتابیں کچھ سکولوں میں اب بھی پڑھائی جاتی ہیں لیکن وہ ایسے لوگ ہیں جن کا سماج میں کوئی مقام نہیں پھر جانے وہ سکول ہیں یا پھر قید خانے؟ مجھے اس دبلے پتلے لڑکے، جس کی مسیں ابھی بھیگ رہی تھیں، ہلکی سی یاد آتی ہے، جس نے سچ بولنے کی تلقین کی تھی اور پھر لوگوں نے پتھر وں سے اسے وہیں ختم کر دیا تھا۔ انتشار سماج کے لئے مہلک ہے بے شک وہ سچائی اور ہلال حرام کی پہچان کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو اسے کوئی برداشت نہیں کرتا۔
آپ اپنے گھر سے نکلیں‘ کچھ خریدیں‘ قا نون توڑیں‘ چوری کریں‘ اس سیٹ پر جا بیٹھیں جس کے آپ اہل نہیں ہیں آپ اپنی گاڑی سے کسی انسان کا سر کچل دیں کوئی پریشانی نہیں‘ آپ کے ارد گرد یہی کچھ تو ہو رہا ہے پھر پریشانی کی کیا بات ہیبس آپ کو چلتے رہنا ہے‘ آپ جس مشینری کا ایک پرزہ ہیں وہ ایسے ہی کا موں کے لئے بنائی گئی ہے دنیا کا نظام نکمے لو گوں کے ہا تھوؓں میں نہیں آنا چاہے دشمن کا سامنا کر نے کے لئے اسی کی طرح کا ظالم ہونااسی سطح کی خبا ثت‘ اسی سطح کی درندگی چاہے وہ کسی بھی شریف انسان کے بس میں نہیں۔ حکومت کے لئے بد قماش لو گوں کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے ڈھونڈ ڈھونڈ کے پاریلمنٹ اور اداروں میں لائے جاتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بد قماش نہیں یا ان سے کم ترہیں آپ سوچنا تو شروع کر یں آپ حیران ہو جائیں گے لیکن پھر بھی آپ کو صحیح طور پر اندزہ نہیں ہو سکے گا کہ آپ کس پائے کے خبیث اور بدقماش ہیں۔ پتہ توتب چلتا ہے جب کسی دوسرے سے یہاں آپ کا واسطہ پڑتا ہے اور دونوں طرف سے یکساں وراچھیں اور دانت دکھائی دیتے ہیں۔۔تب جا کر پتا چلتا ہے کہ سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں اور آپ میں سے کوئی بھی صدر وزیراعظم یا پھر کسی بھی ادارے کا سربراہ بنے کی اہلیت رکھتاہے یہاں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔
جب کوئی کہتا ہے کہ کافر اور آپ میں کوئی فرق نہیں رہا آپ ان سے بھی بد تر ہو گئے ہیں تو آپ کا دل تیزی سے دھڑکنے لگتا ہے۔ آپ کے پھیپھڑوں میں ہوا سیٹیاں بجانے لگتی ہے اور آپ کو یوں لگتا ہے جیسے آپ کے کا نوں میں تیزاب انڈھیل دیا گیا ہے آپ کو فوراً یہ یاد آ جاناچا ہے کہ آپ نے اس صورت حال میں کیا کرنا ہے۔ آپ کو تیزی سے اس کے پاس سے گزر جانا ہے اور جب وہ اپنی بھونڈی اور پھٹی ہوئی آواز میں سچ بو لتا ہے تو اس کے کوئی معا نی نہیں ہوتے آپ کو بس منہ پھیر کر دوسری طرف دیکھتے ہوئے بس اس طرح وہاں سے نکلنا ہے کہ اس سے آپ کی آنکھیں چار نہ ہو سکیں، ایسے انسان سماج کے لئے نا سور ہیں اور جو وہ کہہ رہے ہوتے ہیں سب بکواس کے سوا کچھ بھی نہیں یہاں ان متروک اشیا کہ چنداں کسی کو ضرورت نہیں اور آپ کا دل اگر اس کی بات پر پسیجے بھی تو اسے پھر سے بلاتاخیر سخت ہو جا نا چاہے ورنہ اس مرض کا کوئی علا ج نہیں اور آپ اس سماج میں جینے کے قابل نہ رہیں گے۔
****