گھمسان کا رن پڑ رہا تھا۔ ازبک بہادری سے لڑ رہے تھے۔ وہ بہادری جو تاریخ میں ہمیشہ ان کا نشانِ امتیاز رہی ہے۔ مغل بھی کچھ کم نہ تھے۔ فرق یہ تھا کہ مغلوں کی فوج اپنے وطن سے سینکڑوں میل دور تھی اور ازبک بلخ کا دفاع کر رہے تھے۔ بظاہر مغلوں کی فتح کے آثار نہیں تھے۔ اچانک مغل فوج کا فیلڈ کمانڈر شہزادہ اورنگ زیب گھوڑے سے اُترا اور گھمسان کی لڑائی کے بالکل درمیان ظہر کی نماز پڑھنے لگا۔ بلخ کا حکمران نذر محمد خان جو ازبکوں کی قیادت کر رہا تھا، یہ منظر دیکھ کر دل شکستہ ہو گیا۔ اورنگ زیب کی ہیبت اُسے لے ڈوبی۔ ”ایسے شخص سے لڑنا بیکار ہے۔ اسے کوئی شکست نہیں سے سکتا“ اُس نے سوچا اور پھر ازبک ہار گئے۔ شاہ جہان کی فوج نے بلخ پر قبضہ کر لیا۔
شاہ جہان کی ہوس ملک گیری اور اُسکے لشکر کی ”نمازی“ قیادت نے بلخ کے مسلمانوں کی زندگی کو جہنم بنا دیا۔ پورے علاقے کی کھیتیاں اور باغات تباہ و برباد ہو گئے۔ مغل قبضے کے پہلے سال صوبے کی پیداوار نصف رہ گئی۔ دوسرے سال اس سے بھی آدھی ہو گئی۔ تجارت ختم ہو گئی۔ افغانوں نے مغل افواج کےخلاف گوریلا جنگ شروع کر دی اور اقتصادی سرگرمیاں صفر ہو گئیں۔ ازبک کرنسی جسے ”خانی“ کہتے تھے اپنی قدر کھو بیٹھی اور لوگ مفلوک الحال ہو گئے۔ شاہ جہانی فوج اس سے بھی بدتر حال میں تھی۔ قحط کی صورتحال میں بلخ پر قبضہ برقرار رکھنا ناممکن ہو گیا اور مغلوں نے اعلان کردیا کہ ہم ”حالات درست“ کر کے واپس جا رہے ہیں۔ یہ وہی اعلان ہے جو امریکی عراق اور افغانستان سے نکلتے وقت کیا کرتے ہیں! بے پناہ سردی اور برفباری میں واپس جاتی ہوئی مغل فوج تعداد میں کم ہوتی گئی۔ قبائلیوں نے حملے کر کر کے ستیاناس کر دیا۔ چار کروڑ روپے اس مہم پر صرف ہوئے جس کا حاصل کچھ نہ نکلا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب لڑائی کے دوران اورنگ زیب نے نماز پڑھی تو بلخ کے حکمران نذر محمد اور اُسکے بیٹوں عبدالعزیز اور سبحان قُلی نے اسکی نماز سے متاثر ہونے کے بجائے اُسے یہ پیغام کیوں نہ بھیجا کہ اِس نماز سے کیا حاصل جب تم مسلمانوں کو قتل کر رہے ہو؟ مغلوں کے ایک ہزار لشکری ہلاک ہوئے جن میں ہندو بھی تھے جبکہ چھ ہزار مارے جانےوالے ازبک سارے کے سارے مسلمان تھے! شاہ جہاں نے بلخ پر لشکر کشی سے پہلے اپنے وقت کے نامور ترین عالم مُلا فضل کابلی سے مشورہ کیا تو مُلا صاحب نے بلاخوف و خطر کہا کہ بلخ کے لوگ مسلمان ہیں ان پر لشکر کشی کرنا شرعی قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس کا نتیجہ نقصان اور تباہی کے سوا کچھ نہ ہو گا!
اگر مسلمان کو جانچنے کا میعار اُسکا نمازی ہونا ہوتا تو عمر فاروق اعظمؓ یہ معیار ضرور قبول کر لیتے لیکن انہوں نے اسے معیار ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ انہوں نے ایک شخص کے بارے میں مسلمانوں سے رائے لی۔ بتایا گیا کہ صوم و صلوٰة میں مستغرق رہتا ہے۔ فرمایا نہیں، یہ بتلائو کہ وہ معاملات میں، لین دین میں اور برتائو میں کیسا ہے؟ یہ ہے وہ معیار جو اسلام نے مسلمانوں کو جانچنے کےلئے مقرر کیا ہے۔ نماز تو سینکڑوں صحابہ کا قاتل حجاج بن یوسف بھی پڑھتا تھا اور پاکستان کے اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے والا جنرل ضیاالحق بھی پڑھتا تھا۔ نماز تو وہ وزیراعظم بھی پڑھتا تھا جس کے بارے میں معروف سفارتکار جاوید حفیظ نے چند روز پہلے انگریزی روزنامے ”نیشن“ میں انکشاف کیا ہے کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے اس نمازی وزیراعظم نے جاوید حفیظ کو تعیناتی کے چند ماہ بعد ہی برما کی سفارت سے اس لئے ہٹا دیا تھا کہ اپنے برادرِ نسبتی کو وہاں پوسٹ کرنا تھا۔ یہ وزیراعظم صرف نمازی ہی نہ تھا اسکے خاندان نے مسجدیں بھی بنوائی تھیں اور علامہ طاہر القادری جیسے علما کی سرپرستی بھی کی تھی!
اپنے اقتدار کےلئے باپ کو آٹھ سال قید کرنےوالے اورنگ زیب پر کیا لازم نہ تھا کہ 1646ءمیں بلخ کے مسلمانوں کی تباہی میں حصہ دار نہ بنتا؟ اور باپ کو سمجھاتا کہ مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی ہلاکت کا کوئی جواز نہیں! یہ اور بات ہے کہ اُس وقت بھی ایسے ”علما“ کی کمی نہ تھی جو ہر حکومتی اقدام کا شرعی جواز تلاش کر لیتے تھے بالکل اسی طرح جیسے آج کے ایک سیاسی مولانا عدلیہ کے مقابلے میں سپیکر کی رولنگ کو درست قرار دے رہے ہیں!
نہیں! جناب! نہیں! اسلام نے معتبر یا غیر معتبر ہونے کا معیار نماز اور روزے کو قرار نہیں دیا۔ یقیناً نماز فرض ہے اور روزہ بھی فرض ہے اور یہ اسلام کے بنیادی ستون ہیں، انہیں ترک کرنےوالا گنہگار ہے اور نہ ماننے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے لیکن یہ معاملہ بندے اور خالق کے درمیان ہے۔ اس سے مسلمان کا معتبر یا غیر معتبر ہونا ثابت نہیں ہوتا ورنہ جب لوگوں نے گواہی دی کہ فلاں مسلمان نماز روزے میں مگن رہتا ہے تو آخر حضرت عمر فاروقؓ نے اس گواہی کو کیوں تسلیم نہ کیا اور یہ کیوں پوچھا کہ وہ معاملات میں کیسا ہے؟
یہی وہ مار ہے جو آج اہل پاکستان کو پڑ رہی ہے۔ مثال کے طور پر یہی دیکھ لیجیے کہ ہماری تاجر برادری کی اکثریت اور اگر اکثریت نہیں تو کم از کم نصف حصہ متشرّع بزرگوں پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ شکل و صورت سے پہلے زمانے کے مسلمان لگتے ہیں اور نماز، روزہ، حج اور عمرہ کے شیدائی ہیں لیکن ہولناک المیہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام اسی تاجر برادری کے آہنی ہاتھوں میں تڑپ رہے ہیں، یہ تاجر برادری، یہ متشرّع کاروباری حضرات معصوم شیرخوار بچوں کے دودھ سے لےکر، لائف سیونگ ادویات تک ہر شے میں ملاوٹ کر رہے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری، کم تولنا، بیچتے وقت شے کا نقص نہ بتانا، خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہ کرنا، ٹیکس چُرانا اور پھر اس کو جائز ثابت کرنا، یہ سب کچھ تاجر برادری کا روزمرہ کا معمول ہے لیکن پھر بھی ان حضرات کا شمار نیکو کاروں میں ہوتا ہے۔ صرف اس لئے کہ ہم نے اسلام کو، جو پوری زندگی کا نگران ہے، صرف حقوق اللہ اور ظاہری شکل و صورت اور لباس تک محدود کر دیا ہے، اصل اسلام تو یہ ہے کہ آپ نے صبح سے لےکر رات بستر پر دراز ہونے تک جو کچھ کیا ہے وہ اسلامی احکام کےمطابق تھا یا نہیں! آپ نے اسلام کی خاطر اپنے نفس کو کُچلا یا اُسکے ہاتھ میں کھیلے؟ مسلمان سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق جائز نہیں۔ کیا آپ نے اپنے ناراض مسلمان بھائی سے تجدید تعلق کیا؟ کیا آپ رشتہ داروں سے صلہ رحمی کر رہے ہیں؟ یا بدلے پر بدلہ لے رہے ہیں؟ کیا آپ اُس گاہک کو تلاش کر رہے ہیں جسے آپ شے بیچتے وقت شے کا نقص بتانا بھول گئے؟ کیا آپ اُس دکاندار کے پاس واپس جا رہے ہیں جس نے غلطی سے آپ کو ایک ہزار یا کئی ہزار روپے زیادہ ادا کر دیے۔ کیا آپ نے ائر کنڈیشنڈ کمرے میں مرغن کھانا کھانے سے پہلے اُن مزدوروں کو کھانا کھلا دیا ہے جو باہر چلچلاتی دھوپ میں جانکاہ مشقت کر رہے ہیں؟ کیا شام کے وقت پُررونق مارکیٹ میں اپنے بچوں کو آئس کریم کھلاتے وقت آپ نے اُس بچے کے بارے میں سوچا ہے جو آپ کی گاڑی کی ونڈ سکرین پر وائپر مار رہا ہے؟ کیا آپ نے ماں باپ کے حقوق اسلامی احکام کےمطابق ادا کئے ہیں؟ کیا آپ نے بستر پر دراز ہوتے وقت حساب لگایا ہے کہ آج جھوٹ کتنی بار بولا اور وعدہ خلافی کتنی بار کی؟ یاد رکھیے، ان سب چیزوں کا حساب آپ سے اُسی طرح لیا جائےگا جس طرح نمازی اورنگ زیب سے چھ ہزار مسلمانوں کے قتل کا حساب ہو گا!